یوٹی حکومت کی جانب سے جاری بے دخلی مہم کے دوران سرکار کی جانب سے بار بار غریب لوگوں اور چھوٹے دکانداروں کو ہراساں نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود بے دخلی نوٹسز ایسے افراد کے خلاف مسلسل جاری کئے جارہے ہیں۔تازہ ترین کیس میں جموںمیں نئی بستی کے چھوٹے دکانداروںکو سرکاری اراضی پر قائم دکانوںسے بے دخل ہونے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں اور انہیں سات یوم میں دکانیں خالی کرنے کیلئے کہاگیا ہے جس پر مقامی دکانداروںنے احتجاج کیا۔اس موقعہ پر بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینہ نئی بستی پہنچے اور متاثرہ دکانداروںکو یقین دلایا کہ انہیں کوئی نہیں چھیڑے گا اور نوٹس جاری کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی ہوگی۔رویندر رینہ کی فوری یقین دہانی اطمینان بخش ہے اور اس سے متاثرہ دکاندار بھی مطمئن ہوگئے کہ انہیں بے دخل نہیں کیاجائے گا۔اسی طرح پیر کو ہی جموںسیول سوسائٹی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد بی جے پی لیڈر دیوندر سنگھ رانا کی سربراہی میں صوبائی کمشنر جموں سے سرکار کی انہدامی مہم کے سلسلہ میں ملاقی ہوا اور صوبائی کمشنر پر زوردیا کہ اس مہم میں غریبوں کو نہ چھیڑا جائے جس پر صوبائی کمشنر نے انہیں یقین دلایا کہ زمین نہ رکھنے والے سرکاری زمین پر قابض مکان مالکان اور غریبوں کو چھیڑا نہیںجائے گا تاہم بڑے زمینوںپر قابض افراد کو چھوڑا بھی نہیں جائے گا۔سرکاری اراضی کی بازیابی مہم کے خلاف کوئی نہیںہے اور یقینی طور پر ایسے لوگوںکو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجانا چاہئے جنہوںنے اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی سرکاری زمینوںپر قبضہ کررکھا ہے تاہم اس عمل میں ایسے غریب لوگوںکو نشانہ نہ بنایا جاناچاہئے جنہوںنے چند مرلہ اراضی پر اپنے آشیانے تعمیر کئے ہیں اور بیشتر معاملات میں یہ چند مرلہ اراضی بھی ناجائز قابضین اور زمین دلالوںسے پیسوںکے عوض خریدی ہے۔بلاشبہ یہ کوئی مستحسن عمل نہیں ہے تاہم سر چھپانے کیلئے جگہ ضروری ہے اور ایسا یقینی بنانے کیلئے اگر کسی نے ذرا سا غلط بھی کیا ہے تو اُس کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے ۔بے دخلی مہم کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ دھڑلے سے بلڈوزر چلایاجارہا ہے ۔جہاں ناگزیر ہو ،اگر وہاں بلڈوزر چلایاجائے تو کوئی حرج نہیںہے لیکن غیر ضروری طور بلڈوزر چلانا بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ سرکاری اراضی پر ناجائز تعمیر گرانے کیلئے بلڈوزر چلانا گوکہ وقتی طور خوف قائم کرنے کیلئے اچھا حربہ ہے تاہم یہ کوئی سود مند عمل نہیںہے ۔مثال کے طورپر ملک مارکیٹ جموں میں جس طرح ایک بہت بڑا شاپنگ کمپلیکس بلڈوزر چلاکر زمین بوس کردیاگیا ،اس کی کوئی منطق نہیں تھی ۔کتنا اچھا ہوتا اگر سرکار اُس کمپلیکس کو اپنی تحویل میںلے لیتی ۔یہاں آج بھی سینکڑوں دفاتر کرایہ کی عمارتوں میں چل رہے ہیں۔اُس شاپنگ کمپلیکس کی مالیت کروڑوں روپے تھی ۔اگر اتنی مہنگی پراپرٹی کا صحیح استعمال کیاجاتا تو کتنا بہتر رہتا۔عقلمندی کا تقاضا تھا کہ اُس شاپنگ کمپلیکس کو سیل کرکے سرکاری تحویل میں لیاجاتا اور پھر اس کے بعد اُس میں ایسے سرکاری محکمے منتقل کئے جاتے جو کرایہ کی عمارتوں میں چل رہے ہیں۔ایک تو سرکار کا کرایہ کا پیسہ بچ جاتا اور دوسرا ایک قیمتی اثاثہ کا بھی صحیح استعمال ہوتا لیکن ہم نے اس کے برعکس اس قیمتی اثاثہ کو تین بلڈوزروںکی مدد سے زمین بوس کردیا اور یوں سرکار کروڑو ں روپے کی پراپرٹی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔اسکے برعکس بانہال کی انتظامیہ کی داد دینی چاہئے جس نے اتوار کو انہدامی کے دوران ہسپتال روڈ پر سرکاری اراضی پر قائم کئے گئے 60کے قریب دکانوں کو گرایا نہیں بلکہ اُنہیں سیلم کرکے میونسپل کمیٹی بانہال کے سپرد کردیاتاکہ میونسپل کمیٹی آگے ان کے استعمال کے بارے میں کوئی فیصلہ لے ۔گوکہ وہاں بھی بلڈوزر دستیاب تھا اور ایک دکان اور ایک شیڈ گرائے بھی گئے تاہم اس کے باوجود جس طرح تحصیل انتظامیہ بانہال نے دکانوںکی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اتنی بڑی پراپرٹی کو زمین بوس کرنے سے بچایا،وہ لائق ستائش ہے ۔ظاہر ہے کہ انہدامی مہم میں یہ دکان بچ گئے ہیں اور دکانداروں نے اپنا سارا مال نکال کرانہیں پہلے ہی خالی کردیاتھا۔اب اگر آنے والے وقت میں میونسپل کمیٹی بانہال ان دکانوں کو اُنہی لوگوں کو کرایہ پر دے گی جن کے قبضہ میں یہ پہلے تھے تو ایک تو یہ دکان سرکاری ملکیت رہیں گے اور دوم سرکار کو ان سے ماہانہ کرایہ کی صورت میں معقول آمدن بھی حاصل ہوگی ۔اس طرح کا فارمولہ زیادہ معقول لگتا ہے ۔دکانوں اور تجارتی کمپلیکسوں کی گرائی سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ سرکار انہیں اپنی تحویل میں لے اور اس کے بعد یہی دکان یا شاپنگ کمپلیکس اُن لوگوںکو کرایہ پر دیں جن کا پہلے ان پر قبضہ تھا ۔دکانوں اور عمارتوںکو گرانا کوئی حل نہیںہے بلکہ وہ دو طرفہ نقصان ہے ۔اس میں متاثرہ لوگوںکا بھی نقصان ہے اور سرکار کا دوہرا نقصان ہے ۔ایک تو سرکار ایک بنی بنائی پراپرٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور دوسرا کرایہ کی صورت میں ملنے والی ماہانہ آمدن کے امکان بھی ختم ہوجاتا ہے ۔اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ بے دخلی مہم کے دوران انہدامی کارروائی کو کم سے کم کیاجائے گا اور زیادہ کوشش یہ رہے گی کہ ایسی املاک کو سرکاری تحویل میں لیاجائے تاکہ آگے چل کر ایسی املاک کا بہتر استعمال کیاجاسکے۔