ڈاکٹر سیدآصف عمری
موجودہ دنیا کےمختلف ممالک میں رونما ہونے والے ظلم و غارت گری کے واقعات کے نتیجے میں پیدا شدہ سنگین حالات کے بعد بھی بہت سارےممالک عدل ومساوات کی دہائی تو دیتے ہیں،لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور اس سنگیں دور میںامت مسلمہ جن حالات سے گزر رہی ہے، ایسے نازک حالات میں قرآن کریم کا ایک عملی پروگرام پیش کیاگیا ہے ،جس میں تین احکامات ہیں اورتین ممنوعات ہیں۔(۱) عدل ومساوات (۲) حسن سلوک (۳)اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی، اور جن کاموں سے منع کیا گیا (۱)جرائم ،بے حیائی (۲) برائیاں اور (۳) ظلم وزیادتیاں۔نیزعدل وانصاف پرمضبوطی سے قائم رہنے،حق کی گواہی دینے کی تاکید کی گئی کیوں کہ یہ صفت تقویض سے قریب کرنے والی ہے۔(المائدہ۔8)تعصبات، تنگ نظری، حسب نسب پر فخر و غرور تباہ کن ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کی اصل آدم و حوا کو بنایا اور ان سے مختلف قبائل، خاندان بنادیئے تاکہ ایک دوسرے سے متعارف ہوں ،البتہ عزت و شرافت، تقویٰ و پرہیزگاری میں رکھی ہے۔(الحجرات ۔13)۔ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہندوستانی معاشرے میں عدل و انصاف سے متعلق اسلامی تعلیمات عام کیاجائے۔برادران وطن تک عصری اسلوب میں اس کی تبلیغ کی جائے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کے لئے اُبھارا جائے۔ مسلمان عدل وانصاف سے دور ہوکر خواہشات کے غلام بن بیٹھے ہیں جس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ مسلم معاشرہ جذباتیت اور خواہشات میں لگ کر عدل وانصاف کے خلاف قدم اٹھارہا ہے۔ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں ہم تمام ہندوستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم دستور کی حفاظت کریں اورباہمی بھائی چارہ و اتحاد کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں، ہر ہندوستانی ملک کی ترقی کے لئے فکرمندہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل یہاں نہ برہمنوں نے یکجہتی کی راہ ہموارکی اور نہ ویش، چھتری اور شودر نے کوئی سوچ وبچار کیابلکہ یہ صرف اسلام اور مسلمانوں کی وجہ سے بقائے باہم ، قومی یکجہتی، رواداری، امن و آشتی کی عظیم بنیادیں رکھیں۔ آج بھی یہ عظیم فریضہ مسلمان اپنے اخلاق کریمانہ اور اعلیٰ صفات کے حامل ہوکر کرسکتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات، سیرت رسول بالخصوص حلف الفضول، میشاق مدینہ اور صلح حدیبیہ سے سبق اور روشنی لے کر اسلامی صداقتوں اور حقیقتوں کو پیش کریں۔نفرت کو محبت کے ذریعہ، دشمنی کو دوستی کے ذریعہ، دوریوں کو نزدیکی اور تعلقات کے ذریعہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
وہ علاقے اور ریاستیں جہاں مسلمان بہت کم ہیں تو وہاں مسلمانوں کو حلف الفضول پر عمل کرنا چاہئے۔ جہاں کہیں ظلم وزیادتی ہو وہاں صبر وتحمل کے ساتھ اپنے حسن اخلاق سے دشمنوں کو متاثر کریں اور عزیمت کے پہلو پر عمل کریں،ظلم کے خلاف قانونی و شرعی مقابلہ کریں۔مفاد پرستوں، فرقہ پرستوں اور منافقانہ روش اختیار کرنے والوں سے چوکنا رہ کر حالات کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں میشاق مدینہ والا عمل پیش کریں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا صحیح تعارف ہوسکے۔ ? وہ علاقے جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کرفرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں تو وہاں ہمیں صلح حدیبیہ جیسے معاہدوں پرعمل کریں ۔ہمیں حالات سے گھبرانے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اسلامی تاریخ کے عظیم حادثات اورواقعات سے سبق لینا چاہئے۔سقوط بغداد، سلطنت عثمانیہ کے زوال اور تقسیم ہند وغیرہ۔اسلامی رواداری کے پیغام کو سمجھنے، عام کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے مسلمانوں میں قرآن کریم کی انقلابی خوشخبری کو پیش کریں اور ان میں اتحادو اتفاق ،اجتماعیت و ایثار و قربانیوں کو ملحوظ رکھیں۔ بھارت میںمسلمانوں کے خلاف بہت ساری غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں یہ کہ مسلمان اپنے ملک سے غداری کرتے ہیں یہ دیش دروہی ہے ، یہ دوسرے ملکوں سے آکر یہاں آباد ہوئے، یہاں مسلم حکمرانوں نے ہندوؤں پر بہت ظلم ڈھائے ہیں، یہاں مسلم بادشاہوں نے مندروں کو توڑ کرمسجد یں تعمیر کئے، یہاں مسلمان تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلائے،یہ دہشت گرد ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح بہت ساری بے بنیاد جھوٹی باتیں اور غلط فہمیاں نصابی کتابوں میں اور میڈیا کے ذریعہ پھیلاکر ہندومسلم نفرت کو بڑھاوا دیاہے۔ موجودہ ملکی حالات اور ہمہ گیر مسائل و چیلنجز کے تناظر میں سب سے اہم ترجیحی کام اسلام کا تعارف اور پیغام عام کرنا ہےاور اس کے لئے سارے بھارت کی بڑی اور زندہ زبانوں میں دعاۃ تیارکرنا اور لسان قوم میں توحید کی دعوت عام ہونی چاہئے کیوں کہ جب تک قوم کی زبانوں میں اسلام کا لٹریچر نہیں پھیلے گا تب تک یہ رکاوٹ رہے گی اور امت دعوت و امت اجابت کے درمیان دوریاں رہیں گی۔دوریاں ،نفرتیں،عداوتیں، غلط فہمیاں دورکرنے کایہی یہی راستہ ہے کہ رابطہ عامہ کے شعبہ کو سرگرم کیا جائے۔نصرت الہٰی تب ہی آئے گی جب مسلمان دین کی خدمت کریں گے اور دین کی دعوت اور انسانیت کی خدمت ہی سے موجودہ بحران اورمشکلات سے مسلمان نکل سکتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری امت سے وعدہ فرمایا،واللہ یعصمک من الناس (القرآن) جتنی طویل مدت مسلمانوں نے اندلس میں حکومت کی اتنی ہی مدت ہندوستان میں مسلمانوں نے کی تھی۔بھارت میں فرقہ پرست طاقتیں، سیکولرازم کی مخالفت کرکے اسپین کی تاریخ دہرارہے ہیں ۔مسلمانوں نےہندوستان میں تعمیری ترقی کی اور مسلمانوں کے تعلیمی امور میں خدمت کی،مگربرادران قوم میں دعوت کے کام کونظرانداز کردیا جس کے نتیجہ میں مسلمان اقلیت میں ہی رہے۔
پروفیسر محسن عثمانی ندوی اپنی کتاب ’’حالات بدل سکتے ہیں’‘ میں تجزیاتی و تعمیری اندازمیں ملک کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے بہت کارآمد باتیں لکھیںہیں کہ مدارس میں علماء کو لسان قوم میں دعوت کا کام نہیں سکھایا جاتا، طلبہ کو برادران وطن کے عقائد ونظریات سے واقفیت نہیں کروائی جاتی۔ انجمنوں میں طلبہ کو لسان قون میں دعوت پر تیار نہیں کیاجاتا، خارجی مطالعہ کا کورس نہیں اور نصاب تعلیم میں جدید تقاضوں پر کوئی موادنہیں، کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں کہ جہاں لسان قوم میں قوم کو بلانے کی دعوت اور ملک کے حالات بدلنے پر کوئی پروگرام اور منصوبہ نہیں۔ قوم کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کوئی لائحہ عمل بھی نہیں۔یقینا ًمدارس و علماء نے بہت کام کئے مگر اخرجت للناس کے فریضہ پر کوئی ٹھوس دعوتی کام نہیں کیا، فن خطابت،فن تحریر، علوم حدیث وتفسیر قرآن اور فقہ ومسائل پر دروس ومحاضرات ہوئے مگر دعوت الی اللہ نصاب سے اور Field Workمیں شامل نہیں رہا۔پہلی صدی ہجری میں جزیرۃ العرب میں صحابہ کرام اور غیرمسلموں کے درمیان رابطہ تھااور تعلقات موجود تھے لیکن ہندوستانی مسلمانوں میں صورت حال مختلف ہے۔ رابطہ قوت ٹوٹ چکا ہے، زبان کی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا یہاں دعوت سے پہلے دعوتی پلیٹ فارم تیار کرناہوگا۔ رابطے کو بتدریج توحید کے لئے استعمال کرناہوگا۔ایسے اخلاق اپناناہوگا کہ غیرمسلم ہمیں اپنا دشمن نہیں دوست اور خیرخواہ سمجھے۔ہر فرد کو تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی خوبیوں اور کردار سے متاثر کرناہوگا۔اس منصوبہ پر جلدکام شروع ہوناچاہئے بہت دیرہوچکی مزید تاخیر ہمارے لئے بہت سارے خطرات پیدا کرسکتی ہیں۔ ہماری بے حسی اور غفلت کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔
(رابطہ۔9885650216)
[email protected]