حکومت کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے اور عوام و سرکار کے درمیان موجود خلیج پاٹنے کی غرض سے بیک ٹو ولیج مہم کاچوتھا مرحلہ کل3نومبر کو اختتام پذیر ہوگیا۔25ہزار سرکاری ملازمین اور5ہزار گزیٹیڈ آفیسران کی جانب سے ایک ہفتہ تک چلائی جانے والی اس وقاری مہم کے دوران جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کی ہر پنچایت تک ویزیٹنگ افسران پہنچے اور عوام و پنچایتی نمائندوں سے نہ صرف فیڈ بیک حاصل کیا بلکہ ان کے مسائل جانے اور پنچایتی سطح پر ترقیاتی عمل کا برسر موقعہ جائزہ بھی لیاگیا۔اس کے علاوہ پہلی دفعہ بال سبھائوں کا بھی اہتمام کیاگیا اور بیشتر بال سبھائیں سکولوں میں ہوئیں جہاں سکولی بچوںنے اپنی صلاحیتوںکا مظاہرہ کرنے کے علاوہ ویزیٹنگ آفیسران کو اپنے اور اپنے سکولوں کے مسائل سے بھی آگاہ کیا۔27اکتوبر سے3نومبر تک چلنے والے اس پروگرام کے دوران نوجوانوںکی صلاحیت سازی اور خود روزگاری پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ نشہ مکت ،روزگار یُکت جموںوکشمیر کو یقینی بنانے پر بھی کام ہوا بلکہ شفاف اور جوابدہ حکمرانی کیلئے آن لائن خدمات لوگوں کے گھروں تک پہنچائی گئیں اور انہیں اس دوران ان خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی تربیت بھی فراہم کی گئی ۔علاوہ ازیں لوگوںکو گھروں کی دہلیز پر ہی لینڈ پاس بک ،صحت کارڈ اور دیگر اسناد فراہم کی گئیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مہم کے دوران کئی جگہوں پر عوام نے پہلے تین مرحلوں میں اجاگر کئے گئے مسائل حل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیاتاہم یہ بھی سچ ہے کہ 2018میں شروع کئے گئے بیک ٹو ولیج پروگرام کے چار مرحلوںکے دوران گائوں دیہات کی سطح پر لوگوں کے ہزاروں کام ہوگئے اور پہلی بار لوگوںکو یہ تاثر ملا کہ حکمرانی ان کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جموںوکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار عوام کو سرکار سے نہیں بلکہ سرکار کو عوام سے رجوع کرنا پڑا اور سینئر ترین بیروکریٹس سے لیکر 5ہزار گزیٹیڈ افسران پنچایتوں میں تین دن تک عوام کے بیچ ہی قیام پذیر رہے جس سے عوام کو پہلی دفعہ لگا کہ وہ سسٹم سے الگ نہیں ہیںبلکہ سسٹم کا حصہ ہے اور سسٹم کوئی آسمانی مخلوق نہیںبلکہ ا ن کے خدمت گزار ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں پنچایتی راج اداروں کے قیام سے قبل گائوں تک کے ترقیاتی منصوبے یا تو ضلع ترقیاتی کونسلوںکی میٹنگوںمیں بنتے تھے یا پھر انہیں سیکریٹریٹ میں بیٹھے بابو فائنل کرتے تھے اور اس عمل میں مقامی ضروریات کا نہ ہی خیال رکھاجاتا تھا اورنہ ہی مقامی جغرافیہ اور زمینی صورتحال کو خاطر میں لایاجاتا تھا لیکن اب وہ سلسلہ نہیں رہا۔آج گائوںکے منصوبے گائوںمیں ہی بنتے ہیں۔اعلیٰ ترین سرکاری افسران لوگوںکے بیچ جاکر ان کے گلے شکوے سنتے ہیں اور ان کی ضروریات کے مطابق ہی گائوںکے منصوبے ترتیب دئے جاتے ہیں۔
