Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

بے حسی کا دور دورہ ،انسان انسانیت سے کمتر | گُفتار و کردار کا معیار پست ،برداشت و رواداری نابود

Towseef
Last updated: May 26, 2025 11:19 pm
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

فہم و فراست

مسعود محبوب خان

آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم اُس خسارے کی زد میں آ چکے ہیں جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے’’سورۃ العصر۳:۔۱‘‘ میں کی ہےکہ’’زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کئےاور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔‘‘ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری گفتار اور کردار اعلیٰ معیار سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ ہمارے تعلقات خود غرضی کی بنیاد پر استوار ہو چکے ہیں، معمولی اختلافات دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں۔ برداشت اور رواداری ختم ہو چکی ہے اور ہر شخص دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ یہ المیہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہمارے زوال کا سبب بن چکا ہےاور ہمارا آج خود غرضی، تعصب اور بے حسی کی دُھند میں گم ہو چکا ہے۔ ہماری معاشرتی بنیادیں لرز رہی ہیں اور ہم بحیثیت اُمت اپنی اصل شناخت کھو رہے ہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں، اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس خسارے سے بچنے کی حقیقی کوشش کریں جس کی خبر اللہ نے دی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان، رویے اور معاملات میں دیانت، نرمی، عدل اور سچائی کو اپنا لیں تو ایک بہتر اور پُرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہم اپنی بے عملی سے مزید زوال کی طرف بڑھتے رہیں گے۔جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیںتوخود غرضی، بے حسی، بے چینی اور بدتمیزی عام ہو چکی ہے، انسانی رویے کرختگی اور سخت مزاجی کی تصویر بن چکے ہیں اور اخلاق و شائستگی کے الفاظ اپنی معنویت کھوچکے ہیں۔ نرم گفتاری اور حلم کی جگہ تند و تیز لہجوں نے لے لی ہے، جس سے نہ صرف انسانی رشتے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ معاشرتی اقدار بھی دم توڑرہے ہیں۔یہ المیہ صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے اثرات ہماری اجتماعی شناخت اور ملی نظریے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ہماراآج خود غرضی اور نفسا نفسی کی دھول میں دُھندلا چکا ہے،اغیار ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیںاور ہم بے خبری کے پردے میں ایسے قید ہیں کہ نہ حقیقت کو دیکھ رہے ہیں اور نہ اس کا ادراک کر پا رہے ہیں۔جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے انسانیت کے بہترین اصول اور اخلاقیات کے اعلیٰ معیار متعین کئے تھے۔ آپؐ نے ایک سچے مسلمان کی پہچان اس کے اخلاق، زبان اور عمل سے جوڑی۔ ارشادِ نبوی ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ یہ تعلیم ہمیں برداشت، نرم مزاجی اور صبر کی ترغیب دیتی ہے، مگر آج ہم ان اصولوں کو فراموش کر چکے ہیں۔حضور اکرمؐ نے زبان درازی کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’آدمی کے لئے زبان درازی سے زیادہ بُری خصلت اور کوئی نہیں۔‘‘ مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ بدزبانی، بدکلامی اور ناشائستہ رویے عام ہو چکے ہیں۔ نہ گفتگو میں نرمی باقی رہی اور نہ وعدے کی پاسداری کا احساس۔ نفاق کی علامتیں، جنہیں آپؐ نے یوں بیان فرمایا: ’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب کسی سے معاملہ کرے تو بدکلامی کرے اور جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔‘‘یہ صفات ہمارے رویوں میں جڑ پکڑ چکی ہیں جو ہماری اجتماعی تباہی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

