افتخار دانش
دہلی کے گول مارکیٹ کا ایک کونا، رات کے گیارہ بجے کا وقت، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور بیچ بیچ میں گاڑیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہیں ایک طرف بیٹھا تھا فیصل، پھٹے پرانے بیگ میں لیپ ٹاپ اور آنکھوں میں خوابوں کا طوفان لیے ہوئے۔ 20 سال کا یہ لڑکا دن میں کوچنگ میں پڑھاتا، رات کو کوڈنگ کرتا۔ ایک ایپ بنا رہا تھا، وہ بھی یہ سوچتے ہوئے کہ شاید زندگی بدل جائے۔
کچھ سوچتے ہوئے اُس نے اپنا سر اُٹھایا… تبھی اُس کے سامنے آئی مہناز ، کالے سوٹ میں جگمگاتا ہوا چہرہ۔ جب وہ سامنے آئی تو جیسے رات نے چاندنی اوڑھ لی ہو۔ اُس کے سوٹ کی شکنوں میں وقار تھا، اور اُس کی چال میں ایسی نرمی جیسے ہوا بھی تھم کر اُسے دیکھے۔ کالے رنگ کی سنجیدگی اُس کے معصوم چہرے پر اور بھی نکھر رہی تھی،جیسے اندھیرے میں خاموشی سے کھلتا ہوا کوئی گلاب۔
اُس کی کالی چُنری ہلکے سے اُڑ رہی تھی، جیسے خود آسمان اُس سے باتیں کرنے کو بیتاب ہو۔ آنکھیں گہری نیلی، ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور ماتھے پر چھوٹی سی بندیا جیسے سارے عنایات مل کر اُسے ایک چلتی پھرتی نظم بنا رہے تھے۔
وہ کوئی پری نہیں تھی، نہ ہی کوئی فلمی ہیروئن بلکہ لیکن اُس کالے سوٹ میں، اُس کی سادگی ہی اُس کا زیور بن چکی تھی۔ اور اُس ایک لمحے میں، وقت نے خود کو روک لیا تھا… صرف اُسے دیکھنے کے لئے۔
کیونکہ کچھ رنگ سیاہ نہیں ہوتے وہ بس ایک راز بن جاتے ہیں۔ اور وہ لڑکی، اُس راز کی سب سے خوبصورت کہانی تھی۔
وہ راستہ بھٹک گئی تھی۔
“ایکسکیوز می، مجھے کنّاٹ پلیس جانا ہے؟” اُس نے پوچھا۔
فیصل اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، اُس کی آواز سن کر چونک گیا، جیسے کسی نے نیند سے جگایا ہو۔
“رات کے اس وقت؟ اور اکیلے جانا ٹھیک نہیں ہے… کہیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں۔”
پہلی بار کوئی امیر لڑکی ایک غریب لڑکے کی بائیک پر بیٹھی تھی، لیکن فضا میں کچھ اور ہی تھا، کوئی جھجک نہیں بس دھڑکنوں کی رفتار۔
کچھ رسمی باتیں ہوئیں، اِسی دوران مہناز کو فیصل کے کوچنگ سینٹر کا پتہ چلا۔
مہناز بائیک سے اُتر کر “تھینکس” کہتے ہوئے اُسے غور سے دیکھنے لگی…
فیصل کی خوبصورتی کوئی دکھاوے کی چیز نہیں تھی، وہ تو اُس کی آنکھوں میں چھپی ہوئی آگ اور چہرے کی معصومیت میں بستی تھی۔ اُس کے چہرے پر اب بھی لڑکپن کی ہلکی سی چھاپ تھی لیکن جب وہ کچھ سوچتا، اُس کی آنکھوں میں ایسی سنجیدگی اترتی کہ وقت بھی ٹھہر جائے۔
گہری بھوری آنکھیں، جو خوابوں سے نہیں، جدو جہد سے چمکتی تھیں۔ بال تھوڑے بکھرے ہوئے، جیسے وہ ہمیشہ کسی الجھن میں کھویا رہتا ہو۔ ہونٹوں پر ایک مستقل ہلکی سی مسکراہٹ تھی نہ زیادہ نہ کم ،بس اتنی کہ کسی کا دل بہل جائے۔ اُس کی مسکراہٹ میں کوئی مصنوعی مٹھاس نہیں تھی، بس سچائی کی خاموش سی گرمی تھی۔
