سمت بھارگو
راجوری//بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی (بی جی ایس بی یو) کے اساتذہ کی ہڑتال اور احتجاج بدھ کے روز چوتھے دن میں داخل ہو گیا۔یہ احتجاج گزشتہ جمعہ سے جاری ہے اور اس کا مقصد مینجمنٹ اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پرویز عبداللہ کی معطلی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔احتجاج کرنے والے اساتذہ نے ڈاکٹر پرویز عبداللہ کی معطلی کے حکم کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ ایک منظم سازش ہے تاکہ ملازمین کو ان کے بنیادی حقوق اور پیشہ ورانہ ترقی کے مطالبات سے باز رکھا جائے۔سبرنگ اسکوائر میں اساتذہ گزشتہ چار دنوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔اساتذہ کی ہڑتال کے باعث یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، اور پیر سے کئی کلاسز جزوی طور پر معطل ہیں۔بی جی ایس بی یو ٹیچرز ایسوسی ایشن نے یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ملازمین کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور مطالبہ کیا کہ ترقیاتی پالیسی کو شفاف بنایا جائے۔اساتذہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر معطلی کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو احتجاج مزید سخت کر دیا جائے گا۔سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر بی جی ایس بی یو کی صورتحال پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی مشکل دور سے گزر رہی ہے اور اسے منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔یہ بیان محبوبہ مفتی نے اساتذہ کی ہڑتال کے حوالے سے پہلے دیے گئے اپنے ردعمل کے ایک دن بعد جاری کیا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ مرحوم مفتی محمد سعید نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کا خواب اس لیے دیکھا تھا تاکہ راجوری اور پونچھ کے قبائلی عوام کو معیاری تعلیم ان کی دہلیز پر فراہم کی جا سکے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اسے تباہ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس کا کنٹرول تعلیمی ماہرین سے لے کر ضلع انتظامیہ کو دے دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ وہی یونیورسٹی ہے جو ایک خواب کے طور پر مرحوم مفتی صاحب نے دیکھی تھی اور جسے مسعود چوہدری صاحب نے عملی جامہ پہنایا۔ آج یہ ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے‘‘۔محبوبہ مفتی نے امید ظاہر کی کہ حکومت اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر اس معاملے کا نوٹس لیں گے اور اس باوقار تعلیمی ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے فوری مداخلت کریں گے۔