بلا شبہ ہمارے معاشرے میںپڑھے لکھے نوجوان کی ایک بڑی تعدادمیں ،اضطراب ،مایوسی اوربگاڑ کی ایک اہم وجہ بےروزگاری ہے۔ظاہر ہے کہ بے روز گاری مصیبتوں کی وہ جڑہے، جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔جن کا منفی اثر نہ صرف بے روزگار نوجوان کی نجی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ اُس کے والدین اور کنبے کےدوسرے افراد پر بھی پڑتا ہے۔چنانچہ بے روزگاری سےغربت پیدا ہوتی ہے اوربدحالی سے ہی اخلاقی و سماجی برائیاں جنم لیتی ہیںجبکہ یہی بُرائیاں ایک ایسے مسئلے کا رُخ اختیار کرلیتی ہے،جوبراہِ راست پورے معاشرے کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں وہی معاشرے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں ،جن میںرہنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد بے روز گار ہوتی ہےاور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بےروزگاری کا مطلب ہی ہوتاہے کہ معاشرے کے تعلیمی منصوبوں سے معاشرے کے افراد کو ترقی کا جو استفادہ ہونا چاہیے ، وہ ا نہیں نہیں ہورہا ہے۔ہم جب جموں و کشمیر میں بے روز گاری کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں توبخوبی پتہ چلتا ہےکہ چند سیٹوں کے لئے ہزاروں درخواستیں آ جاتی ہیں ،جن میں اعلیٰ پوزیشنیں لینے والے نوجوان بھی ایک خاصی تعداد موجود ہوتی ہے مگر نوکری کا قرعی فال اُنہی کے نام نکلتا ہے، جن کی بڑی سفارش یا پھررشوت دینے کو بھاری رقم موجود ہوتی ہے، حالانکہ قواعد و ضوابط اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ ان میں رہ کر کام کیا جائے مگر اسی نظام میں ایسی گنجائش بھی رکھی گئی ہےکہ رولز اینڈ ریگولیشنز کو نرم کر کے چور دروازے ڈھونڈ لئے جاتے ہیں، خاص طور پر جب مطلوبہ تعلیم کے مطابق افراد کم دستیاب ہوں۔ مگر جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہو جو مطلوبہ تعلیم اور تجربے کی حامل ہو تو انہیں چھوڑ کر عمر میں رعایت دے کر بوڑھے افراد کو بھرتی کر لینا ایک سنگین مذاق ہی تو ہوتا ہے ۔گو کہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں میرٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ، ہر شعبے میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اورسرکاری ملازمتیں دیتے ہوئے جس طرح نوجوانوں کی حق تلفی کی جاتی ہے، وہ بہت بڑا المیہ ہے۔زیادہ تر سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر نوکریاں دی جاتی ہیں۔ 45 سال کی عمر میں بھرتی ہونے والے 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہوکر پنشن و مراعات کا حق دار بن چکے ہیں،ہماری جمہوری حکومتیں کس طرح قانون اور میرٹ کا قتل کرتی رہیں یا کررہی ہیں، اس کے اصل اعداد و شماراگر سامنے آ جائیں تو جموں و کشمیرکی ساری آبادی ہکا بکا رہ جائے گی۔ یہاں یہ تاثر بھی عام ہےکہ مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونے والی بھرتیاں شفاف ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جب حکومت شرائط و ضوابط کو خاص مقاصد کے تحت نرم کر دیتی ہے تو پھر ان اداروں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، عمر کی حد مقرر ہی اس لئے کی جاتی ہے کہ نئے آنے والوں کے لئے راستے کھلے رہ جائیں چنانچہ جس تیزی کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ہر سال فارغ التحصیل ہوتی ہے، اس تناسب سے تو سرکاری نوکریاں دینا حکومت کے لئے ممکن نہیں لیکن جو نوکریاں نکلتی ہیں کم از کم ان پر تو میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کی جانی چاہئے، مگر ایسا نہیں ہوتا دکھائی دیتا۔ غریب اور متوسط گھرانوں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے باوجود محروم رہ جاتے ہیں اور سفارش کے ذریعے نا اہلی اور کمتر تعلیم کے حامل سرکاری ملازمت کے مزے لوٹتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے تقریباً سبھی سرکاری شعبوں میںجو زوال کی صورت حال چلی آرہی ہے، اُس میں اِسی سفارش کلچر کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ جب کمتر ذہانت اور صلاحیت کے مالک افراد آگے آ جائیں گے تو معیار بھی اسی سطح پر گر جائے گا۔ جب محدود ملازمتیں بھی چہیتوںاور سفارشیوں کو دیدی جاتی ہیں تو مستحق ذہین اور قابل نوجوانوں میں اضطراب بڑھتا ہے ۔ان میں نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اخلاقی بگاڑ کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹیاں جن میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں، ڈگریاں دینے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں، ہنر مند افراد پیدا کرنے کی بجائے تعلیم یافتہ افراد پیدا کر رہے ہیں، جن کی معاشرے میں کھپٹ ہی نہیں۔اس لئےضرورت اس بات ہے کہ جموں وکشمیر کی موجودہ انتظامیہ ان سبھی معاملات و مسائل کے پیش نظر ایسی مثبت حکمت عملی مرتب کرے،جس کے تحت مستحق تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈ نکالے،خصوصاًتعلیم میں فنی اور عملی صلاحیتوں پر زیادہ زور دیں اور انہی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کی اجازت دے، جن میں واقعی اس کی صلاحیت ہو۔ باقی لوگوں کو زراعت، تجارت یا دوسرے فنون کی تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اپنے خاندان اور معاشرے پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اپنی روزی خود کما سکیں،ہوسکتا ہے کہ اسطرح کچھ حد تک بیروزگاری کا مسئلہ حل ہوجائے۔
بے روز گاری کا مسئلہ کیسے دور ہو؟
