پرویز مانوس
گاؤں کی کچی سڑک کے کنارے جونہی ٹیکسی رُکی تو گاؤں کے لوگ اُس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، دو اشخاص نے نُور محمد کو سہارا دے کر ٹیکسی سے باہر نکالا اور گھر کی طرف لے گئے، پھر کچھ لوگوں نے ٹیکسی کی ڈکی میں سے بستر ،بیگ اور کافی ساری کُتب نکال کر گھر کے ایک کمرے میں رکھ دیں _ ۔
نُور محمد لوگوں سے بھرے کمرے میں ہوتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا، کبھی اُسے زیبا کا خیا ل آتا تو کبھی سمیر کا _۔
لوگ اُس سے کیا کیا سوالات کررہے تھے اُسے کچھ بھی پتہ نہ تھا کیونکہ وہ اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق پلٹنے میں مصروف تھا۔
نور محمد جان پور گاؤں کا پشتنی باشندہ تھا _ باپ دادا کی اچھی خاصی جائیداد تھی۔ _ آبی زمین کے ساتھ ساتھ خشک زمین بھی تھی _ اور دو بڑے سیب کے باغات، جن سے اچھی خاصی آمدن ہوجاتی تھی۔ _ شادی کے تقریباً پندرہ سال بعد اُس کے گھر سمیر نے جنم لیا۔ اس سے قبل اُن کے ہاں دو اولادیں پیدا ہوتے ہی اس دُنیا سے رخصت ہو گئیں۔ _سمیر کو انہوں نے کافی لاڈ پیار سے پالا ۔اکلوتا ہونے کے سبب اُس کی پسند کی ہر چیز اُس کے لئے حاضر رکھی گئی ۔اُس نے ننھے ننھے قدم اُٹھانے شروع کئے تو زیبا نے خوشی سے گاؤں میں بکرا زبح کرکے گوشت تقسیم کیا ۔
وہ بچپن سے ہی بہت چالاک تھا، ہر چیز اور ہر بات پر غور کرتا تھا۔ تھوڑا سمجھدا ہوا تو نور محمد نے گاؤں کے واحد انگلش میڈیم اسکول میں سمیر کا داخلہ کرایا دیا _، وہ نہایت ہی ذہین اور محنتی طالب علم تھا۔ جب اس نے بارہویں جماعت میں امتیازی نمبرات حاصل کیے تو نور محمد نے فیصلہ کیا کہ سمیر کو کوچنگ کے لئے شہر بھیجنا چا ہئے تاکہ وہ وہاں اچھے اور قابل اساتذہ کی رہنمائی میں اینٹرنس کی تیاری کرسکے _۔ چونکہ دولت کی اُس کے پاس کوئی کمی نہیں تھی اُس نے شہر کے سب سے مہنگے کوچنگ سینٹر میں اُس کا ایڈمیشن کرادیا۔
سمیر کی شہر روانگی کے دن پورے گاؤں میں خوشی کا سماں تھا۔ سب لوگ سمیر کی ذہانت اور اس کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے۔ نور محمد اور زیبا نے اپنے بیٹے کو نہایت ہی شفقت سے الوداع کیااور اسے سمجھایا کہ وہ ہمیشہ اپنی پڑھائی پر دھیان دے اور غلط ماحول سے دور رہ کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے _،،
شہر پہنچ کر سمیر کو ایک اچھے کوچنگ سینٹر کے ساتھ بہترین ہوسٹل بھی مل گیا۔ شروع میں تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہا، سمیر دل لگا کر پڑھائی کرتا اور ہر رات اپنے والدین کو فون پر اپنی خیریت بتاتا۔ مگر جلد ہی شہر کی روشنیوں اور نئی زندگی کی چکا چوند نے سمیر کو اپنی طرف مائیل کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ وہ گاؤں سے پہلی مرتبہ شہر وارد ہوا تھا، شہر کی رونق نے جلد ہی اُسے اپنی جانب متوجہ کیا _۔
