حالیہ بجٹ میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک بار پھراس عز م کا اعادہ کیا کہ حکومت جموںوکشمیر کے ہر کونے میں نوجوان لڑکوںو لڑکیوں میں موجود اختراعی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر انہیں بیروزگار سے خود روزگار بناناچاہتی ہے تاکہ ہمارے نوجوان سرکاری نوکریوں پر اکتفا کرنے کے بجائے نہ صرف خود روزگار دینے والے بن جائیں بلکہ ترقی کے سفر میں بھی شامل ہوجائیں۔ اب تقریباً زندگی کے ہر شعبہ میں سرکار کی جانب سے تعلیم یا فتہ نوجوانوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں قسمت آزمائی کرنے کا بھرپور موقع دیاجارہا ہے اور کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ہمارے بے ہنر مند اور نیم ہنر مند نوجوان ہنر مند بن جائیں تاکہ وہ نجی سیکٹر میں اپنی روزی روٹی کا خود بندو بست کرسکیں۔حکومت یقینی طور پر کار آفرینی یا کاروبار قائم کرنے کی اہمیت پر زور دے رہی ہے۔ قومی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ سٹارٹ اپس کا تصوربھی بہت زیادہ مشہور ہے۔ اس سلسلے میںملک میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں مختلف سکیموں کا اعلان کررہی ہیں اور ایسی پالیسیاں بنارہی ہیں جو نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے کیریئر کے انتخاب کے طور پر کچھ چھوٹی یا درمیانے درجے کی صنعتی سرگرمیوں کی طرف راغب کرسکیں۔ یہاں جموں و کشمیر میں ہم نے پچھلے دو برسوں میں پایا کہ بہت سے نوجوانوں نے مارکیٹ سرگرمیوں کے مختلف شعبوں میں اپنا کاروبار شروع کیا ہے اور اچھا کام کررہے ہیں۔ آن لائن کاروبار اور خدمات کے سیکٹر میں بھی پچھلے کچھ برسوں میں بے پناہ اضافہ ہواہے۔ یہ سب بہت حوصلہ افزا ہے اور نوجوانوں میں یہ رجحان قائم کرتا ہے کہ وہ سرکاری ملازمتوں کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنے ابتدائی برسوں کو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانے میں لگائیں۔ ہمارے پاس ایسی کامیاب مثالوں کی کمی نہیںہے جن میں افراد یا چھوٹے گروپوں نے انتہائی قلیل وسائل کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں شروع کیں اور ان کے کامیاب تجربات آس پاس کے لوگوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکے اور اس کے طفیل ایک دوڑ سی لگی ہے جس میں نوجوان اب اپنے کاروباری یونٹ قائم کرنے میںلگے ہوئے ہیں ۔ روایتی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نے لوگوں کو اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے نت نئے آئیڈیازپر عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جموں و کشمیر میں ہمیں نوجوان ذہنوں کے اس جذبے کو مزید فروغ کی ضر ورت ہے کیونکہ یہ ایک ایسا معاشرہ رہا ہے جہاں لوگ کسی حکومتی نوکری کی تلاش میں اپنے ایام ِ عروج کو غیر ضروری طور پر ہی ضائع کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ پھر کم درجے کی نوکریاں پاتے ہیں جن سے وہ دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے کما پاتے ہیں۔ہمارے پاس ادھیڑ عمر کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی آبادی ہے جو مالی بحران کا شکار ہے اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے کبھی سرکاری ملازمت سے آگے دیکھنے کی زحمت نہیں کی اور نتیجہ کے طور پر وہ لکیر کے فقیر ہی رہ گئے ۔ہم آج جس بیروزگاروں کے فوج پر تشویش میں مبتلا ہیں ،وہ بھی دراصل اسی سوچ کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم ابھی تک سرکاری نوکریوں سے آگے دیکھ نہیں پاتے ہیں۔تجارت اورکاروبار سے بہتر کچھ نہیں ہے لیکن یہاں یہ معمول ہی بنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف اس لئے پڑھاتے ہیں کہ آگے چل کر وہ سرکاری نوکر بن جائیں اور اس کشمکش میں وہ یاتو عمر کی بالائی حد پار کرجاتے ہیں یا پھر کسی چھوٹی موٹی نوکری پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نوجوان آبادی کاغالب حصہ انحصاریت کے دلدل سے باہر نکل ہی نہیں پاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرکاری نوکریوںپر اکتفاکرناچھوڑدیں۔ ایک دفعہ جب ہم ایسا کریںگے تو یقینی طور پر راستے کھل جائیں گے اورہمیںروزگارکے نت نئے مواقع نظرآجائیں گے۔دوسری جانب ارباب بست وکشادکی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نجی سیکٹر میں روزگار کے حصول کو آسان بنانے کیلئے مسلسل کوششیںکریں۔اس ضمن میںجہاںایسے شعبوںکوفروغ دینالازمی ہے جن سے روزگارکے وسیع امکانات پیدا ہوسکتے ہیں وہیںروزگارکاحصول یقینی بنانے کیلئے سرکاری معاونت اہم ہے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی سرمایہ نہیںکہ وہ اپناکاروبارخودشروع کرسکیں۔جتنے زیادہ نوجوان اپنے پیرو ں پرکھڑا ہوجائیں گے ،اُتناہی روزگار کے مواقع دستیاب ہوتے چلے جائیںگے اورجتنے زیادہ روزگار کے مواقع دستیاب ہونگے ،اُتنابیروزگاری پرقابوپانے میںمددملے گی۔امیدکی جانی چاہئے کہ نوجوان اورسرکاردونوں اپنی ذمہ داریوں کاادراک کرتے ہوئے اپنے حصے کا چراغ روشن کریںگے جس کے نتیجہ میں روشنی کاپھیلناطے ہے اورجوں جوں روشنی پھیلتی چلی جائے گی،مایوسیوں کا اندھیراچھٹتاچلا جائے گا اور امیدوںکی ایک نئی صبح یقینی پر طلوع ہوجائے گی جہاں خوشحالی کے خواب ہونگے ،ترقی کے ارادے ہونگے اورہاتھوں میںہاتھ لیکر آگے بڑھنے کاولولہ ہوگا۔