گزشتہ تین پروگراموں کے دوران عام شکایت یہ رہی کہ ہر پروگرام میں ویزیٹنگ آفیسران بدلتے اور یوں عوام کی داد رسی نہیں ہوئی ۔اسی لئے اس بار سرکار نے اُس کا بھی توڑ نکالا اور اس بار جن گزیٹیڈ افسران کو پروگرام کے دوران پنچایتوں میں بھیجا گیا،اُنہیں پنچایت پربھاری یا نگراں پنچایت کے طور نامزد کیاگیاجو سال بھر کیلئے متعلقہ پنچایت کی عوام اور سرکار کے درمیان رابطہ کار ہوگا اور یہ اُسی آفیسر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ عوامی شکایات اور خدشات کاازالہ کرے ۔یعنی بہ الفاظ دیگر جو مسائل اس پروگرام کے دورا ن گرام سبھائوں میں اجاگر کئے گئے ،اُنہیں متعلقہ محکموں سے حل کروانا اُسی آفیسر کی ذمہ داری ہوگی اور بیک ٹو ولیج کے پانچویں مرحلہ پر مذکورہ آفیسر کو اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جواب بھی دیناپڑے گا۔
بیک ٹو ولیج کے چاروں مرحلوںمیں موجود خامیوںسے مفر نہیں ، تاہم اتنا وثوق کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ بیک ٹو ولیج مہم نے جموںوکشمیر میں حکمرانی کا تصور ہی تبدیل کردیا۔ایک زمانہ ایسا تھا جب سیکریٹریٹ کے بند کمروں سے لیکر ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں گائوں دیہات کے ترقیاتی منصوبے بنتے تھے اورلوگ اس عمل سے بالکل بے خبر رہتے تھے ۔یہاں تک کہ سرکاری عہدیدار گائوں دیہات کا دورہ کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے تھے تاہم اب یہ دور ہے کہ اب ضلعی یا بلاک سطح پر نہیں بلکہ پنچایت اور دیہات کی سطح پر عوام کی مکمل شراکت کے ساتھ ان کی ضروریات کے مطابق دیہی منصوبے بنائے جارہے ہیں اور سرکار کو اوپر سے نیچے تک ان کے گھروں تک پہنچایا گیا ہے اور اب جس طرح پہلے تین مرحلوں میں رہ گئی خامیوںکو دور کرکے عوام کو زیادہ سے زیادہ ثمرات منتقل کرنے کی سعی ہورہی ہے ،وہ واقعی لائق تحسین ہے۔
یہاں عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیک ٹو ولیج پروگراموںکے دوران اٹھائے گئے مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہیں اور سب کچھ منتخب پنچایتی نمائندوں یا سرکاری کارندوںپر ہی نہ چھوڑیں بلکہ سرکاری مشینری کے ساتھ رابطہ میں رہنے کی کوشش کریں۔اب چونکہ ویزیٹنگ آفیسر کو نگراں پنچایت نامزد کیاگیا اور اُنہیں ذمہ داری لگا ئی گئی ہے کہ وہ سال بھر اس پنچایت کی عوام کے ساتھ رابطے میں رہے تو عوام سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی پنچایت کے نگراں آفیسر کو بھاگنے کا موقعہ فراہم نہ کریں بلکہ اُن کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہ کر اُنہیں اپنے مسائل اور سرکار کی جانب ان کے ازالہ کیلئے کئے گئے وعدے یاد دلاتے رہیں ۔اس سے ایک تو سرکاری مشینری کو بھی لگے گا کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور وہ ان کے مالک نہیںبلکہ خدمتگار ہیںاور دوسراان کے کام بھی ہونگے ۔عوام جتنا زیادہ سرکاری مشینری کو جوابدہ بنانے کے عمل میں شامل ہوجائے گی ،اُتنا ہی یہ پروگرام کامیاب رہے گا اور جتنا عوام سرکاری مشینری سے دوری بنائے رکھی گے،اُتنا ہی ان کیلئے نقصان دہ ہوگا ۔