کوچنگ سینٹر میں سمیر کی ملاقات کچھ نئے دوستوں سے ہوئی جن کے ساتھ اس نے ہاسٹل کے باہر وقت گزارنا شروع کر دیا۔ یہ دوست نہ صرف راتوں کو دیر تک جاگتے _ بلکہ کئی بُرے کاموں میں بھی ملوث تھے _۔
ایک دن ان میں سے ایک دوست کی سالگرہ تھی۔ انہوں نے ہوسٹل میں ہی پارٹی کرنے کا پروگرام بنایا اور رات دیر تک موج مستی ہوئی، پھر سب اپنے کمروں میں چلے گئے _۔ صبح جب سمیر جاگا تو اُس کا تمام جسم تھکاوٹ سے چُور تھا، سربھاری ہورہا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ اُس نے کوئی نشیلی چیز کھالی ہو۔ وہ پھر بے سُدھ ہو کر بستر پر پڑا رہا جبکہ اُس کا ساتھی کوچنگ کلاسس کے لئے نکل پڑا۔
ابھی اُس کو شہر میں تین ہی ماہ ہوئے تھے اُس کی فرمائش پر نور محمد نے اُسے مہنگی موٹر بائیک خرید کر دی تاکہ اُسے آنے جانے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ _ سمیر کو اپنی ماں سے بے حد لگاؤ تھا۔ زیبا کو یہ خدشہ تھا کہ معلوم نہیں کہ وہ اُس کے بغیر شہر میں رہ بھی سکے گا کہ نہیں یہی وجہ تھی کہ وہ ہر سنیچر کو گھر آتا اور سوموار صبح کوچنگ سینٹر پہنچ جاتا _۔ تین ماہ کے بعد جب کوچنگ سینٹر میں ٹیسٹ ہوا تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سمیر نے سب سے زیادہ نمبرات حاصل کئے تھے۔ بس تب سے ہی سب لڑکوں نے اُسے ڈاکٹر کہنا شروع کردیا تھا۔ کچھ روز بعد سمیر کا برتھ ڈے تھا۔ پھر ایک بار ہوسٹل میں جشن منایا گیا اور اس دوران دوستوں نے اُسے کہا’’ سمیر آج تمہارا برتھ ڈے ہے۔ آج ہم تجھے ایسا تحفہ دیں گے کہ تم بھی کیا یاد کرو گے‘‘۔ _ پھر ایک دوست نے اُسے کچھ پائوڈر سا کاغذ پر رکھ کر سونگھنے کو کہا۔ _ سمیر نے جونہی وہ سونگھا تو اُسے ایسا محسوس ہوا کہ اُسے پنکھ لگ گئے ہیں اور وہ فضاؤں میں اُڑ رہا ہے۔ پارٹی ختم ہوئی تو سبھی دوست اپنے کمروں میں چلے گئے _۔ صبح کو سمیر کی پھر وہی حالت تھی رات کا سرور ابھی تک اُس کے ذہن پر چھایا ہوا تھا اور اُسے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ کسی جنت میں ہے۔
دفعاً دروازے پر دستک ہوئی تو سمیر نے بستر پر لیٹے لیٹے ہی کہا _ ،،
کون ہے؟ آجاؤ ۔۔۔دروازہ کُھلا ہے _
ڈاکٹر صاحب۔۔۔! کیوں کیسا لگا برتھ ڈے گفٹ؟ نبیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
یار یہ تو کمال کی چیز ہے۔۔۔!
کیوں ہے نا کمال کی چیز؟
نبیل نے اُسے اُکساتے ہوئے کہا تو سمیر مچل اُٹھا،،
تھوڑا اور دے دو ۔۔۔!
