سرینگر//وادی میں آبی ذخائر پر ناجائز قبضے،جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو اور شہری علاقوں میں اندھادھند تعمیراتی عمل کو ماحول کے بگاڑ کی وجہ قرار دیتے ہوئے ماہرین ماحولیات نے ہوس زر اور پرتعیش زندگی کے حصول کے لئے کی جانے والی منفی انسانی سرگرمیوں پر روک لگانے کی وکالت کی ہے۔ دنیا بھر میں عالمی یوم الارض (ورلڈ ارتھ ڈی) 22اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنت کے نام سے پہچاننے والی جگہ کشمیر بھی ماحولیاتی آلودگی سے پاک نہیں رہی اور اس کیلئے براہ راست جتنا یہاں کی عوام ذمہ دار ہے اتنا ہی غیر ریاستی باشندے بھی ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارض سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل احمد رومشو کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر بالخصوص وادی میں گزشتہ25برسوں سے آبی ذخائر پر ناجائز قبضے اور جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو کی وجہ سے یہاں کے ماحول کو بہت نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ دریائے جہلم کے دونوں کناروں کو بھی نا صرف سکڑایا گیا بلکہ غلاظت سے لبریز کیا گیا جس کی وجہ سے آبی آلودگی پیدا ہوئی جو کل ملاکر یہاں کے حساس ماحول کیلئے زہر ناک ہے۔پروفیسر رومشو نے کہا کہ گاڑیوں کی بڑتی تعداد سے صوتی آلودگی اور صحت افزا ء مقامات پر گندگی و غلاظت کے ڈھیر جمع کرنے کے علاوہ لاتعداد لوگوں کے جمع ہونے سے ماحولیاتی حرارت پیدا ہوتی ہے جو گلیشر پگلنے کا موجب بنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں اندھادھند اور بے ترتیب تعمیراتی عمل سے بھی یہاں کے ماحولیات کو زک پہنچا تاہم ان کا کہنا تھا کہ دیگر ریاستوں اور خطوں میں صنعتوں کی جس بھر مار سے ماحولیات میںسب سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے قسمت سے ابھی تک کشمیر اس سے بچا ہوا ہے۔ ورلڈ ارتھ ڈے کے نام سے عالمی یوم الارض 22پریل 1970سے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا تا ہے تاکہ عوام میں زمین کے قدرتی ماحول کے بارے میں شعور بیدار کرنا ممکن ہو سکے۔اس دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے 175 رکن ممالک بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ خطہ ارضی کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھا جا سکے۔ ماہر ارضیات شکیل احمد رومشو نے مزید کہا کہ ماحول میں آلودگی کے ساتھ ہی موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے2014میں آئے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ1903 اوربعد میں1950کی دہائی میں بھی برے اور تباہ کن سیلاب آئے تاہم ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور گزشتہ سیلاب کے دوران حکومت نے از خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ایک لاکھ کروڑ کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ آپ ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرو گے تو ماحول بھی اپنا ردعمل دکھا کر آپکے ساتھ چھیر چھاڑکرے گا۔ گزشتہ دن متحرک مقامی سیول سوسائٹی گروپ ’’کولیشن آف سیول سوسائٹز‘‘ نے بنگلور نشین ایک تحقیقی گروپ ’ایکویشن‘ کے اشتراک سے ایک رپورٹ جاری کیا جس میں سالانہ یاترا کے دوران وادی کے ماحولیات کو زک پہنچنے سے متعلق کئی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یاتریوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے جہاں ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہی یاتر اکے راستوں پر قدرتی چشموں سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔عالمی یوم ارض منانے کی روایت کو2020 میں نصف صدی مکمل ہوجائے گی، لیکن زمین کے وجود کو لاحق خطرات ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔امسال عالمی سطح پر یوم ارض’’ماحولیاتی اور موسمی خواندگی‘‘ کے موضوع کے تحت منایا جائے گا۔دنیا بھر میں یوم ارض کی سب سے عام اور مقبول سرگرمی درخت لگانا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے والی رضا کار تنظیمیں آئل اسپیل، فیکٹریوں اور بجلی پلانٹوسے نکلنے والے دھویں، خام کچرے، خطرناک تابکار فضلہ، جنگلات اور زمین کو پہنچنے والے نقصانات کے خلاف کافی عرصے سے مہم چلا رہی ہیں۔ بیرون ملک یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات میں تعینات ڈاکٹر شبیر احمد راتھر کے مطابق یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ انسان نے اس بات کو جان لیا ہے کہ زمین نزع کے عالم میں ہے اور اس کی سانسیں ختم ہونے کا مطلب انسانی زندگی کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ انسان نے مرض کی تشخیص بھی کر لی ہے اور اس کے دوا کا پتہ بھی چلا لیا ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اس درد کو پیدا کرنے والے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر، غریب اور پسماندہ ملکوں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ علاج کی قیمت خود ادا کریں۔انہوں نے بتایا کہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہوس زر اور پرتعیش زندگی کے حصول کے لئے کی جانے والی منفی انسانی سرگرمیوں بالخصوص صنعت و حرفت کی ناہموار ترقی، بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، قدرتی وسائل کا بے دریغ استحصال اور معدنی ایندھن کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں گرین ہائوس گیسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وادی میں زیر کاشت رقبہ تشویشناک حد تک کم ہوتا جا رہا ہے جب کہ جنگلات کو کاٹنے کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کی وجہ سے ریاست کو حالیہ چند برسوں میں کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