جموںوکشمیرمیں شادی بیاہ کا سلسلہ اپنے جوبن پر ہے اور جب تک اس کائنات ہست و بود میں سانس باقی ہے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔کیونکہ اس کے ساتھ نسل انسانی کی بقا ء اور نئے خاندانوں کا وجود وابستہ ہے ،غور سے دیکھا جائے تو آدم ؑو حوا ؑکی تخلیق کے ساتھ ہی نظام تزویج عمل میں آیا تھا اور جنت کی مبارک زمین پر انہیں رشتہ ازدواج کی ڈوری میں باندھ کر نسل انسانی کے پھیلائو کا آغاز ہوا تھا۔گو جنت میں یہ مبارک عمل عملایا گیا لیکن ذریت زمین پر آکر پیدا ہوئی۔اسلام نے نکاح کی اہمیت کو جابجا اجاگر کیا ہے اور یہ سارے انبیا ء کی سنت بھی رہی ہے ،یہی بات قرآن نے یہ کہہ کر بیان کی ہے کہ (اے محمد ؐ)ہم نے آپ سے پہلے بھی یقیناً رسول ؑبھیجے اور اْنہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا (الرعد۔38)اور نبی رحمتؐ نے اپنے مقدس ارشادات میںاس اہم معاملہ کی افادیت اور ضرورت کو خاص انداز میں واضح فرمایا کہ اے نوجوانو،جو تم میں سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوںانہیں نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہوں کو بچا لیتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظر کو بہکنے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے نجات دلواتا ہے)،جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لئے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کو اس نکاح سے صرف جنسی جذبات کی تسکین کا سامان ہی فراہم نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون اور ذہنی استراحت بھی میسر آتے ہیں۔
دنیا میں کچھ ایسے نظریات و افکار بھی پنپ گئے جنہوں نے شادی اور نکاح کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے مختلف باتیں اور تصورات گھڑلئے، کئی مذاہب نے رہبانیت کے چکر میں پھنس کر شادی کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا ہے اور تجرد کی زندگی اپنانے کا درس بھی دیدیا۔حالانکہ یہ سوچ نہ صرف فطرت انسانی کے خلاف ہے بلکہ نظام قدرت سے نا آشنائی کا مظہر ہے۔ ایک معروف مسلم مفکر نے لکھا ہے کہ رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں میں بھی نظر آئے گا اور ہندئوں میں بھی۔دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے جین مت اور بدْھ مت ،اْن میں یہ تصور بھی آپ کو ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے پست درجہ کی زندگی ہے ،مرد ہو یا عورت دونوں کے کے لئے تجرد کی زندگی ان کے یہاں اعلیٰ و ارفع زندگی ہے۔نکاح کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں دوسرے درجہ کے شہری شمارہوتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ شادی بیاہ کے چکر میں پڑکر ان لوگوں نے اپنی حیثیت گنوادی ہے۔بہر حال آج دنیا اس امر سے واقف ہے کہ اباحیت، بے شرمی ،جنسی انارکی اور اخلاق باختگی کی سب سے بڑی وجہ اس اہم تر ذمہ دار ی سے فرار ہے، جہاں مغرب نے اس حوالہ سے مختلف افسانے گھڑ کر خاندانی زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے وہاں کئی اور ادیان نے بھی رہبانیت پر زور دے کر بے لگام جنسی بھوک اور اس کے نتیجہ میں اٹھائے گئے اقدامات کے بطن سے پھوٹنے والے فساد کو ہوا دینے میں مدد کی ہے۔