ڈاکٹر صاحب! یہ معمولی چیز نہیں، بہت قیمتی شے ہے _۔
قیمت کی تم فکر مت کرو، بس دلادو۔۔! سمیر نے لحاف ایک طرف پھنکتے ہوئے کہا تو نبیل نے کہا رقم ساتھ لے کر میرے ساتھ آؤ میں تمہیں جنت کی سیر کراتا ہوں۔ سمیر کو جیسے خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو اُس نے جلدی سے اپنے بیگ میں سے کچھ روپے نکالے اور نبیل کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا _۔
رفتہ رفتہ سمیر کو ان دوستوں کی صحبت میں مزہ آنے لگا اور وہ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ منشیات استعمال کرنے لگا۔
اب اُس نے بہانہ بناکر سنیچر کو گھر جانا ترک کردیا اور موج مستی میں پوری طرح ڈوب گیا۔ _ہر ہفتے وہ باپ کو فون کرکے بتاتا کہ آج مجھے یہ لانا ہے،آج مجھے وہ لانا ہے جس کے لئے اُسے کچھ پیسے درکار ہیں _۔ نور محمد خود زیادہ پڑھا لکھا تو تھا نہیں اس لئے وہ کچھ تحقیقات کئے بغیر سمیر کے اکاونٹ میں رقم منتقل کروا دیتا _ ۔
شروع میں تو سمیر کو لگا کہ وہ اس پر قابو رکھ سکتا ہے مگر جلد ہی منشیات کی عادت اس پر حاوی ہو گئی۔
اس جال نے اُسے بُری طرح جکڑ لیا۔ اس کی پڑھائی متاثر ہونے لگی، وہ کلاسوں سے غیر حاضر رہنے لگا اور پھر ششماہی امتحانات میں اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سمیر کو اپنی اس حالت کا احساس ہوا مگر وہ اس عادت سے چھٹکارا نہ پا سکا۔ وہ دن بھر اپنے کمرے میں بے سُدھ پڑا رہتا _۔
ایک دن سمیر نے نبیل کو فون کرکے کہا ” یار نبیل کوٹا تو ختم ہوگیا، پلیز تھوڑا سا دلوا دو تو نبیل نے کہا رقم میرے اکاونٹ میں منتقل کردو تو کوٹا مل جائے گا ،
یار اس وقت میرے پاس پیسے نہیں ہیں گھر سے رقم ملتے ہی دے دوں گا ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔،،سمیر نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہا تو نبیل بولا ،
پیسے نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں، تمہارا موٹر سائیکل کب کام آئے گا۔
سمیر کے چہرے کا رنگ ذرد ہوچکا تھا اور جسم کانپ رہا تھا، تھوڑے توقف کے بعد بولا _،،
ٹھیک ہے تو مال لے کر آ میں تجھے بائیک کی چابی دیتا ہوں _،،
دوسری طرف نُور محمد اور زیبا سیب کی فصل ٹھکانے لگانے میں اس قدر مصروف تھے کہ اُنہیں سمیر کی حالت کا کچھ علم نہیں تھا۔ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ پڑھا ئی میں پوری طرح مگن ہے پھر بھی وہ اپنے بیٹے کی طرف سے آنے والی فون کالز کا انتظار کرتے رہتے اور دعا کرتے کہ سمیر کامیاب ہوکر لوٹے _۔۔۔
ایک شام جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو زیبا نے نُور محمد سے کہا _” کئی دن سے سمیر کا فون نہیں آیا میرا دل گھبرا رہا ہے، کل جاکر سمیر کو مل آؤ تو نُور محمد نے نوالہ حلق سے اُتارتے ہوئے کہا،، تُو فکر مت کر سمیر بڑا سمجھدار بچّہ ہے سوچتا ہوگا ہم کام میں مصروف ہیں ۔۔۔کل بیوپاری چلا جائے گا پرسوں میں اُس کے دوستوں کے لئے ڈیلیشسس سیب کی پیٹی لےکر جاؤں گا،، ابھی وہ کھانا ہی کھارہے تھے کہ ہاسٹل سے ایک فون کال نے ان کی دنیا ہلا کر رکھ دی۔۔۔
“السلام علیکم، کیا میں نُور محمد سے بات کر سکتا ہوں؟” ہاسٹل کے وارڈن کی آواز میں تشویش تھی، آپ کون بول رہے ہیں؟ نُور محمد نے تجسس میں پوچھا۔،،
جی میں سمیر کے ہاسٹل کا وارڈن بول رہا ہوں _،،
“جی، میں نُور محمد ہی بول رہا ہوں۔ کیا بات ہے؟” نُور محمد نے دل کی دھڑکنوں کو قابو کرتے ہوئے جواب دیا۔
“سمیر کی طبیعت بہت خراب ہے، اسے فوراً اسپتال لے جانا پڑا ہے۔ آپ فوراً شہر پہنچیں ۔” وارڈن نے مختصر سی بات کہہ کر فون رکھ دیا۔،،
نُور محمد اور زیبا علی الصبح شہر کے لیے روانہ ہوئے،
نیلے رنگ کی ٹیکسی اسپتال کے احاطے میں داخل ہوئی تو اُس میں سے نُور محمد اور زیبا نکل کرتیز تیز چلتے ہوئے اسپتال کی وارڈ میں داخل ہوگئے جہاں اُن کا اکلوتا لختِ جگر سمیر بیڈ پر بے سُدھ پڑا ہوا تھا _۔
سمیر کی حالت دیکھ کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی سمیر بیڈ پر بے ہوش پڑا تھا، اس کا جسم کمزور اور رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔،،
زیبا بیڈ کی دائیں جانب بیٹھ کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔
” بیٹا یہ تو نے کیا کردیا؟
کن خطاؤں کی سزا دی ہمیں؟
ہم نے کیا کیا خواب سجائے تھے۔،
ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔! میرے بیٹے کو کیا ہوگیا ہے؟
کیا ہوگیا ہے میرے بیٹے کو؟
اسے بچا لیجئے۔۔۔۔۔۔۔اسے بچا لیجئے۔۔۔!
