ریاستی حکومت بے روزگارتعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کر نے میں سابقہ حکومتوں کی طرح اب تک کوئی نمایاںکارکردگی دکھانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ حکمران صاف لفظوں میں بے روزگاروں سے کہتے رہتے ہیں کہ حکومت ہر بے روزگار نواجون کو سرکاری ملازمت نہیں دے سکتی،اس لئے انہیں خود روزگار اسکیمیں اختیار کر نی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ بے روز گار نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے پیچھے دربدر پھرنے کے بجائے آذوقہ کمانے کے متبادلات تلاش کر نے چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے یہاںیہ متبادلات فی الحقیقت کہیں دستیاب بھی ہیں؟ا س بابت اگر ہو ائی قلعے نہ بنائے جائیں بلکہ ٹھوس زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو ایک مایوس کن تصویر منعکس ہوتی ہے ۔ بہر کیف ارباب ِ اقتدار کا سرکاری ملازمتیں دینے سے معذوری ظاہر کر نا جتنا آسان ہے ، اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ حل پیش کرنا اتنا ہی پیچیدہ ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیر میں بے روزگاری کا مسئلہ سر فہرست ہے جس کا نپٹارا جنگی بنیادوں پرہونا اگرچہ اشد ضرورت ہے مگریہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس جانب ریاستی حکومتیں بہت کم تو جہ دیتی چلی آئی ہیں ۔ بنا بریں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے درد کا کوئی درماںہے نہ ان کی بے مسلسل روزگاری کے مضمرات کا جائزہ لینے کی کسی کو چٹی پڑی ہے۔ بے روز گاری مدتِ مدید سے تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کے لئے خاص طور زیادہ پریشان کن مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ ایک جانب گراں بازاری کا بھوت ان کو کچا چبا رہاہے، ودسری جانب یہ حکومتی بے اعتنائیوں سے پا مال ہورہے ہیں ۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے زمانے میں کسی کم نصیب تعلیم یافتہ بے کار لڑکے یا لڑکی اور اس کے والدین کا جینا کس قدردوبھر ہوتا ہے، اُسے کن کن نفسیاتی اور سماجی بیگانگیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ،وہ ایک ناقابل ِبیان داستان ہے ۔ زمینی صورت حال یہ ہے کہ آج کشمیر میں بے روزگاروں میںایک بڑی تعداد اُن لوگوںکی بھی ہے جو ملازمت کے لئے مقررہ عمر کی حد پار کر چکے ہیں یا کیا ہی چاہتے ہیں اور وہ مایوسی کے عالم میں کف ِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ ان کم نصیب نوجوانوں کے لئے پنڈت تارکین ِوطن کی طرح خصوصی ریکروٹمنٹ ڈرائیو چلانے کی اشد ضرورت تو ہے مگر جب اربابِ حل وعقد ان کی سنیں تب نا۔ ریاست میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کا جو لشکر جرار موجود ہے وہ برسوں سے بھرتی ایجنسیوں سے جلدازجلد روزگار کی نوید سننے کے لئے بھی بے تاب ہے ، قسمت ان پراتنی یاورنہیں کیونکہ سروس سلیکشن بورڈ کو بالخصوص کام کاج کے حوالے سے کچھوے کی چال چلنا بہت اچھا لگتا ہے ۔ یہاں پہلے اسامیوں کیلئے برسوں اور مہینوں کی تاخیر سے درخواستیں طلب کر نے کی ایک رِیت ہے اور جب امیدوار طویل انتظار کے بعد انٹرویو وغیرہ دیتے ہیں تو سلیکشن فہرستیں مشتہر کر نے میں تمام تاخیری حربے استعمال کر کے امیدواروں کے لئے صبر ایوب ؑ اور عمر خضرؑ بھی کم پڑتے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت نے شروعاتی دور میں بظاہر اسی صورت حال سے نمٹنے کی غرض سے نئی ریکروٹمنٹ پالیسی وضع کا بڑ اچرچا کیا تھا۔ اس پالیسی کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ تعلیم یافتہ بے روز گاروں کو بلا کسی تاخیر کے روزگار دیاجانا چاہیے۔ نئی بھرتی پالیسی کی جوازیت میں حکومت نے اس وقت زیادہ تر پی ایس سی ا ور سبارڈنیٹ سروس سلیکشن بورڈ کی سست رفتاری کے روایتی سقم پر بھی چوٹ کی تھی، مگر یہ لاعلاج سقم اس کے باوجود آج بھی برقرار ہے ۔ مذکورہ پالیسی کے چنیں وچناں سے بے نیاز بے روزگارتعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسے اپنے لئے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا تھا مگر بے سود ۔ان کو اُمید تھی کہ اب مختلف سرکاری محکموں میںخالی پڑی ہزاروں اسامیاں پُر کر وا نے کی غرض سے متعلقہ بھرتی ادارے فعال و متحرک ہوں گے ۔ یہ اُمیدیں ابھی تک صرف سنہرے سپنے ثابت ہورہی ہیں ۔ بہر صورت اگر یہ تاثردُرست مانا جائے کہ بے روزگاری کی وجہ سے ہی یہاں کے نوجوان انتہا پسند سوچ اپنانے کی جانب مائل ہورہے ہیں ،یا یہ کہ اُن میں ذہنی تناؤ کی بیماری بنا بریں بڑھ رہی ہے تو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کو اولین ترجیح مل جانی چاہیے ۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے یہ نوجوان زندگی کے دھارے سے جڑسکتے ہیں ۔ اُدھرسال ہا سال سے یہ انکشاف ہوتا چلاآرہا ہے کہ ریاست میں لمحہ بہ لمحہ بے روز گاروںکی فوج در فوج بڑھ رہی ہے۔ یہ اسی تلخ حقیقت کا کھلااظہار ہے کہ جب کبھی کسی سرکاری محکمے میں کلاس فورتھ اسامیوں کے لئے در خواستیں طلب کی جا تی ہیں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارو ںکی لمبی قطار یں بھی امیدواروں کی صف میں کھڑی ہو جاتی ہیں کہ معاملہ ایک انار ہزار بیمار والا بن جاتا ہے۔ امر واقع یہ بھی ہے کہ تیزی سے دنیا بدلنے کے باوجود بھی سرکاری نوکریاں ہی ریاست کی نو جوان پود کی امیدو ں کا مرکز بنی ہو ئی ہیں۔ بلاشبہ اُنہیں بد لتے حالات میں خودروزگار اسیکموںپر توجہ مبذول کر نے چاہیے تھی ، مگر اس باب میں ایک جانب دقیانوسی سوچ پائی جاتی ہے اور دوسری جانب یہاں مختلف عوامل کے تحت خود روزگارکمانے کے مواقع بھی مسدود سے مسدود تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں کے سیاست دانوں نے ہمیشہ سرکاری نوکریوں کے چکمے دے دے کر ہی اپنے ووٹ بنک بنائے ، اگر چہ اس تشتہ ٔ تعبیرخواب کے تعاقب میں ہزاروں نوجوان سرکاری ملازمت کا انتظار کرتے کر تے زائد العمر ہوتے رہے ۔ یہ اس قوم کا حال ہے جس کے تر دما غ وچرب دست ہو نے پر دنیا نازا ں رہی اور جس کے ہاتھوں میں قدرت نے وہ فنو ن اور ہنر مندیاںودیعت کر دی ہیں کہ دنیا میں ان کا کوئی ثا نی نہیں۔ اے کاش!نئی نسل نے ان فنون اور ہنر مندیوں کوسینے سے لگا یا ہو تا تو آج اُنہیںبے روزگاری کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں ۔ کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ سماج میںسرکاری ملازمت آرام دہ زند گی کا ہم پلہ مانی جاتی ہے ، سماجی تحفظ کا سر شتہ بھی اسی سے جڑا ہے ، رشتو ں کے ردو قبول کا معیار بھی زیادہ تر اسی کے گرد گھومتاہے اور سب سے اہم یہ کہ تعلیم کا مدعا ومقصد سر کاری ملا زمت کے حصول کے اندر سکڑ کر رہ گیا ہے۔ بہر کیف ریاستی وزیراعلیٰ کا تعلیم یافتہ بے روزگاروں پر یہ ایک احسان ہوگا اگر وہ تمام خالی پڑیں اسامیوں کو جنگی بنیا دوں پر منضبط ریکروٹمنٹ پروسس سے بھروائیں، کیجول لیبروں ، کنٹریکچول ملازمین اور عمر کی حد پار کر نے والے اُمیدواروں پر رحم کھاکر ان کی مستقلی کے احکامات جاری کروائیں ، بھرتی بورڈ کے رائج الوقت نظام میں جو کمیاں کوتاہیاں اوراسقام موجود ہیں ،اُنہیں پہلی ترجیح دے کردورکرائیں ، اُمیدواروں کو میرٹ کی بنیادوں پر ملازمتیں بنا کسی سیاسی مداخلت اور سفارشی کلچر کے فراہم ہونی یقینی بنائیں ،یومیہ اُجرت پر کام کر نے والے جن ملازمین نے اپنی مدتِ ملازمت برسوں قبل پوری کر لی ہے،ا نہیں بلا کسی تاخیر کے ریگولرائز کر ا ئیں۔