آج مغرب ہو یا مشرق خود اس رہبانیت کا درس دینے والے کس طرح جنس زدہ ثابت ہوتے آئے ہیں۔معاملات طشت از بام ہوچکے ہیں مزیدخامہ فرسائی کی جائے تو عفونت ،سنڈاس اور بدبو کے سِوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔اْن کے مقدمات تو اب عدالتوں میں چل رہے ہیں او ران کی ہوس رانیوں کے شکارلوگ ان ’’پوتر‘‘ لوگوںکی ’’پاکیزگی‘‘کی داستانیںسنا سنا کر انسانیت کو ان کی فطرت اور اصل سوچ سے باخبر کررہے ہیں۔فی الوقت اس موضوع پر زیادہ گفتگو کرنا مدعا و مقصد نہیں۔
آغاز میں ہی کہا تھا کہ وادی میں بحمداللہ شادیوں اور نکاح خوانیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے جو ایک مستحسن عمل ہے لیکن اس بندھن کے موقع پر ہماری شہ خرچیاں ہماری ذہنی پسماندگی کا مذاق بھی اڑا رہی ہیں۔یہ لوگ گردو پیش میں کیا ہورہا ہے سے قطعی طور نا بلد محض سماج میں اپنی ’’ناک ‘‘ کابھرم رکھنے اور اپنی ٹھاٹھ باٹھ کا مظاہرہ کرنے کے لئے بے دریغ اپنی دولت صرف کررہے ہیں۔یہ خاک و خون میں کون لت پت ہے ،جو رو ظلم کی چکی میں کون پِس رہا ہے ،آہیںبکاہیں اور صدائیں کس کی ہیں ،انصاف و عدل کا جنازہ کہاں اور کیوں اٹھ رہا ہے ،اس عمل سے ناداروں ،غریبوں ،مفلسوں اور مہندی کے لئے ترس رہے ہاتھوں پر کیا گذرے گی ،اْن کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔حق تو یہ ہے کہ معاشرہ کے ایک طبقے کے ہاتھوں میںبغیر محنت کے دولت کے انبار لگ گئے ہیں۔مختلف تقاریب میںاس کا مظاہرہ کرنا وہ اپنی شان و عزت محسوس کرتے ہیں، جب وہ ایسا کرتے ہیں بْرے رسومات کے ساتھ ساتھ نت نئے بدعات و خرافات جنم لے کر سماجی عمارت کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔رشتے کی بات طے ہونے کے دن سے لے کر شادیوں کے مراحل سے گزرنے کے بعد بھی رسومات کا یہ طوق اْن کے گلے سے نکلتا ہی نہیں۔وہ نہیں جانتے کہ داور محشر کی عدالت میں جہاں دولت کے اس بے پناہ اور فضول صرفے پر ان سے باز پرس ہوگی وہاں ملت و معاشرہ پر اس عمل کے قبیح اثرات کس قدر پڑجاتے ہیں۔انہیں اس بات سے آگاہ کون کرے؟ کہ نبی رحمتؐ کے فرائض میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ یہ رسول ؐ لوگوں کو رسومات کے اْن بندھنوں سے آزاد کرنے کے لئے تشریف لایا ہے جو خود انہوں نے اپنے اوپر لاد کے رکھ دئے ہیں۔اْن کی زندگی ان رواجوں اور خرافات نے اجیرن بنا کے رکھ دی ہے۔شادیوں کی ان تیاریوں پر غور و فکر ہوتا ہے ،بحث و تمحیص ہوتی ہے لیکن بات جو سوچنے کی ہے کہ جس ایجاب و قبول اور نکاح سے زوجین ایک دوسرے کے شریک ِسفر بن جاتے ہیںاس مجلس کی تیاری کے حوالہ سے سوچنا بھی محال نظر آتا ہے اور اسے سماج میں ثانوی درجہ بھی حاصل نہیں رہا ہے ،برسوں تیاری کردی لیکن نکاح خوانی کا عمل بس شادی سے دوچار روز پہلے یاد آتا ہے ،آشپازوں کو ایڈوانس دے چکے ،ڈیکوریشن کا بندوبست مہینوں پہلے کردیا ،مہندی لگانے والوں یا لگانے والیوںکا بندوبست بہت پہلے ہوچکا اور سبھی رسومات کی انجام دہی بہت پہلے ہوچکی اور اطمینان کا سانس لیا گیا کہ چلو سب کچھ طے پایا۔