21جولائی 1997ء کی اُس شام موسم سہاونا تھا ۔ریاست بھر کے مسلمان عید میلاد النبیؐ کا مقدس تہوار منا رہے تھے حسب عادت اس دن بھی میرے گائوں کے نوجوان اور بزرگ گائوں کی مرکزی جامع مسجد اور میرے بہنوئی کی دکان کے درمیان والی جگہ میں لگے ہوئے بنچوں پر براجمان ہو کر مختلف معاملات پر محو گفتگو تھے تاہم بات چیت کا معمور عید میلاد النبی ؐ کے حوالے سے عشاء کی نماز کے بعد جامع مسجد میں منعقد ہونے والی تقریب کے متعلق انتظامات کے ارد گرد مرکوز تھا ۔ اچانک گولیاں سننے کی آواز آئی اور سارے لوگ افرا تفری کے عالم میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا ہے ۔ گولیوں کی گن گرج نے رات کی تاریکی کو اور بھی زیادہ ڈرائونا بنا دیا ۔ کچھ منٹوں کے بعد فائرنگ کی آوازیں رُک گئیں اور ہمیں لگا کہ شائد مصیبت ٹل گئی ہے لیکن یہ خاموشی عارضی تھی اور طوفان سے پہلے ولی خاموشی کے مترادف تھی ۔اچانک پورے گائوں میں چاروں طرف سے ہولناک شور اٹھا۔ آہ و بقا کی خوفناک چیخیں لہروں کی طرح کانوں کے پردوں کو چیر کر ہمارے ہوش و حواس اڑا رہی تھیں ۔ سارے گائوں میں چاروں طرف سے فوج داخل ہو گئی تھی اور ہر گھر میں قیامت بپا تھی ۔ گائوں کے مرد و زن اور بچوں بوڑھوں کی غالب تعداد اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہمارے صحن میں عالم بے بسی کی حالت میں امڈ پڑی ۔ حسب سابقہ لوگوں کو یہ امید تھی کہ انجینئر رشید انہیں کسی حد تک فوجیوں کی جارحیت کے خلاف ممکنہ مزاحمت کی کوئی سبیل بتائیں گے لیکن اب کی بار سب کچھ الٹا ہی ہو رہا تھا ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے ۔اچانک ہمارے دکان کے باہری دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹایا گیا اور پھر دروازہ توڑ کر درجنوں فوجی مکان میں خونخوار بھیڑیوں کی طرح چلاتے ہوئے داخل ہوئے۔ دروازہ کیا کھلا کہ ہم سب پر وردی پوش اہلکار وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔وہ لمحات میں شائد ہی کبھی بھول پائوں گا کہ جب میری اہلیہ اور والدہ کو فوجی جوانوں نے گھسیٹ کر مکان سے باہر لا کر صحن میں جمع بھیڑ کے بیچ ڈال دیا ۔ باقی اہل خانہ کا حال مجھ سے بھی بد تر تھا۔ مجھے گلے سے پکڑ کر جیسے ہی باہر لایا گیا تو میری پھرن میرے سر کے اوپر ڈھانپ کر مجھے گھر سے باہر نکالا گیا۔ وہ سینکڑوں لوگ جو ہمارے گھر کے صحن میں اس امید سے جمع ہوئے تھے کہ شائد میں اُن کی کچھ مدد کر پائوں آج میری اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ سارے لوگ دم بخود ہو کر رہ گئے اور میں انہیں کوئی سہارا نہین دے سکا ۔ اپنے گھر سے کوئی 200میٹر دور گائوں کے عید گاہ کے متصل جب فوجیوں نے میرا پھرن اتارکر مجھے نیچے بیٹھنے کا حکم دیا تو میرے چاروں طرف لگ بھگ دو سو جوان اور بزرگ بے بسی کے عالم میں فوج کے افسرو ں کی گالیاں سن رہے تھے ۔ چند ایک نوجوانوں کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی ہو رہی تھی ۔ تب تک رات کا ایک بج چکا تھا ۔ رُک رُک کر جنگل کی طرف سے گولیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ منظور احمد بٹ عرف کوبرا پورے کپوارہ بلکہ شمالی کشمیر کا بدنام ترین اخوانی کمانڈر تھا۔ اس کا نام سن کر بڑھے بڑھوں کی بولتی بند ہو تی تھی اور آج تو اس سے لوگوں کو ذلیل کرنے اور انہیں ٹارچر کرنے کا بہترین موقع ملا تھا۔ خوفناک اور گرجدار آواز میں اس نے مجموعہ کے بیچ میں مجھے اور تین جوانوں جن میں غلام محمد وانی اور محمد سلطا ن وانی نامی دو فاریسٹ گارڈ اور محمد جمال ڈار نامی نانوائی شامل تھے کو اٹھنے کا حکم دیا ۔ ہمارے پاس حکم کی تعمیل کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ہمارے کھڑا ہونے کی دیر تھی کہ ہر میں سے ہر ایک کو الگ الگ فوج کی مخصوص ٹولیوں کے حوالے کیا گیا۔ ہمارے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دئے گئے اور ہم ایک ایک قدم بڑھتے گئے ۔ہمیں اپنی موت نزیک نظر آرہی تھی ۔ہمیں گولیوں کی گرج کے بیچوں بیچ در اصل اس جگہ انسانی ڈھال بنا کر آگے لیجایا جا رہا تھا جہاں فوج ے دو عسکریت پسندوں کو گھنے جنگل میں گھیر لیا تھا ۔ میوہ باغات اور دھان کے کھیتوں کے بیچ جنگل کے دامن کے ساتھ ساتھ چل کر کوئی ڈیڑھ کلو میٹر مسافت کے بعد ہمیں دھان کے ایک کھیت میں پکڈنڈی کے نیچے لیٹنے کا حکم ملا ۔ ہم چاروں کے کاندھوں پر بھاری بندوقیں تھی اور پیچھے سے فوجی جوان بندوقوں کو پکڑے ہوئے تھے ۔ ہمارے سامنے سڑک تھی اور سڑک کے اُس پار دہشت کرنے والا خونخوار جنگل تھا۔ ہمارے کاندھوں پر رکھی بھاری بندوقوں سے گولیوں کی بارش ہو رہی تھی اور ان گولیوں کا ہدف جنگل کے اُس طرف چھپے ہوئے عسکریت پسند تھے جن کی تعداد دو تھی ۔ دونوں عسکریت پسند پوری طرح سے گھیرے میں آ چکے تھے لیکن درختوں کی آڑ میں سینکڑو ں فوجیوں کیلئے ان کو مار گرانا بہت زیادہ مشکل کام تھا۔ کوئی چار گھنٹوں کی مسلسل گولہ باری کے بعد جب صبح طلوع ہوئی تو فوجیوں اور عسکریت پسندوں کو ایک دوسرے کی نشاندہی کرنے میں زیادہ مشقت نہ کرنی پڑی ۔ بس پھر کیا تھا گھمسان کا رن پڑا ۔ سینکڑوں گولیاں ہمارے سروں کے اوپر برق رفتاری سے بھاگ رہی تھیں اور فوجی ہمیں انسانی ڈھال بنا کر یہاں سے آگ کی بارش برسا رہے تھے۔ ہمیں ہر لمحہ بس یہی یقین تھا کہ کوئی گولی کسی بھی وقت ہمارے سینوں کو چیر کرہمیں موت کی آغوش میں لے جائے گی ۔ ہمارے پاس بھاگنا تو دور کی بات چلانے یا کھانسنے کی نہ ہمت تھی اور نہ اجازت ۔ معجزے ویسے بھی کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دے کر کسی بہت بڑے معجزے کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔ چانچہ ہم کھیت کے نشیبی والے حصہ میں پکڈنڈی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور جنگجو جنگل کی طرف کہیں چھپ کر گولیاں برسا رہے تھے لہذا جہاں گولیاں ہمارے سروں سے چند ہی فٹ اوپر گزر رہی تھیں وہاں فوجی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے بچنے کیلئے اپنی گردنیں پکڈنڈی سے نیچے کرتے تھے اور لازماً ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے ہمیں کچھ اطمینان سا تھا کہ شائد گولیاں ہم کو تب تک نہیں لگیں گی جب تک نہ مخالف سمت سے عسکریت پسند براہ راست ہمیں نشانہ نہ بنائیں ۔ اچانک جنگل کی طرف سے گرجدار آواز آئی اور ایک جنگجو زوردار آواز میں ہمیں تسلی دے رہا تھا کہ آپ نہ گھبرائیں ۔ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا جا رہا ہے ۔ آپ مطمعین رہیں ہم آپ پر کبھی گولی نہیں چلائیں گے۔ ہمیں لگا کہ واقعی وہ عسکریت پسند نہیں بلکہ کوئی فرشتے ہیںاور اُن کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ بذات خود معجزہ تھا ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا کہ جن لوگوں کو ریاست دہشتگرد اور قانون کو توڑنے والے کہتے تھکتی نہیں ہے ہمیں اُن سے نہیں بلکہ اُن وردی پوش محافظوں سے صاف خطرہ نظر آ رہا تھا جنہوں نے ہمیں شام کے اندھیروں میں اپنے گھرو ں سے نکال کر ہمارے ساتھ وہ کچھ کیا جس سے بیان کرنا بھی انگ انگ کے اندر خوف پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے لئے دہشت گرد اور دہشتگردی کے معنیٰ ہی تبدیل ہو رہے تھے ۔ اگر چہ ہم براہ راست نرغے میں پھنسے دونوں عسکریت پسندوں کو دیکھ نہیں پا رہے تھے لیکن ہمیں صاف لگ رہا تھا کہ وہ ہم سے مشکل سے چارسو فٹ کی دوری پر دیودار اور دیگر درختوں کی آڑ میں گولیاں برسا رہے ہیں ۔ معرکہ پورے 27گھنٹے جاری رہا اور ایک زوردار دھماکے کے ساتھ فوج نے جشن منانا شروع کیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ دونوں عسکریت پسند اپنی منزل پا چکے ہیں ۔ ہمارا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ گائوں کے اور لوگو ں کو جائے وقوعہ کے پاس لایا گیا اور دونوں عسکریت پسندوں کی لعشیں ہندوارہ کے تھانے روانہ کی گئیں ۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم زندہ ہیں ۔ پورے گائوں کے لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ ہم چاروں کو یا تو فرضی تصادم میں ہلاک کر دیا گیا ہے یا پھر کراس فائرنگ میں ہمارا کام تمام ہوا ہے۔ ایسے جذباتی مناظر شائد ہی میری زندگی میں کبھی آئے ہونگے جب پورے علاقہ کے اپنے اور پرائے ، بچے اور بوڑھے عورتیں اور جوان اور ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ ہم چاروں کو ایک نئی زندگی ملنے پر جذباتی انداز میں مبارکباد ے رہے تھے۔ زنددگی رفتہ رفتہ معمول پر آگئی اور یوں ہماری بے بسی کی ایک اور خونین داستان یا دوں کے سمندر میں محفوظ ہو کے رہ گئی ۔