دیکھئے! فی الحال اسے وینٹلیٹر پر شفٹ کرنا ہے
ہمیں اپنا کام کرنے دیجئے _،
چلو اُٹھاؤ اسے بیڈ سے ڈاکٹر نے اسپتال کے عملہ سے کہا اور آگے بڑھ گیا ۔،،
پھر چار لوگوں نے سمیر کو بیڈ سے اُٹھا کر اسٹیچر پر رکھا اور وینٹیلیٹر روم کی جا نب لے گئے _ ۔
آپ باہر ہی ٹھہرئیے ۔۔! ایک ملازم نے نور محمد سے کہا تو اُس کے چلتے قدم تھم گئے _ کمرے کا دروازہ بند ہونے کے بعد نورمحمد کھڑکی کے شیشے سے اُس کو دیکھنے لگا،
وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہا تھا لیکن اب تو چڑیا کھیت چُگ چُکی تھی۔
ڈاکٹر صاحب ۔۔۔! میرے بیٹے کو ہوا کیا ہے؟ نُور محمد نے وینٹیلیٹر روم سے نکلتے ہوئے ڈاکٹر سے دریافت کیا تو ڈاکٹر نے کہا،
“آپ کے بیٹے نے منشیات کی زیادہ مقدار استعمال کی ہے، جس سے اس کا جسم اندر سے بہت کمزور ہو چکا ہے۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔!
منشیات!!!!! یہ کیسے ہوگیا؟ وہ تو باکل سیدھا سادہ لڑکا تھا۔،،
یہ تو آپ والدین کو معلوم ہونا چاہئے، جو اپنے بچوں کو شہر میں بے مہار چھوڑ دیتے ہیں۔ _یہ سب آپ کی کو تاہی کی وجہ سے ہوا ہے _۔ ڈاکٹر نے غُصے میں کہا اور برآمدے کی جانب چلدیا۔،،
ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ یہ منشیات کیا ہوتا ہے؟ زیبا نے نور محمد سے سادگی سے پوچھا تو نورمحمد ماتھا پیٹتے ہوئے بولا۔
’’ہم لُٹ گئے زیبا ۔۔۔۔۔۔۔ہم لُٹ گئے۔۔۔!
ہماری تمام اُمیدوں پر پانی پھر گیا _ ،
ہماری زندگی کا چراغ بے نُور ہوگیا،
سمیر ایک ایسی کھائی میں جا گرا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا‘‘۔۔۔
’’اگر میرے سمیر کو کچھ ہوگیا تو میں مرجاؤں گی‘‘۔ زیبا اپنے بال نوچنے لگی _۔۔۔۔
’’نُور محمد کون ہے‘‘،اتنے میں اسپتال کے ایک ملازم نے آواز دی
میں ہوں نُور محمد ۔۔۔! کیا بات ہے اُس نے سوکھے ہوئے لبوّں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب بُلا رہے ہیں _۔
وہ ٹوٹتی ٹانگوں سے وینٹیلیٹر روم کے دروازے تک پہنچا تو ڈاکٹر نے کہا،،
’’بابا ہم نے کافی کوشش کی لیکن ہم تمہارے بیٹے کو بچا نہیں سکے‘‘، یہ سُنتے ہی نورمحمد کو چکر آگیا اور وہ دیوار کا سہارا لے کر زور سے چلایا میرا بیٹا۔۔۔۔۔!
پھر جب اُسے ہوش آیا تو زیبا کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ جمع تھی وہ زور زور سے ہنس ہنس کر بول رہی تھی میرا سمیر ڈاکٹر بن گیا۔۔۔۔۔۔
میرا سمیر ڈاکٹر بن گیا… ہا ہا ہا ہا ہا ہا
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487