ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
سردیوں کی یخ بستہ رات تھی۔ اسکول کی عمارت سنسان اور ویران، ہر طرف خاموشی کا راج تھا، جیسے وقت بھی اپنی رفتار بھول گیا ہو۔ یہ وہی اسکول تھا جہاں آفتاب صاحب نے اپنی زندگی کے قیمتی بیس سال اپنے شاگردوں کی تربیت اور رہنمائی میں صرف کئے تھے۔ ان کا مقصد صرف تعلیم دینا نہیں تھا، بلکہ اپنے شاگردوں کو اخلاقیات کا درس دینا اور زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا تھا-
آفتاب صاحب نے دل سے تین لڑکیوں —عائشہ، مریم، اور ریحانہ—کی تربیت کی۔ ان کی محبت اور وفا کا پیمانہ کبھی کم نہیں ہوا۔ آفتاب صاحب نے ہمیشہ ان کی مدد کی، چاہے وہ تعلیمی مسائل ہوں یا ذاتی مشکلات۔ ان کی ہمدردی اور خلوص نے ہر لڑکی کے دل پر گہرے اثرات چھوڑے، مگر بدلے میں انہوں نے کبھی ان کی قدر نہ کی۔
عائشہ ہمیشہ پرجوش اور محنتی رہیں۔ جب امتحانات میں ناکامی کا سامنا تھا، آفتاب صاحب نے اس کی رہنمائی کی اور اسے اپنی محنت کی اہمیت بتائی۔ اس کی کامیابی کے بعد، عائشہ نے اپنے استاد کی مدد کو نظرانداز کر دیا۔ آفتاب صاحب کی محبت نے اس کی کامیابی میں بڑا کردار ادا کیا تھا لیکن عائشہ نے اس کا احساس نہ کیا۔
مریم کو گھر کی مشکلات نے ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا تھا۔ آفتاب صاحب نے نہ صرف مریم کی مدد کی بلکہ اس کے والدین کے مسائل حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کی ہمدردی اور وفا نے مریم کو سکون فراہم کیا، مگر جب حالات بہتر ہوئے، تو مریم نے آفتاب صاحب کی محبت اور مدد کی قدر کم کر دی۔
ریحانہ کو ہمیشہ اپنی دوستانہ رفاقتوں میں مشکلات کا سامنا تھا۔ آفتاب صاحب نے اس کی اصلاح میں اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگائی اور اسے درست راستے پر لانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے اس کے والدین کو بھی یقین دلایا کہ وہ انکی بیٹی کی نگرانی کریں گے، لیکن جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا، تو ریحانہ نے بھی استاد کی قربانیوں کو بھلا دیا۔
آفتاب صاحب کو ان لڑکیوں کی بے قدری کا شدید دکھ ہوا۔ ان کی محبت، ہمدردی، اور وفا نے ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، مگر ان کی کوششیں ان لڑکیوں کے دلوں میں کبھی پوری طرح نہیں اتر سکیں۔ انہوں نے ایک آخری خط لکھا جس میں انہوں نے اپنی محبت اور قربانیوں کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ اب وہ ان کی زندگیوں سے الگ ہو رہے ہیں تاکہ وہ خود اپنی راہیں تلاش کر سکیں۔
“میرے پیارے شاگردو،
میں نے اپنی زندگی کے سب سے بہترین سال تمہاری تربیت اور بھلائی میں صرف کئے۔ میری محبت اور ہمدردی نے تمہاری ہر مشکل کو اپنی مشکل سمجھا اور ہر موقع پر تمہارا ساتھ دیا۔ شاید میں تمہیں وہ باتیں سمجھا نہیں سکا جو تمہارے لیے ضروری تھیں۔ میری محنت تمہارے مستقبل کے لئے تھی، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ اب میں تمہاری زندگیوں سے الگ ہو رہا ہوں تاکہ تم اپنی زندگی کے تجربات سے خود سیکھ سکو۔ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔
— آفتاب صاحب”
یہ خط انہوں نے اسکول کی میز پر چھوڑا اور خاموشی سے اسکول چھوڑ دیا۔
کچھ مہینے بعد، عائشہ، مریم، اور ریحانہ کو اپنی زندگی میں ایسے مسائل کا سامنا ہوا جنہیں وہ خود حل نہیں کر سکیں۔ ان لمحوں میں انہیں آفتاب صاحب کی محبت، ہمدردی، اور مدد کی شدید کمی محسوس ہوئی۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ آفتاب صاحب نے ان کے لئے جو کچھ کیا، وہ ان کی حقیقی بھلائی اور بہتر مستقبل کے لئے تھا۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ آفتاب صاحب نے اپنی راہ اختیار کر لی تھی۔
آفتاب صاحب کے بغیر، لڑکیوں نے سمجھا کہ وہ ان کی زندگی میں کتنے اہم تھے۔ اب ان کے پاس صرف پچھتاوا تھا اور ایک خالی جگہ تھی جسے کوئی نہیں بھر سکتا تھا۔ وہ جگہ جسے ایک مخلص استاد نے اپنے خلوص، محبت، اور وفا سے بھرنے کی کوشش کی تھی، مگر ان کی بے قدری نے اسے کھو دیا۔
���
[email protected]