مشتاق الاسلام
پانپور// مرکزی سرکار نے سال 2010 میں دنیا بھر میں مشہور زعفران کی کاشت کو بحال کرنے کیلئے قومی زعفران مشن شروع کیا تھا۔مشن کو کامیاب بنانے کے حوالے سے کاشت کاروں کو فی کنال کے حساب سے30 ہزار روپئے فراہم کئے گئے جبکہ مشن کے تحت زعفران کے کھیتوں میں آبپاشی کو یقینی بنانے کیلئے 58 کروڑ روپے کا ناکام منصوبہ بھی داؤ پر لگا دیا گیا۔نیشنل زعفران مشن کو ختم ہوئے 4 سال بعد کسانوں میں زبردست مایوسی پائی جارہی ہے کیونکہ زعفران کا بیچ فی کوئنٹل 12 ہزار سے بڑھ کر 40 ہزارروپے پار کرگیا ہے۔ضلع پلوامہ کے پانپورتحصیل میں موجود زعفران کی آراضی پر اس وقت کھدائی کا کام جاری ہے۔مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں قریباً 90 فیصد زعفرانی اراضی پر بیج مکمل طور ختم ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سال 2018 میں نیشنل زعفران مشن کے دوران محکمہ زراعت نے ایک پائدار حکمت عملی کے تحت آبپاشی کے نظام کو کامیاب بنایا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ زعفران کی صنعت کافی آگے بڑھ چکی ہوتی۔کاشت کاروں کا کہنا تھا کہ زعفران کے زوال پذیر ہونے کا اندازہ اس لحاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی وسائل رکھنے والے افراد اب زعفران کی اراضی کو سیب کے باغات میں تبدیل کررہے ہیںاور جن کے پاس وسائل نہیں وہ اس اراضی پر ستمبر کے وسط میں سرسوں اور مٹر کا بیچ بو کر اپنی اقتصادی بدحالی کو کم کرنے کی کوشش میں منہمک ہوگئے ہیں۔ارشاد احمد ڈار نامی ایک کاشت کار نے بتایا کہ زعفران اراضی میں چوہے لگنے سے ان کی زمین میں زعفران کا بیچ مکمل طور ختم ہوچکا ہے اور نیا بیچ لگانے کیلئے ان کے پاس اتنے وسائل نہیں،کیونکہ زعفران کے بیچ کی قیمت 12 ہزار سے بڑھ کر 40 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ جنوبی کشمیر میں کئی ہزار ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے کھیتوں میںاگانے والے زعفران کے کسانوں نے برسوں سے شکایت کی ہے کہ اہم اوقات میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس صورت میں محکمہ زراعت نے آبپاشی کیلئے 58 کروڑ روپے خرچ تو کئے لیکن عملی طور پر آبپاشی سکیم مکمل طور ناکام ہونے سے کسانوں کے حوصلے ختم ہوچکے ہیں۔کسانوں کے مطابق زعفران کی پیداوار میں ستمبر اور اکتوبر میں ایک یا دو مرتبہ بارشیں فصل کے پھولنے کیلئے انتہائی ضروری ہیں،لیکن پچھلے 15 سالوں سے ان مہینوں میں بارش نہیں ہوئی۔کشمیر میں سیب کی صنعت کے بعد زعفران کی صنعت سب سے زیادہ اہم مانی جاتی ہے جو تقریباً 20,000 خاندانوں کی کفالت کرتی ہے اور ملک کی معیشت میں سالانہ 34 ملین ڈالر کا حصہ ڈالتی ہے۔قصبہ پانپور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر قانون نے لینڈ مافیا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ زعفران اراضی کو کالینوں میں تبدیل کیا گیاجبکہ علاقہ ایک بڑا مافیا سرگرم ہے جو دن دھاڑے اس اراضی سے مٹی اٹھا کر اراضی کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کررہا ہے۔دریں اثناء دنیا بھر میں مشہور کشمیری زعفران نے جموں و کشمیر کو زعفران پیدا کرنے والے دوسرے بڑے ملک کا درجہ حاصل کر لیا ہے جب کہ ایران دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً 70% حصہ بناتا ہے، کشمیری زعفران کا معیار بہترین اور بہترین سمجھا جاتا ہے۔زعفران، جسے اکثر ’’سرخ سونا‘‘ کہا جاتا ہے،دنیا کے سب سے قیمتی مصالحوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت اس کی کاشت محض 4000 ہیکٹر پر محیط ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران، زعفران کی کاشت کا رقبہ 5,000 ہیکٹر سے کم ہو کر 4,000 رہ گیا ہے، جس کا تقریباً 90 فیصد حصہ پلوامہ ضلع کے پانپور علاقے سے ہوا ہے۔محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اگرچہ پیداوار کو بڑھانا ایک ترجیح بنی ہوئی ہے، لیکن ہماری توجہ برآمدی حکمت عملی پر یکساں طور پر مرکوز ہے۔ کشمیری زعفران کے قابل ذکر خریداروں میں دبئی، امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں۔اس ورثے کی فصل کی حفاظت کرنا اور موزوں ترین موسمی حالات میں کاشت کی جگہ کو بہتر بنانا ہمارا مقصد ہے۔