معاشرے کی خوبصورتی عدل، حلم، میانہ روی اور رواداری میں ہے۔ جہاں یہ خصوصیات مفقود ہو جائیں، وہاں انتشار، بے راہ روی، شدّت پسندی، اضطراب اور ناانصافی اپنے پنجے گاڑ لیتے ہیں۔ آج اگر ہم ان رویوں کا سدّباب نہ کریں تو ہم اپنی اخلاقی اور سماجی اقدار کو مکمل طور پر کھو بیٹھیں گے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خود احتسابی کریں، اپنی زبان و عمل کو سنواریں، اپنے رویوں میں نرمی اور برداشت پیدا کریں اور نبی کریمؐ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنائیں تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک باوقار، عادل اور پُرامن سوسائٹی میں تبدیل ہو سکے۔عدم برداشت ہمارے معاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ صبر، تحمل اور بردباری جیسے اعلیٰ اوصاف دم توڑ چکے ہیں اور ان کی جگہ انتقام، غصے اور بے حسی نے لے لی ہےاور معمولی اختلافات پر ہم مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری معاشرتی بنیادیں کیوں لرز رہی ہیں؟ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہمیں عدم برداشت، سخت گیری اور بد اخلاقی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جب کسی معاشرے میں انصاف کمزور پڑ جائے، حقدار کو اس کا حق نہ ملے، طبقاتی تفریق بڑھ جائے، عدل میں تاخیر ہونے لگے اور قانون صرف غریبوں کے لئے رہ جائے جب کہ اشرافیہ ہر ضابطے سے بالاتر ہو، تو وہاں برداشت اور رواداری ختم ہو جاتی ہے۔ جب غربت حد سے بڑھ جائے، ضروریات اور خواہشات خواب بن جائیںاور زندگی بوجھ لگنے لگے، تو ایسے میں انسان کے لیے صبر کا دامن تھامنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ نہ صرف دوسروں سےبُرے رویے اپناتا ہے بلکہ خود اپنے ہی خلاف سازشیں کرنے لگتا ہے۔ البتہ وہی شخص ان حالات میں بھی نرم گفتار اور بردبار رہتا ہے، جسے اللہ پر کامل بھروسہ ہوتا ہے، ورنہ عمومی طور پر حالات کی سختی انسان کو سخت بنا دیتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خوش اخلاقی اور میٹھے بول کی تاثیر ازل سے مسلمہ ہے۔ ماضی کے بادشاہوں کا طرزِ حکمرانی دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنی رعایا کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، ان کے مسائل پر غور کرتے تھے اور بعض اوقات تو ان کے ساتھ ہونے والے حادثات اور مشکلات کی جھلک خوابوں میں بھی دیکھتے تھے۔ وہ ان خوابوں کو محض واہمہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے مطابق عملی اقدامات کرتے تھے تاکہ رعایا کو سہولت ملے، ریاست مستحکم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔مگر آج کے حکمرانوں کی دنیا ہی الگ ہے۔ انہیں خواب آتے بھی ہیں تو صرف اپنے مفادات کے، انہیں دکھائی دیتا بھی ہے تو صرف اپنا اقتدار۔ عوام کی مشکلات، غربت، ناانصافی اور مسائل ان کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ اقتدار کے نشے میں اس قدر مست ہو چکے ہیں کہ انہیں عوام کے سسکتے چہرے اور ٹوٹتی امیدیں نظر ہی نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا معاشرہ بے حسی کی تصویر بن چکا ہے، جہاں محبت کے بجائے نفرت پلتی ہے، انصاف کے بجائے ظلم پنپتا ہے اور رحم دلی کی جگہ سنگدلی نے لے لی ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم سوچیں، اپنے رویوں پر غور کریں اور صبر، حلم، رواداری اور خوش اخلاقی کو اپنی زندگیوں میں واپس لے آئیں۔ ورنہ اگر یہی روش برقرار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ انتشار ہمیں مکمل طور پر برباد کر دے گا۔ خوش اخلاقی اور شیریں کلامی کی اہمیت ازل سے مسلمہ ہے۔ نرم گفتاری اور خوش مزاجی وہ اوصاف ہیں جو دلوں کو فتح کر لیتے ہیں، تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں اور اختلافات کو صبر و برداشت کے دامن میں لپیٹ دیتے ہیں۔ ماضی کے حکمران اپنی رعایا کے لیے اس قدر فکرمند ہوتے تھے کہ بسا اوقات ان کے خواب بھی عوام کی پریشانیوں اور آنے والے واقعات کی نشاندہی کرتے تھے۔ وہ ان خوابوں کو محض اتفاق نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے مطابق اقدامات کرتے تاکہ اپنی سلطنت کو محفوظ اور اپنے عوام کو مطمئن رکھ سکیں۔بلاشبہ الفاظ کا چناؤ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کی نرمی کسی تلخ حقیقت کو بھی قابل قبول بنا سکتی ہے، جب کہ سخت لہجہ اور ترش الفاظ خوشخبری کو بھی مایوسی میں بدل سکتے ہیں۔ افسوس! دین اور دنیا کے تمام علوم ہمیں خوش خلقی، نرمی اور تحمل کی تعلیم دیتے ہیں، مگر ہم اپنی دنیاوی خواہشات کے پیچھے اتنے بھاگ رہے ہیں کہ خسارے کا احساس ہی کھو چکے ہیں۔جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہےکہ ’’بے شک انسان خسارے میں ہے۔‘‘ یہ خسارہ صرف دولت یا وقت کا نہیں بلکہ اخلاقیات، صبر اور برداشت کے زوال کا بھی ہے۔

