یہ خیال عام ہوتا جارہا ہے کہ اقتدار کی خاطر بی جے پی کانگریس کی راہ پر چل پڑی ہے۔ کانگریس نے اپنے دور میں کئی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو گرایا تھا اور اب بی جے پی نے کشمیر کی محبوبہ مفتی کے ساتھ مخلوط حکومت کو گراکر اس راہ کو اپنائی ہے تاہم یہ بات خالی ازذکر نہ ہوگی کے تقریباً تیس سال پہلے بی جے پی نے وی پی سنگھ کی حکومت کو بھی رام مندر کے مسئلہ پر گرایا تھا جب بھی بی جے پی مرکزی حکومت میں شریک تھی اور اب کشمیر میں بھی شریک اقتدار تھی۔ دوسری طرف محبوبہ مفتی کو اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے اور وہ مرزا غالب کی زبان میں سوچ رہی ہوں گی ع
غضب کیاتیرے وعدے پر اعتبار کیا
محبوبہ مفتی اور بھاجپا کی حکومت شروع سے ہی غیر فطری اور غیر منطقی تھیں چونکہ بی جے پی کا ایجنڈہ تو آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے ۔دوسری طرف محبوبہ مفتی نے سیاسی بصیرت کی کمی کی اور ہوس اقتدار کی وجہ سے اپنے تئیں یہ سوچا کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت قائم کرنے میں کشمیر ی عوام کی بھلائی ہے ۔ بی جے پی کے انچارج کشمیر اموررام مادھو نے محبوبہ مفتی سے طویل مذاکرات کئے اور انہیں صرف سبز باغ دکھائے ۔ محبوبہ مفتی چاہتی تھیں فوج کا کم سے کم استعمال ہو ،تنازعہ کشمیرکے مستقل حل کیلئے حریت کانفرنس کے قائدین اور پاکستان سے مذاکرات ہوں ،
مرکزی حکومت کی طرف سے ریاستی حکومت کی طرف سے خصوصی اور کثیر رقومات پر مشتمل امدا دی پیکج منظور ہو لیکن تین سال گذرنے کے باوجود حسب روایت اس ضمن میں کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔
کشمیر میں انتخابات کے بعد پی ڈی پی ۔ بی جے پی پر مشتمل مخلوط حکومت معرض ِ وجود میں آئی لیکن اس کے بعد بی جے پی یک بعد دیگرے اپنے وعدے وعید بھولتی گئی۔ مذاکرات کی جگہ کشمیری عوام کو پلیٹ گنوں سے زخمی یا ہلاک کیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ بھاجپا کے ریاستی وزراء نے اپنی گاڑیوں پر روایت کے مطابق ریاستی پرچم بھی نہیں لگایا۔ بی جے پی مذاکراتی عمل سے بھی سے دور رہی۔وزیر اعظم مودی جو بیشتر ریاستوں کی سرکاری تقاریب میں شریک ہوتے ہیں لیکن انہوں نے مفتی سعید مرحوم کی علالت کے دوران دلی میں اُن کی عیادت کی نہ ان کے آخری رسوم میں شریک ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا ان جھٹکوں کے بعد پی ڈی پی از خود حکومت سے الگ ہوجاتی لیکن محبوبہ مفتی نے نہ صرف خوش فہمیوں میں رہی بلکہ اقتدار کی خاطر ہر روانا روا برداشت کیا۔ آخر کار بھاجپا نے ان کی حکومت کی حمایت واپس لی۔
وہ لوگ جو بی جے پی سے سیاسی اتحاد چاہتے ہیں، انہیں نہ صرف پی ڈی پی بلکہ شیوسینا اور تلگودیشم سے بھی سبق لینا چاہئے ۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ بھی این ڈی اے میں شریک ہوکر بی جے پی کے حلیف بن سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ نہ صرف مجلس اتحادالمسلمین (جو حکومت میں شریک تو نہیں لیکن حکومت حلیف ضرور ہیں) بلکہ ریاست کے بیشتر مسلمانوں کی تائید سے محروم ہوجائیں گے اور یہ بھی یاد رہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کی مخالفت دوسری ریاستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں مودی لہر کا تلنگانہ پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا لیکن اب یہاں بی جے پی نے اپنا حلقہ کسی حدتک بڑھا لیا ہے۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]