حال و احوال
ندیم خان
جموں و کشمیر میں آن لائن جوا ،نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں گھروں کو شدید مالی پریشانی اور جذباتی انتشار سے گزرنا پڑرہا ہے۔ آن لائن بیٹنگ گیمز نے کشمیر میں ہزاروں لوگوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو پیسے کمانے کا لالچ دیکر انہیں زمین، مکان اور دکان تک بیچنے پر مجبور کر دیا ہے اور نوجوانوں کو اس کے نتیجے میں اکثر بھاری نقصان یعنی قرض اور نفسیاتی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے امتیاز احمد شیخ کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے جو ایک طالب علم ہیں ،اس نے ہمیں بتایا کہ میں نے موبائل فون میں آن لائن بیٹنگ گیم ایویٹر (Aviator) کا اشتہار دیکھا اور پھر میں نے بھی سوچا کہ کروڑ پتی بننے کا اس سے آسان طریقہ نہیں ہوسکتا ہے، پھر میں نے بھی کھیلنا شروع کیا۔ امتیاز نے ابتدائی دنوں میں آن لائن بیٹنگ میں 10,0000 روپے جیت لئے۔ ایک لاکھ روپے جیت کر امتیاز احمد شیخ کی لالچ میں اضافہ ہوا اور اس سے اسی چیز سےحوصلہ پا کر اس نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور اپنے پڑوسیوں سے لاکھوں روپے اُدھار لیکر اس بیٹنگ گیم میں لگا دئیے، اور پھر وہ سب پیسے چند ہی دنوں میں گنوا بھی دیئے۔ امتیاز احمد اس گیم میں پیسہ ہارنے کے بعد مہینوں تک لاپتہ ہوگیا۔ پھر گھر والوں کو اسے گھر واپس لانے کے لئے اپنی خاندانی زمین بیچنی پڑی اور اس کے قرضوں کو ختم کرنا پڑا۔ کشمیر سے ایک اور نوجوان بشیر احمد ملک نے اپنی دلدوز داستان بتاتے ہوئے کہا کہ کس طرح اس نے ابتدا میں پانچ لاکھ روپے جیتے۔ جس کی وجہ سے اس کے حوصلے میں زیادہ اضافہ ہوا، تاہم جیسے جیسے وہ کھیلتا گیا، بشیر احمد نہ صرف اپنے جیتے ہوئے پانچ لاکھ ہار گیا بلکہ سات لاکھ روپے گھر والوں سے لے کر وہ پیسے بھی ہار گیا۔ بشیر احمد ملک نے بعد میں کہا کہ میں نے بہت دیر سے سمجھا کہ اگر کوئی اس گیم یعنی جوئے میں جیت بھی جاتا ہے، تو وہ بالآخر ہار جاتا ہے۔ اس جوئے نے مجھے اور میرے پورے ہنستے کھیلتے خاندان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ دراصل یہ آنلائن جوا اب فیشن بن گیا ہے اور سماج میں اس کے ساتھ لگی ہوئی شرمندگی کو کالعدم قرار دینے کے بعد اس کو ایک کھیل کے روپ میں سامنے لایا گیا۔ اب اس جوئے کو کھیلنے کے لئے کسی خفیہ جگہ کی ضرورت نہیں ہے۔ بس ایک موبائل فون، انٹرنیٹ اور موٹی رقم، اور رقم کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قرضہ اور قرضے کی ادائیگی کیلئے چوری ایک راستہ نکل سکتا ہے۔
حال ہی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شخص جس کا نام نور محمد ہے جو سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے، اس نے اپنی دلدوز داستان میں بتایا کہ مجھے تین لاکھ کا کچھ قرض تھا اور پھر میں نے اس بات کو اپنے دوست کو بتایا کہ مجھے کچھ قرض ہے، تو آپ مجھے بتائیں میں کیا کروں۔ جس کے بعد اس کے دوست نے اسے مشورہ دیا کہ آپ ایک آن لائن گیم ایویٹر (Aviator) کھیلو، اگر آپ جیت گئے تو آپ کا سب قرض ختم ہو جائے گا۔ نور محمد نے بتایا کہ کچھ مہینوں سے اس نے دوست کے کہنے پر آن لائن گیم ایویٹر (Aviator) کھیلنا شروع کیا، لیکن اس گیم میں جیتنے کے بجائے میں ہارتا چلا گیا، جس کی وجہ سے میں نے اپنا گھر زمین اور اپنی جمع رقم سب کچھ کھو دیئے ہیں۔ افسوس ان کو کوئی یہ کہے کہ ان ایپس کے پیچھے ایک ایسا نظام اور الگورتھم [Algorithm] کار فرما ہے، جو کھیلنے والے کی نفسیات کو سمجھ کر اسے لالچ اور عادت کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے اور کچھ نہیں۔ جموں کشمیر کی نوجوان نسل میں کھیلوں خصوصاً کرکٹ کی آڑ میں یعنی آن لائن جوئے کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کافی حدتک اضافہ ہوا ہے۔ افسوسناک ہے کہ ہمارا سماج جو پہلے ہی منشیات کی تباہ کن لت میں مبتلا ہوچکا تھا، اب ایک اور وباء نے وادی کشمیر کے نوجوانوں کو آن لائن جوئے کی صورت میں جکڑ لیا ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ کشمیری نوجوان پیسے کے لالچ میں ان ایپلیکیشن جیسے ڈریم 11، (Dream 11) مائی الیون سرکل، (My 11Circle) اور ایویٹر (Aviator) وغیرہ میں پیسہ لگا کر اپنا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کچھ خاندانوں کو اپنے گھروں کو بیچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور کچھ اپنے عزیزوں کی جانب سے اٹھائے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں نے اس جال میں پھنس کر لاکھوں روپے گنوا دیئے ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی نے واضح کیا کہ اسلام میں شراب اور جوئے جیسی لعنت کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ نہ صرف ہماری زندگیوں کو تباہ کرتا ہے بلکہ ہماری روحانی اور اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرتا ہے اور اس طرح ہمارے سماج اور معاشرے کا تانا بانا تیزی سے بکھر رہا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ جموں وکشمیر میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح میں پچاس فیصد سے تجاوز کرگئی ہے اور بہت سے لوگ مایوسی کی صورت میں اور نوکریاں نہ ملنے کے باعث آن لائن جوئے جیسے خطرناک راستے اختیار کررہے ہیں۔ کشمیر میں نوجوانوں کے محفوظ مستقبل کیلئے بہترین مواقع کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے راستے، جو اُن کے مالی حالت کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل میں بھی بربادی کا باعث بن سکیں۔ کشمیر میں زیادہ تر افراد سستی کا شکار ہیں اور کشمیر کے لوگ جسمانی سستی کے علاوہ دِلی طاقت کو بھی بیکار چھوڑ دیتے ہیں اور جب کسی انسان کا سستی سے بھائی بہن جیسا ساتھ ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے ہر طرح سے بےبس کر کے رکھا ہو، تو یہاں کا نوجوان ایسے راستے اور کام کا تعین کرتا ہے، جس میں پیسہ زیادہ اور محنت کچھ بھی نہیں۔ لیکن ہمارا نوجوان یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس آسان راستے میں جیتنے کے مواقع صرف صفر ہی ہیں اور کچھ نہیں، ایک سرکاری ملازمت کرنے والا شخص گھر میں بیٹھ کر اپنے ہی پیسے جوئے میں لگا کر مفت کے پیسے کمانا چاہتا ہے، اور جب وہی شخص اپنا سب کچھ اس جوئے میں ہار جاتا ہے تو نتیجتاً ذہنی طور پرمتاثر ہوجاتا ہے۔ذہنی صحت کے طور پر بیماریوں کا شکارافراد ،معاشرے میں بدنامی اور دوری اور خصوصاً بچوں کا مستقبل کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ گویا کہ جو بھی آدمی خصوصاً نوجوان اس آن لائن جوئے کی لپیٹ میں آجاتا ہے، اُس کو اِس جوے کی لَت سے باہر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ اب ہمارے سماج کا ایک بہت بڑا حصہ آن لائن جوئے کی لپیٹ میں آکر اس سے بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ اس سنجیدہ مسئلے کے حوالے سے ہم نے سماجی کارکن ڈاکٹر فدا نبی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ آن لائن جوئے اور سٹے بازی کے اس کھیل کو پورے بھارت میں قانونی طور پر اجازت مل رہی ہے، لیکن کشمیر میں بےروزگاری کے سبب اس کی بُری لت نے بہت سے افراد اور خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سماج کی بدنامی کی وجہ سے اب ایسے بھی خاندان ہیں جو اپنی مالی پریشانیوں کے بارے میں خاموش رہنے کو ہی بہتر سمجھتےہیں۔ عوام الناس سے مدد لینے کے بجائے تنہا ایک موبائل فون کے ذریعہ سے اپنی جدوجہد کو برداشت کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آن لائن جوا کھیلنے والے ایک خطرناک اور شدید قسم کا نفسیاتی نقصان اٹھاتے ہیں اور جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں میں پریشانی، ڈپریشن اور ناامیدی کا احساس ہوتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس صدمے کو برداشت نہیں کرپاتے اور پھر خودکشی کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو خاصکر نوجوانوں کو اس کے تباہ کن اثرات کو سمجھنا چاہیے۔ یہاں تک کہ ایک مالی طور پر مستحکم اور سرکاری عہدیدار فرد بھی اپنا سب کچھ کھو سکتا ہے۔ اب اگر وہ ان بیٹنگ گیمز کا عادی ہو جائے، تو پھر اس سے نکلنا اس کے لیے بہت ہی مشکل ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ بہت سے آن لائن گیمز جیسے ڈریم 11″ (Dream 11) مائی11 سرکل” (My 11Circle)” سیکسر” (Sixer)” وغیرہ پہلے تو منافع بخش انعامات پیش کرتے ہیں، جن میں آپ کو کم سے کم ایک ٹیم بنانے کے لیے پچاس روپے لگانے ہوتے ہیں اور لالچ میں آکر ہم اس کو چھوٹی رقم سمجھ کر لاکھوں روپے گنوا دیتے ہیںاور پھر جوئے کے لیے ایک راستہ پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان لڑکے انجانے میں سوشل میڈیا پر ان گیمز کا اشتہار دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، کہ بس کچھ دیر میں ہم کروڑ پتی ہونے والے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اکثر نتائج کو سمجھے بغیر ان گیمز کو کھیلنا شروع کردیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایسے کئی نوعمروں کا علاج کیا ہےجو ان گیمنگ ایپلیکیشن سے جوئے کی مکمل لت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اس کا اثر خوفناک اور تشویشناک ہے مجھے یقین ہے کہ اس بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے میں جموں و کشمیر انتظامیہ جلدی ہی کچھ اچھے اقدامات اٹھائے گی اور ساتھ ہی والدین کی آگاہی میں اضافہ ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر کے اوپر سے چلا جائے، بہتر ہے کہ اس جان لیوا جوئے کو روکنے کی بھرپور کوششیں کی جائیں۔ اگر ہم بنا بتائے اسی طرح چلتے رہے اور اپنے بچوں کو لاکھوں کے موبائل فون دیتے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے گھر ویرانی کی تصویریں بیان کریں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان راستوں پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے کو ختم کرنے کے لئے سماج کے ہر ایک ذی شعور فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خود بھی اور دوسروں کو بھی اس آن لائن جوئے کی لعنتوں سے دور رکھیں۔ جموں و کشمیر کی حکومت کو ان ایپلیکیشنز پر کشمیر میں پابندی عائد کر دینی چاہئیں تاکہ ہمارے نوجوان کو اس بھیانک نتائج سے گزرنا نہ پڑے۔ آپ کو پتا ہوگا کہ تلنگانہ، آسام، اڑیسہ، آندھرا پردیش، سکم اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں نے پہلے ہی ان جوئے کی ایپلیکیشنز پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ اس اقدام کے ذریعے ہی ہم اپنے نوجوان نسل اور معاشرے کو مزید تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ائمہ مساجد اور والدین کو بھی اس نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اسکے انسداد اور نوجوانوں کے محفوظ مستقبل کیلئے آگے آنا چاہیے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا پر گھنٹوں وقت ضائع کرنے کے عمل سے روکنے کی کوشش کریں۔
رابطہ۔ 9596571542