لیکن ایک مرحلہ نکاح اور بے بس نکاح خواں ہے جس جانب توجہ سب سے آخر پر جاتی ہے اور یہ سوچ اس بات کی عکاس ہے کہ اس معاملے میں ہم کس قدر غیر سنجیدہ ہیںاور اس چیز کی حساسیت سے ہماری عدم واقفیت کا یہ برملا اظہار ہے۔نکاح جس کا اعلان و منادی کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس تقریب کی تیاریوں کے متعلق سے بھی کیا ہم کوئی جوش و جذبہ رکھتے ہیں ایک سوال ہے ،چبتا ہوا سوال؟جس کا جواب واقعی نفی میں ہے ایک معمولی سے استثنیٰ کے سِوا!رنج و قلق تو اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب دینداروں کی ایک جماعت کو بھی اسی نیّا میں سوار پاتے ہیں۔معاملہ کا مزید رنجدہ پہلو یہ ہے اور حد درجہ لائق افسوس کہ نکاح خواں علماء و خطباء و مولوی صاحبان کی اس سے زیادہ اور کیا توہین ہوسکتی ہے کہ نکاح کے لئے فرض کرلیجئے دو بجے بْلایا اور چار یا پانچ بجے تک صاحبان فرزند تشریف ہی نہیں لاتے ،اور بے چارہ نکاح خواں صاحب دختر کے گھر گئے۔کسی کونے میںدْبکا بیٹھا رہتا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اْسے کمرے میں محصور کرکے رکھ دیا جاتا ہے اور کوئی بات کرنے کے لئے اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتاکیوں کہ وہ دیگر رسومات کی ادائیگی میں مست و محو ہے ،ایسے میں وہ اپنی بے بسی کی داستان سنائے تو کس سے ،غلطی سے اس کے کمرے کا دروازہ اگر کسی نے کھول دیا تو یہ کہہ کر اطمینان سے بیٹھے رہنے کا لالی پاپ دیدیا کہ بس آتے ہی ہوں گے ،فون آگیا ہے ،نکل رہے ہیں ،کوئی حاجی صاحب ابھی نہیں آگئے تھے ،بس جیجا کا انتظار تھا یا ٹریفک جیم میں کہیں پھنسے تھے۔بے بس نکاح خواں دم سادھے بیٹھتا ہے اور اْس کے نالہ ٔ احتجاج کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔اب جب’’صاحبان اختیار‘‘آبھی گئے تو ایک دم حکم صادر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب ذرا جلدی کرنا کہ گھر میں مزید بھی کام ہیں ،اب وہ نکاح کیا پڑھے اور خطبہ نکاح کی کیا تشریح کرے ،وہ بھی معاملہ گول کرنے کے لئے خطبہ ٔ نکاح اور رٹی ہوئی چند دعائیں سنا کر بس جانے کی فکر میں ہوتا ہے۔
غور سے دیکھا جائے کہ ہم اس قدر اس اہم عمل کی افادیت سے اس قدر غافل کیوں ہیں؟اس لئے کہ ہمیں ا س کی اہمیت کا درس ہی نہیں دیا گیا اور علماء و خطبا کی اس تحقیر کے ذمہ دار بھی ہم سب ہیں۔آج بھی عیسائی دنیا میں جاکر دیکھیں ان کے یہاں بھی ایک نکاح خوانی کا طریقہ وضع ہے ،انہیں اپنے پادری کے ہاں جاکر اْس سے نکاح مجلس کے انعقاد کے لئے وقت لینا پڑتا ہے اور پادری اْن کے گھر نہیں جاتا بلکہ ہونے والے زوجین پادری کے دئے گئے وقت سے پہلے ہی باہر بلاوا کے منتظر رہتے ہیں اور اگر وہ چند منٹ کی دیری سے پہنچ گئے تو پادری قطعی طور اْس وقت نکاح پڑھانے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ انہیں کسی اور دن کا وقت دیا جاتا ہے۔چند برس قبل برطانیہ کے شاہی خاندان کی ایک جوڑی کو بالکل اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ،چند منٹ Lateآگئے تو پادری نے اگلے دن مخصوص وقت پر آنے کو کہا اور انہوں نے اپنا تساہل اور غلطی تسلیم کرکے فوراً اس حکم کی تعمیل کی۔