آج عدم برداشت کے مظاہر ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، عدم رواداری کے لرزہ خیز واقعات آئے روز خبروں کی زینت بنتے ہیں۔اس لئےابھی بھی وقت ہے کہ ہم غور کریں کہ کہیں ہم بھی اسی خسارے کا حصّہ تو نہیں بن رہے؟ ہمیں چاہیے کہ نرم گفتاری، خوش اخلاقی اور تحمل و بردباری کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائیں، کیونکہ یہی وہ خوبیاں ہیں جو تعلقات کو مضبوط کرتی ہیں، معاشرے میں امن قائم کرتی ہیں اور ہمیں حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں۔ کیا ہمارے معاشرتی زوال کا پیمانہ صرف یہی رہ گیا ہے کہ بدلحاظی کے مظاہر کی تشہیر کی جائے، گویا اخلاقی بگاڑ کے لیے ذات، قوم یا وراثت کی کوئی قید ہی نہ ہو؟ اور کیا الیکٹرانک میڈیا کے پاس اب صرف یہی ’’اہم‘‘ موضوعات رہ گئے ہیں کہ غیر سنجیدہ افراد کے معاشقے اور ان کے جارحانہ رویے عوام کے سامنے رکھے جائیں، جب کہ حقیقی مسائل پسِ پردہ چلے جائیں؟حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ بااثر شخصیات اور ان کے اہل خانہ کے تحکمانہ لہجے اور غیر مہذب رویے ہمیشہ سے زیرِ بحث رہے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں جہاں اقتدار اور طاقت کے نشے میں چُور افراد نے قانون کو پامال کیا، مگر انجام ہمیشہ کمزور کے حصّے میں آیا۔ جہاں لاقانونیت کھلے عام رقص کرتی ہیں، انصاف کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں، مگر آخر میں کچھ حاصل نہیں ہوتا!یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت، بے حسی اور اخلاقی زوال کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ہم وہ امت ہیں جسے رواداری، صبر، حلم اور اخوت کا درس دیا گیا، مگر آج ہمارے رویے ان تعلیمات سے یکسر مختلف ہو چکے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف سننے اور سنانے تک محدود ہو چکے ہیں، عمل کی دنیا سے کوسوں دور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی اصلاح کریں، خود احتسابی کو اپنائیں اور اپنی زندگیوں میں نرم گفتاری، خوش اخلاقی اور رواداری کو شامل کریں۔ جب تک ہم اپنے اخلاق اور کردار کو بہتر نہیں بنائیں گے، نہ معاشرتی بگاڑ رُک سکتا ہے اور نہ ہی ملی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنی ذات سے اس تبدیلی کا آغاز کریں، اپنے رویوں میں برداشت اور نرمی پیدا کریں، انصاف اور عدل کو فروغ دیں اور نبی اکرمؐ کی سیرت کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ اگر آج ہم نے اپنے کردار کی اصلاح نہ کی تو کل ہمارے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ہوگا۔ یہی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں، ورنہ تاریخ ہمیں ایک ناکام قوم کے طور پر یاد کرے گی۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کشمیر زون پولیس نے ملی ٹنسی سے متاثرہ کنبوں کے لئے ہیلپ لائن قائم کی
تازہ ترین
مائیگرنٹ مزدور قتل معاملہ: بجبہاڑہ میں SIA کی کارروائی
تازہ ترین
جموں میں دو منشیات فروش گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد:پولیس
تازہ ترین
5 ہزار سے زیادہ یاتریوں کا دوسرا قافلہ جموں بیس کیمپ سے روانہ
تازہ ترین

Related

کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
کالممضامین

وژن سے حقیقت تک:ڈیجیٹل انڈیا اور انتودیہ کا سفر اظہار خیال

July 2, 2025
کالممضامین

! ہر شعبے میں عدل وانصاف نمایاں ہو | یہی تو حسینیت کا اصل پیغام ہے سانحۂ کربلا

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?