حال احوال
غلام حسن ڈار،رفیع آباد
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی د ل فریب ہیں غم روزگار کے (فیضؔ)
آج جبکہ ہمارے ہاں ہر دوسرا شخص پرائیویٹ اداروں خصوصاً اسکولوں کو بے جا طور پر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن تنقید برائے تنقیص و تخریب کرنے والے تصویر کا صرف ایک ہی رُخ دیکھ کر یک طرفہ اور جانبدارانہ فیصلہ کرکے عقل کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور ان اداروں کی طرف سے انجام دی گئیں خدمات اور افراد و معاشرے کو پہنچنے والے فوائد سے یکسر صرفِ نظر کرتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ آئیے، آج ہم اسی موضوع کے حوالے سے اپنے معزز قائین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔
قارئین کرام! کہ فی زمانہ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی سے زندگی اور زمانے کا منظر نامہ یکسر بدل گیا ہے۔ بے شمار سائنسی ایجادات اور دریافتوں سے جہاں زندگی آسان اور آرام دہ بن گئی ہے، وہیں ٹیکنالوجی کی بدولت فوائد اور آسانیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اَن گنت مسائل اور پریشانیوں نے بھی سر اُٹھایا ہے ،خواہ ان کا تعلق انسان کی نجی زندگی کے ساتھ ہے یا پھر سماجی اور معاشی سطح پر لوگوں کی معاشرت اور معیشت کے ساتھ۔
چند ایک دہائی قبل تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ نوجوان اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنے کے لئے اپنے ہی علاقے میں کم یا زیادہ معاوضے (اُجرت؍تنخواہ) پر روزگار حاصل کرنے میں بہرحال کامیابی حاصل کرتا تھا لیکن آج کل کے دور میں نت نئی مشینوں، کمپیوٹروں اور ڈیجیٹل آلات کی ایجادات اور ترقی نے اداروں، دفتروں اور دوسری کام کی جگہوں (work places) جیسے کارخانوں، فیکٹریوں اور انڈسٹریوں وغیرہ میں آدمیوں کی جگہ انہی مشینوں اور ڈیجیٹل آلات نے لے کر ضرورت مندیا روزگار کے متلاشی نوجوانوں کو بالآخر بے روزگاری کی دلدل میں جھونک دیا ہے۔ جہاں ایک کام کی جگہ (work place) پر کئی روز تک دس دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی، وہاں مشین، کمپیوٹر اور ڈیجیٹل آلے کی مدد سے صرف ایک پیشہ ور (professional) نہایت مختصر وقت میں وہ کام صاف شفاف اور بنا کسی غلطی کے امکان کے احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔ نتیجتاً روزگار کے متلاشی لوگ اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ ادھر ۲۰۲۰ء کے عالمی وبا ءکرونا وائرس نے اس بحران کو اور زیادہ سنگین بنانے میں اپنا اہم رول ادا کیا۔ اداروں اور دفتروں کا اکثر کام گھر ہی سے (work from home) کرانے کی ریت اور روش چل پڑی۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر یومیہ اور ماہانہ طور پر کام کرنے والے اکثر برسرِ روزگار لوگ بے روزگار ہوگئے۔ پھر اس صورت حال کے اپنے منفی اثرات اور نتائج بھی سامنے آگئے۔ غالباً یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ بے روزگاری کے انہی منفی اثرات اور نتائج نے عالمی سطح پر Hacking of bank accounts, Online gambling ،منشیات کے عام استعمال اور جسمانی و ذہنی بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کیا۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے، وہیں دنیا میں بے روزگاری کی شرح بھی اسی تناسب سے بڑھ رہی ہے۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہ صرف غریب اور ترقی پذیر ممالک کو ہے بلکہ ترقی یافتہ اقوام کی حالت بھی ان سے کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے والے ملک ہندوستان میں بھی بے روزگاری کے سبب غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اب اگر بات خالصتاً کشمیر کی کریں یہاں بھی تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد لگ بھگ چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں ہے۔ یہاں بھی اوپر ظاہر کی گئیں بُرائیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔ ہم آئے دن ان جرائم؍ برائیوں میں ملوثین کے خلاف کارروایوں کے بارے میں سنتے اور دیکھتے ہیں۔ ان جرائم، برائیوں میں ملوثین کے خلاف جس قدر قدغنیں اور سزائیں بڑھائی جاتی ہیں، اسی قدر ان میں اضافہ کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور ان بُرائیوں؍ جرائم کے ارتکاب کا سب سے بڑا سبب بے روزگاری ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس تجاروں، پیشہ وروں اور سرکاری ملازموں وغیرہ کو چھوڑ کر جو لوگ غیر سرکاری نجی اداروں میں برسرروزگار ہیں، ان میں صحت اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان اداروں کے مالکان بہر حال شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سماج میں جہاں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دے کر ترقی کے امکانات کو روشن کیا، وہیں بے روزگار لوگوں کے روزگار کی بھی سبیل پیدا ہوگئی۔ اسے مجموعی طور پر سوسائٹی کے لئے خوش آئند اور فائدہ مند ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سے کشمیری قوم کی جفاکشی ، محنت کشی، انسانی ہمدردی اور چرب دستی کی خوب عکاسی ہوتی ہے کہ انہوں نے کیسے پرانے زمانے سے لیکر اب تک اپنے جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی اور معاشی عوامل کے باوجود بھی بڑی بڑی آفتوں، مصیبتوں اور ناخوشگوار حالات کا مقابلہ کرکے اس قدر حوصلہ اور عزم حاصل کیا کہ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں بھی یہ قوم منجملہ تمام مسائل کے روزگار یا روزی روٹی کے مسئلے پر ہمیشہ کی طرح قابو پانے کی کامیاب کوششیں کر رہی ہے۔ اگر چہ یہ ایک مشقت آمیز اور صبر آزما ہے لیکن قابلِ ستائش ہے کہ اس نفسا نفسی کے دور میں بھی ہماری قوم اور معاشرے کے کچھ دانا اور دور اندیش افراد روزگار کے وسیلہ پیدا کرکے خود اور دوسروں کے لئے مواقع فراہم کرتے ہیں تو ان کے وہ اقدام واقعی قابل ستائش قابل فخر اور باعثِ ثواب ہی ہیں۔ غالباً اسی مقصد کے پیش نظر دورِ جدید میں نورِ علم کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے اور دوسروں کے لئے روزگار پیدا کرنے کے لئے ہمارے یہاں پرائیوٹ اسکولوں کے قیام کا سلسلہ عام ہوا۔
چنانچہ دنیا صنعتی انقلاب کے بعددنیا بدل رہی تھی اور اس کے اثرات سے ہندوستان میں بھی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا تھا اور اس کا کچھ اثر کشمیر پر بھی پڑا۔ یہاں چونکہ مہاراجوں کی حکومت تھی ،اس لیے مہاراجہ رنبیر سنگھ کے نام پر پہلا اسکول قائم ہوا۔ نیز انگریزوں کے زیر اثر مشنری اسکول (Tyndale Bisco 1880) بھی قائم ہوا۔ بعد میں باقی اسکول جیسے Burn Hall وغیرہ کے قیام سے یہاں تعلیم کے آفتاب کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ پھر آزادی کے بعد ایک نئے تعلیمی دور کا آغاز ہوگیا۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا باضابطہ طور پر جال بچھنے لگا۔ ایسے میں یہاں کے جن آسودہ حال افراد نے دوسرے اداروں کے مقابلے میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کو ترجیح دی، انہوں نے بیک وقت دورِ جدید کے نورِ علم کو پھیلانے اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کئے اور آج کی تاریخ میں لگ بھگ چھ ہزار پرائیویٹ تعلیمی ادارے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ سماجی علوم وغیرہ کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیںاور ہزاروں گھرانوں کے چولہے ان ہی اداروں کی بدولت جلتے ہیں۔
شمالی کشمیر میں پرانے تعلیمی اداروں میں سرکاری اسکولوں کے علاوہ غیر سرکاری مشنری اسکولوں میں اسلامیہ ہائی اسکول سوپور اور سینٹ جوزف بارہمولہ قابل ذکر ہیں ،تاہم نوے کی دہائی میں یہاں کئی سارے سکول جن میں فلاح عام ٹرسٹ (FAT) سے منسلک سیکڑوں اسکول قائم کئے گئے۔ ان اسکولوں کی علمی اور تعلیمی خدمات کو تاریخ ہر گز نظر انداز نہیں کرسکتی، البتہ اس ضمن میں قصبہ سوپور میں واقع ویلکن ایجوکیشنل ٹرسٹ جو کہ سال ۲۰۰۰ء میں یہاں کے ایک سرکردہ اور نامور تاجر عنایت اللہ حاجنی نے قائم کرکے قصبۂ سوپور اور ملحقہ علاقہ جات کے لئے نہ صرف جدید ترین تعلیمی سہولیات سے لیس اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تعلیمی ادارہ معرضِ وجود میں لایا بلکہ سینکڑوں تعلیم یافتہ وغیرہ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو بہتر روزگار کا ذریعہ بھی فراہم کیا۔ اس تعلیمی ادارے نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے ہندوستان میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ عوام وخواص کی رائے کے مطابق سیکڑوں اہل اور باصلاحیت تعلیم یافتہ وغیرہ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی روزی روٹی براہ راست اس ادارے سے جڑی ہے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کون سا کام کارِ ثواب ہوسکتا ہے۔
حاصلِ کلام ایں است کہ ہمیں بحیثیت ِ مجموعی (انفرادی، معاشرتی اور سماجی سطح پر) ان نادر اور انمول اثاثوں کو پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے میں اپنا بھر پور کردار اور حصہ ایمانداری سے ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ان اداروں سے ہمیں ہر سطح پر فوائد حاصل ہورہے ہیں خواہ ہمیں ان فوائد کا ادراک ہو یا نہ ہو۔ بہر حال ہم ان سے مستفید اور مستفیض ہو رہے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے۔
(رابطہ ۔9596010884 )