عیسائی دنیا کے ساتھ ساتھ دیگر ادیان میںبھی اپنے مذہبی قائدین کا بے حد احترام ہے لیکن ہمارے سبھی علماء و خطباء کا مقام جمعہ ،عیدین و نکاح کا خطبہ اور جنازہ کی امامت کا رہ گیا ہے اور وہ بھی رسمی۔اس حوالہ سے بھی سماجی ،سیاسی منصب داروں اور محلوں و علاقوںکے ’بڑوں‘کی مرضی و حکم کی تعمیل ان کے لئے لازمی بنادی گئی ہے۔مساجد کے مقامی مولوی صاحبان پر تو یہ بہت رہی تھی افسوس تو نامور علماء و خطباء پر ہوجاتا ہے جب وہ بھی سماج کی اس ناقدری کے شکار ہوجاتے ہیں لیکن اْف تک نہیں کرتے۔
وکالتاً نکاحوں کا خوب چین ہے ،اس میں بھی جیساکہ عرض کرچکا ہوں کہ وقت کی کوئی قید نہیں اور مولوی صاحب کی نگاہیں بھلے ہی آنے والوں کی راہیں تکتے ہوئے خیرہ ہوجائیں، اْس کے مرض کا علاج کرنے والوں کی آمد سے یہ کہہ کر کردیا جاتا ہے کہ مولوی صاحب اس موقع پر ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔جانتے ہی نہیں کہ جس معاشرہ میں وقت کی کوئی اہمیت نہیں وقت انہیں ایک خاص وقت پر زمین پر پٹخ دیتا ہے اور تب اْن کی صدا و نِدا کسی کام کی نہیں ہوتی۔بہت سے لوگ اصالتاً نکاح پر اصرار کرتے ہیں کہ لڑکے نے ایسا کرنے کو کہا ہے ،بڑا دیندار ہے یا لڑکی والے ہی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں ایک اچھی سوچ ہے لیکن جب ’’دولہا بہادر ‘‘ہی رات بارہ بجے تک تشریف نہیں لاتا اور عالم و مولوی صاحب ایک کونے میںدبکا بیٹھا اپنی حالت زار پر بین کرتا ہے لیکن اْف کرنے کی قوت نہیں رکھتا۔دیکھا جارہا ہے رات دو تین بجے بھی مولوی صاحب گھر لوٹتے ہیںلیکن حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ایک مولوی صاحب نے اس تعلق سے اپنی رروداد ِ غم سنائی اور کہا کہ گھر سے اٹھاتے وقت باضابطہ گاڑی سے جانے کے لئے آجاتی ہے لیکن رات دو تین بجے فراغت کے بعد اْنہیں اکثر بہ چشم امید لانے والوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کا گھر واپسی کا بندوبست ہو ،جو نہایت کربناک مرحلہ ہوتا ہے۔اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی علماء ،مولوی صاحبان اس پر خاموش کیوں ہیں ،کیوں منبر و محراب سے اس سوچ کے خلاف آواز بلند نہیں ہوتی ،کیوں اس حوالہ سے ایک لائحہ عمل ترتیب نہیں پاتا ،ایک سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی شاید ضرورت نہیں۔ملت و معاشرہ کو ائمہ و علماء کے مقام ِ بلند سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی عزت کو بحال کرانے کے لئے ضروری ہے کہ علماء خود اپنی عزت کریں۔ناموس اسلام کے وقار کا خیال رکھیں۔واضح رہے اس معاشرہ میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا علماء کے بارے میں یہ خیال ہے کہ انہیں جس انداز میں چاہیں موڑ سکتے ہیں اور اس حوالہ سے وہ کچھ ثبوت و شواہد بھی پیش کرتے ہیںلیکن واضح رہے کہ علمائے حق ایسا نہیں ہوا کرتے ،وہ حق بات کرتے ہیں ،دوسروں کی عزت کرتے ہیں اور اپنی عزت کرانا بھی جانتے ہیں۔
قوم و معاشرہ اور علماء اس حساس مسئلہ کے حوالہ سے سوچیں۔ وقت کی اہمیت کو اْجاگر کریںاور ان مجالس نکاح کے حوالہ سے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں ،نہیں تو چال بے ڈھنگی قائم رہے گی ذمہ دار علماء ہوں گے۔
رابطہ۔94190803076