جسم، روح، ذہن اور ثقافت کو تباہ کر دیتی ہے
شاہد حسین
ہر قوم کی پہچان اس کی ثقافت اور تہذیب سے ہوتی ہے۔ زبان، لباس، خاندانی رشتے، ادب و تہذیب اور شرم و حیا ہی وہ ستون ہیں جن پر کس بھی معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ ستون کمزور ہو جائیں تو پوری عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ کشمیر صدیوں سے اپنی سادہ مگرعظیم روایات اور پاکیزہ اقدار کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ یہاں کا رہن سہن، معاشرتی تعلقات اور شرم و حیا کی قدریں ایک مثال رہی ہیں۔ مگر آج کے دور میں ایک ایسا زہر ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہا ہے جس کی تباہ کاری منشیات سے کہیں زیادہ مہلک ہے اور وہ ہے — بےحیائی۔
بے حیائی بمقابلہ منشیات: منشیات کو ہمیشہ ایک بڑی برائی اور نوجوان نسل کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور بجا طور پر۔ یہ جسم کو کھوکھال کر دیتی ہیں،صحت تباہ کر دیتی ہیں اور خاندان برباد کر دیتی ہیں۔ لیکن بے حیائی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ جسم کے ساتھ ساتھ روح، ذہن اور ثقافت کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ منشیات صرف ایک شخص کو متاثر کرتی ہے، بے حیائی پورے معاشرے کو۔منشیات سے چند زندگیاں ختم ہوتی ہیں، بے حیائی سے پوری تہذیب دم توڑ دیتی ہے۔ منشیات کا علاج ممکن ہے، لیکن بے حیائی جب عادت اور فیشن بن جائے تو اس کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
کشمیری ثقافت پر حملہ : کشمیر کی ثقافت کی پہچان ہمیشہ وقار، حیا اور شرافت رہی ہے۔ لیکن آج یہ پہچان خطرے میں ہے۔ مغربی طر ِز زندگی کی اندھی تقلید نے نوجوانوں کو اپنی روایات سے کاٹ دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے غیر اخلاقی رجحانات کو عام کر دیا ہے ۔عریانی اور بے پردگی کو فیشن بنا دیا گیا ہے۔یہ تمام عوامل مل کر ہماری نسل کو اس تہذیب سے دور لے جا رہے ہیں جس نے ہمیں دنیا میں ایک منفرد مقام دیا تھا۔
خاندانی نظام کی جڑیں کمزور : خاندان کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ لیکن بے حیائی نے اس مضبوط ڈھانچے کو کھوکھال کر دیا ہے۔ رشتوں میں اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔ شادی بیاہ کے بندھن کمزور ہو رہے ہیں۔ طلاق اور خاندانی جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔ نئی نسل والدین سے فاصلے پر جا رہی ہے۔یوں بے حیائی براِہ راست ہمارے خاندانی نظام کو برباد کر رہی ہے، اور یہی وہ زہر ہے جو معاشرے کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتا ہے۔
زبان اور ورثے کا زوال : ثقافت صرف ظاہری لباس یا رسومات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ورثہ ہے جس میں زبان، موسیقی، ادب اور تہذیبی اقدار شامل ہیں۔ جب بےحیائی عام ہوتی ہے تو نوجوان اپنی زبان اور ورثے سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ کشمیری زبان نئی نسل کے لیے غیر اہم ہوتی جا رہی ہے۔ روایتی لباس کی جگہ بے جا فیشن پرستی لے رہی ہے۔ادب و فنون کی جگہ غیر اخالقی رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔یوں رفتہ رفتہ وہ سب کچھ مٹ رہا ہے جو ہمیں دنیا میں ایک الگ شناخت دیتا تھا۔
آنے والے خطرات :اگر یہی روش جاری رہی تو چند دہائیوں بعد ہماری شناخت محض نام کی رہ جائے گی۔ ہماری آنے والی نسلیں شاید کشمیری تو کہلائیں گی مگران کی سوچ، عادات اور طر ِز زندگی مکمل طور پر غیر کشمیری ہوگی۔ یہ صور ِت حال کسی بھی قوم کے لیے سب سے بڑا المیہ ہے کہ وہ اپنی اصل پہچان کو کھو دے۔
ہماری ذمہ داری : اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہ زہر کب تک پھیلتا رہے گا؟ اس کے سدباب کے لیے ہمیں اجتماعی سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔خاندان کا کردار: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو روایتی اقدار اور حیا کی اہمیت سمجھائیں۔
تعلیمی ادارے : صرف نصاب پڑھانا کافی نہیں، کردار سازی بھی الزمی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا: ان پلیٹ فارمز کو بے حیائی کے بجائے مثبت اقدار اور ثقافت کو فروغ دینا چاہیے۔
سماجی تنظیمیں:بیداری مہمات اور آگاہی پروگراموں کے ذریعے معاشرے میں حیا کی قدروں کو اجاگر کیا جائے۔
نتیجہ : کشمیر کی خوبصورتی صرف اس کے مناظر اور وادیوں میں نہیں بلکہ اس کی تہذیب، اقدار اور شرم و حیا میں ہے۔ اگر یہ اقدار ختم ہو گئیں توکشمیر اپنی اصل پہچان سے محروم ہو جائے گا۔ بے حیائی ایک خاموش زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری ثقافت کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ ہمیں اس زہر کو روکنے کے لیے ابھی سے قدم اٹھانے ہوں گے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
رابطہ۔6005339879