اُس کی جسامت مضبوط تھی مگر بدن کسا ہو ا نہیں تھا۔ — سادہ ٹی شرٹ اور جینز بھی اُس پر ایسے سجتے تھے، جیسے فیشن اُسی کے لئے بنا ہو۔ لیکن اصل کشش اُس کے الفاظ میں تھی، جب وہ بولتا، تو آواز میں اعتماد ہوتا اور نظروں میں مقصد۔
فیصل کی خوبصورتی اُس کے چہرے میں نہیں، اُس کے کردار میں تھی۔ ایک ایسا نوجوان جو خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے بھی زمین سے جڑا رہا اور جس نے اپنے خوابوں کو عزت کی چادر میں لپیٹ کر سینے سے لگا رکھا تھا۔
وہ کوئی شہزادہ نہیں تھا مگر اُس میں کچھ تھا جو رُک کر دیکھنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ ایک چمک تھی جو صرف باہر سے نہیں، اندر سے آتی تھی۔
‘محبت کی کوڈنگ۔
ہفتوں بعد، ایک دن اچانک مہناز آئی اس بار اُس کی کوچنگ میں۔
اس بار باتیں غیر رسمی انداز میں ہوئیں…
“تمہارا میتھ اچھا ہے… لیکن تمہاری باتیں زیادہ دلچسپ ہیں۔” مہناز بولی۔
فیصل مسکرایا، تھوڑی شرم، تھوڑی حیرانی۔
راتوں کو وہ کوڈ اور شاعری آپس میں بانٹتے۔ ایک اُس کی آنکھوں میں جادو دیکھتا اور دوسرا اُس کی محنت میں محبت اور لگن۔
ایک شام، انڈیا گیٹ کے پاس اُس نے کہا، “مہناز ، تم جیسی کوئی آج تک میری دنیا میں نہیں آئی۔”
اُسے محبت ہو گئی تھی۔
مہناز نے اُس کی ہتھیلی تھامی،”اور کوئی آئے گی بھی نہیں۔” اُس نے اعتماد سے اپنا پیار جتایا۔
ایک رات، فیصل کا ایپ وائرل ہو گیا، انٹرویوز، اسٹارٹ اپ آفرز اور ایک نئی دنیا۔ سب کچھ ایک کے بعد ایک ہوتا چلا گیا ۔
لیکن اُسی دن مہناز کے پاپا نے اُنہیں ساتھ ہنستے بولتے دیکھ لیا۔
“ایک غریب لڑکے سے اتنی قربت ٹھیک نہیں۔ ہماری عزت مٹی میں مل جائے گی!”
مہناز نے پاپا کو سمجھانے کی کوشش کی، اُس کی صلاحیت کی دلیل دی۔ پاپا سخت بنے رہے، اُنہیں اپنی شان اور ایمپائر زیادہ عزیز تھا۔
فیصل نے کہا، “میں لڑوں گا۔ تمہارے لئے، ہمارے لئے۔”
مہناز بولی، “تم سے محبت ہے… لیکن مجھے ڈر لگتا ہے… خود سے، دنیا سے…”
‘آخری ملاقات
وہ شام آخری تھی۔
ایک گھنے پیڑ کے نیچے، ٹھنڈی ہوا اور بھاری خاموشی۔
“چلو بھاگ چلتے ہیں،” فیصل نے کہا۔
مہناز نے سر جھکا لیا، “ماں کی قسم کھائی ہے… میں نہیں جا سکتی۔”
وہ اُٹھی، فیصل کو گلے لگایا، تھوڑی دیر یونہی اُس سے لپٹی رہی، پھر الگ ہوکر گہری سانس لی… جیسے پوری عمر جی لی ہو۔
“میں تمہیں بھول جاؤں گی، شاید… لیکن تم خود کو اور اپنی منزل کو مت بھولنا۔”
پانچ سال بعد،
فیصل اب فوربز لسٹ (Forbes list’) میں تھا۔
لیکن ہر انٹرویو میں وہ ایک سوال پر چپ ہو جاتا:
“کیا آپ کے خوابوں میں کوئی ہے، یا کبھی کسی کا خواب دیکھا ہے؟”
وہ مسکراتا، “وہ خواب… بے موسم تھا۔”
مہناز کی شادی کی تصویر اُس نے کبھی نہیں دیکھی۔
لیکن ایک بار، کوڈنگ ونڈو کے پیچھے، اُس کا نام اب بھی کمنٹ میں لکھا تھا:
For M.
“بے موسم محبت – کچھ پیار ادھورے ہی اچھے لگتے ہیں… اور کہانی بن کر زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔”
����
سنگھیا چوک ،کشن گنج بہار