یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اول ریاستی حکومتیں بلا کسی استثنیٰ کے یکے بعد دیگرے بے روزگارتعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کر نے میں قاصر رہیں اور جب کبھی خدا خدا کرکے کفر ٹوٹااور سرکاری نوکریوں پر بھرتی کی نوبت آئی تو سیاسی مداخلتیں، سفارشی کلچر، بندر بانٹ، اقرباء پروری اور رشوت ستانی جیسی مہلک بدعات نے ایسی ایسی اَن کہی کہا نیاں رقم کیں جس کی ایک خفیف جھلک سابقہ مخلوط حکومت کے دور اقتدار میں کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز میں بھرتیوں کے حوالے سے منظر عام پر آگئی تھی ۔ بلا شبہ یہاں میرٹ اور عدل وانصاف کو نوکریوں کے معاملے میں لتاڑنے میں آج تک کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر سیاست دان کرسی پر بیٹھنے سے قبل انتخابی نعرے کے طور بے روزگاروں کو ملازمتیں فراہم کر نے کے جھوٹے وعدے دیتے رہے مگر جب اقتدار سنبھالنے کی باری آئی تو پہلی فرصت میں غریب بے روزگاروں کو صاف لفظوں میں پیغام دیا کہ ہر بے روزگار نوجون کو سرکاری ملازمت نہیں دی جا سکتی،خود روزگار اسکیمیں اختیار کر و مگر ساتھ ہی چور دروازوں سے اپنوں کو جوں توں ملازمتیں دی جاتی رہیں ۔ بہر حال حالات کے یہ تیور دیکھ کر بے روز گار نوجوان سرکاری ملازمت کے پیچھے دربدر پھرنے کے بجائے آذوقہ کمانے کے متبادلات تلاش کر نے کی کمر ہمت باندھ لیتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے یہاںایسے متبادلات فی الحقیقت کہیں دستیاب بھی ہیں؟ا س بابت اگر ہو ائی قلعے نہیں بلکہ ٹھوس زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو ایک مایوس کن تصویر منعکس ہوتی ہے ۔ گزشتہ اٹھائیس سال سے مسلسل سیاسی بے چینی کے سبب یہاں کاروباری سرگرمیاں ماندچلی آرہی ہیں اور بہ حیثیت مجموعی پر ائیوٹ سیکٹر کا کہیں نام ونشان نہیں ۔ کشمیر میں بے روزگاری کا مسئلہ ہمیشہ سے سر فہرست رہاہے جس کا نپٹارا جنگی بنیادوں پرہونا وقت کی اشد ضرورت تھی مگریہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس جانب روایتاً وقت وقت کی ریاستی حکومت نے بہت کم تو جہ دی ۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی ا لوقت تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے درد کا کوئی درماںہے نہ کوئی ہمدرد وغم گسار ۔ آج کل کی کمر توڑ مہنگائی میں ان نوجوانوں کو ایک جانب گراں بازاری کا بھوت کچا چبا ئے، دوسری جانب حکومتی بے اعتنائیوں سے یہ لوگ پا مال ہوں، تو کیا کہئے ؟ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے زمانے میں کسی کم نصیب تعلیم یافتہ بے کار لڑکے یا لڑکی اور اس کے والدین کا جینا کس قدردوبھر ہوتا ہے، اُسے کن کن نفسیاتی اور سماجی بیگانگیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ،وہ ایک ناقابل ِبیان داستان ہے ۔ ستم یہ بھی ہے کہ آج کشمیر میں بے روزگاروں میںایک بڑی تعداد اُن لوگوںکی بھی ہے جو ملازمت کے لئے مقررہ عمر کی حد پار کر چکے ہیں اور مایوسی کے عالم میں کف ِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اس زمرے میں آنے والے کم نصیب بے روزگار نوجوانوں کے لئے ہمدردانہ بنیادوں پر پنڈت تارکین ِوطن کی طرح خصوصی ریکروٹمنٹ ڈرائیو چلانے کی اشدضرورت ہے۔ اگرچہ اس وقت ریاست بھر میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کا ایک لشکر جرار موجود ہے ۔ ا س کے باوجودبرسوں سے سروس سلیکشن بورڈ کو بالخصوص کچھوے کی چال چلنا بہت اچھا لگتا ہے ۔ یہاں پہلے اسامیوں کیلئے برسوں اور مہینوں کی تاخیر سے درخواستیں طلب کی جاتی ہے اور جب امیدوار طویل انتظار کے بعد اسامیوں پر تحریری امتحان اور انٹر ویو وغیرہ دیتے ہیں تو سلیکشن فہرستیں مشتہر کر نے میںاتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ اُمیدواروں کے لئے صبر ایوب ؑ اور عمر خضرؑ بھی کم پڑتا ہے۔ سابقہ مخلوط حکومت نے شروعاتی دور میں زبانی کلامی بظاہر اس صورت حال سے نمٹنے کی غرض سے نئی ریکروٹمنٹ پالیسی وضع کا بڑ اچرچا کیا تھا۔ اس پالیسی کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ تعلیم یافتہ بے روز گاروں کو بلا کسی تاخیر کے روزگار دیاجانا چاہیے۔ نئی بھرتی پالیسی کی جوازیت میں حکومت نے اس وقت زیادہ تر پی ایس سی ا ور سبارڈنیٹ سروس سلیکشن بورڈ کی سست رفتاری کے روایتی سقم پر بھی چوٹ کی تھی، مگر یہ لاعلاج سقم اس کے باوجود برقرار رہا ۔ مذکورہ پالیسی کے چنیں و چناں سے بے نیاز بے روزگارتعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسے اپنے لئے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا تھا مگر سب بے سود ۔ گورنر انتظامیہ کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، خاص کر اگر بالفرض یہ تاثردُرست ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے ہی یہاں کے نوجوان انتہا پسند راہیں اپنانے کی جانب مائل ہورہے ہیں ،یا یہ کہ ذہنی تناؤ کی بیماری اُن میں بڑھ رہی ہے تو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کو اولین ترجیح مل جانی چاہیے ۔ اس کے برخلاف سال ہا سال سے جب دیکھا یہ جا رہاہے کہ کبھی کسی سرکاری محکمے میں کلاس فورتھ اسامیوں کے لئے در خواستیں طلب کی جائیں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارو ںکی لمبی لمبی قطار یں بھی امیدواروں کی صف میں درخواست لئے کھڑی ہوجائے کہ معاملہ محاورے کی زبان میں ایک انار ہزار بیمار والا بن جائے۔ امر واقع یہ بھی ہے کہ تیزی سے بدلتی دنیا کے باوجود بھی سرکاری نوکریاں ہی ابھی تک نو جوان پود کی اُمیدو ں کا مرکز بنی ہو ئی ہیں، جب کہ عقل وفہم کا تقاضا یہ ہے کہ اُنہیں بد لتے حالات میں روزگار کی نئی سمتوںکی جانب اپنی کوششوں کا سفر امیداور یقین کی سواری پر جاری رکھنا چاہیے ۔ اس باب میں ایک جانب سماج میں دقیانوسی سوچ پائی جاتی ہے اور دوسری جانب یہاں مختلف عوامل کے تحت خود روزگارکمانے کے مواقع بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مسدود سے مسدود تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں کے تمام سیاست دان ہمیشہ سرکاری نوکریوں کے چکمے دے دے کر ہی اپنے ووٹ بنک بناتے ہیں ، باوجودیکہ اس تشتہ ٔ تعبیرخواب میں مدہوش ہزاروں نوجوان سرکاری ملازمت کا انتظار کرتے کر تے زائد العمر بھی ہو جاتے ہیں ۔ افسوس! یہ ُاس قوم کا حال ہے جس کے تر دما غ وچرب دست ہو نے پر دنیا نازا ں رہی اور جس کے ہاتھوں میں قدرت نے وہ فنو ن اور ہنر مندیاںودیعت کر دی تھیں کہ دنیا میں اس کا کوئی ثا نی نہیں تھا۔ اے کاش!نئی نسل نے ان فنون اور ہنر مندیوں کوسینے سے لگا یا ہو تا تو آج اُنہیںبے روزگاری کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں ۔ کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ سماج میں چھوٹی سے چھوٹی سرکاری ملازمت بھی آرام دہ زند گی کا ہم پلہ مانی جاتی ہے ، سماجی تحفظ کا سر شتہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے ، رشتو ں کے ردوقبو ل کا معیار بھی زیادہ تر سرکاری ملازمت کے گرد گھومتاہے اور سب سے اہم یہ کہ تعلیم کا مدعا ومقصد سرکاری ملازمت کے حصول کے اندر سکڑ چکا ہے۔ بہر کیف ریاستی گورنر کا تعلیم یافتہ بے روزگاروں پر یہ ایک احسان ہوگا اگر وہ تمام خالی پڑیں اسامیوں کو جنگی بنیا دوں پر منضبط ریکروٹمنٹ پروسس سے بھروائیں، کیجول لیبروں ، کنٹریکچول ملازمین اور عمر کی حد پار کر نے والے اُمیدواروں پر رحم کھاکر اُن کی مستقلی کے احکامات جاری کروائیں ، بھرتی بورڈوں کے رائج الوقت نظام میں کام کے نپٹارے کے باب میں جو کمیاں کوتاہیاں اوراسقام موجود ہیں ،اُنہیں ترجیحاًدورکروائیں ، اُمیدواروں کو خالص میرٹ کی بنیادوں پر ملازمتیں بنا کسی سیاسی مداخلت اور سفارشی کلچر کے فراہم کرنا یقینی بنوائیں ،یومیہ اُجرت پر کام کر نے والے جن ملازمین نے اپنی مدتِ ملازمت برسوں قبل پوری کر لی ہے،ا نہیں بلا تاخیر ریگولرائز کرو ا ئیں۔ اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ ریاستی گورنر اس ضمن میں حتی الوسع کردار ادا کر کے بے روزگاری کا کماحقہ تدارک کریں گے۔