کہانی مختصر یہ ہے کہ ایک خاص منصوبے کے تحت صد احترام ’خالق کائنات‘ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تھا۔ پھر جناب آدم کے انش سے جناب بی بی حوا کی تخلیق فرمائی۔پھر ان دونوں یعنی حوا اور آدم کو ایک دوسرے کی اہم ترین ضرورت بناکراس غیر آباد دنیا کے سپرد دیا۔دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی اپنے رب کی منشا کے مطابق ایک ساتھ رہنے لگے۔دنیا آباد ہوگئی اوراس طرح سے ان دونوں بزرگ وار کی بطور میاں بیوی باہم رفاقت سے دنیا کے مختلف حصوں میں ان کی نسلیں 'نسل انسانی' کے طور پر پھلنے پھولنے لگیں۔
لیکن جناب کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان دونوں میاں و بیوی کے وجود سے پروان چڑھنے والی نسلیں یعنی 'ہم' اور 'آپ' ''مرد'' اور''عورت'' میں تقسیم ہوکرگئے۔ بظاہرجسمانی تفریق جو درحقیقت دونوں (مرد اور عورت) کے درمیان قدرت کی جانب سے کی گئی تنوع تھی، دیکھتے دیکھتے تضحیک اور تقصیربن گئی۔ابو الانسان جناب آدم و حوا کے باہم اختلاط سے پیدا ہونے والا مرد قوی ترگیا اورعورت کمزور و کمترہوتی چلی گئی۔یہاں تک کہ مرد قوت و استحکام اور عزم و استقلال کی علامت بن گیا اورعورت بزدلی و کم ہمتی کی مثال ٹھہر گئی۔یہاں تک کہ عورت از خود جب بلند ہمتی اور بہادری کی بات کرتی تو لفظ’’مردانی‘‘ کا سہارا لینے لگی۔
اچھا جی بات جسمانی کمزوری تک ہی رہتی تو بھی کہیں کچھ صبرآجاتا،گھڑی دو گھڑی کو چین آجاتا، لیکن میاں کون دم مارتا ہے،بات عقل و خرد تک جا پہنچی۔ کھلے بندوں کہا جانے لگا کہ ''بھئی عورت توفطری طور پرکم عقل واقع ہوئی ہے۔ بھلا انہیں عقل و خرد سے کیا واسطہ۔یہ مردوں کے مقابلے میں کم ترہے۔اس کی اصل دنیا تو گھر کی چہار دیواری ہے۔ اسے تو بس بچوں کو پیدا کرنے اور ان کو کھلانے پلانے کے لیے بنایا گیا ہے، اور بس۔یہ جب تلک گھر کے اندر تھی سب ٹھیک ٹھاک تھا،لیکن جوں ہی اس نے مغربی قوتوں کے بہکاوے میں آکر مردوں کی برابری کرنے کے لیے چہار دیواری سے باہر قدم نکالا ہے،دنیا میں فساد اورخون خرابے کا بازار گرم ہو گیا ہے۔اجی دنیا میں پھیلی ہوئی بے شمار برائیوں ،واہی تباہی کی یہی تو ایک وجہ ہے۔ہابیل اور قابیل دونوں برادروں کے درمیان جو جھگڑا ہوا یا دنیا میں جو پہلا قتل ہوا اس کے پیچھے یہی تو تھی۔حال ہی میں ایک کتاب پڑھا ،جس میں لکھا تھا :’’سانپ اور عورت زمین کے اندر ہی ٹھیک ہیں ‘‘۔
ابھی یہی کوئی دو یا تین روز پہلے کی بات ہے۔کسی موقع پر ہمارے کانوں نے ہمارے چاچو جان کو یہ کہتے ہوئے سنا’’یہ جب سے عورتوں کو کاونٹر پر بٹھا دیا گیا ہے تب سے ہر جگہ لمبی لمبی بھیڑیں لگنے لگی ہیں۔ان کے ہاتھوں میں مردوں کی طرح تیزرفتاری بالکل نہیں ہے‘‘۔محترم ساعت بھر کو رکے پھر گویا ہوئے، ’’ بھلا مردوں کی طرح برق رفتاری کے ساتھ یہ لوگ کہاں کام کرسکتی ہیں‘‘۔
اچھا جی بات آہی گئی ہے تو رکھتا چلوں کہ میرے رابطے میں جس قدر خواتین آئی ہیں، وہ کہہ لیں کہ عیاری (عیاری کو مثبت معنوں میں لیں) کی حد تک سمجھ دار اورتیزگام واقع ہوئی ہیں۔مردوں اساس دنیا میں انہوں نے اپنے آپ کوبحسن و خوبی منوایا ہے۔ میں اگران عورتوں کی بات کروں جو میری اہل خانہ میں آتی ہیں تو وہ بھی خدا کے فضل سے انتہائی سمجھ دار اوردوررس واقع ہوئی ہیں۔مجھے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے بالکل عجیب سا محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بیشترمعاملات میں میری ہمشیرہ محترمہ یا میری بھابی محترمائیں میری بہترسے بہتر رہنمائی کرتی ہیں۔ بے شمارمواقع پربطوررزلٹ ان کے مشورے میری فہم و فراست کے سامنے عقل و خرد سے زیادہ قریب واقع ہوئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ بے شمار مواقع پرناگہانی صورت حال میں بہتر سے بہتر فیصلہ لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
اچھا جی ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ یہ خواتین چوں کہ مجھ سے خونی رشتہ رکھتی ہیں،اس لیے میں ان کے بارے میں ایسا کہہ رہا ہوں۔ارے بھئی ایسا نہیں ہے۔ایسا خیال بھی آئے تو نکال دیں۔اس ضمن میں خدارا اپنا قبلہ درست فرمائیں۔واقعہ یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں،میں نے عرتوں کو طاق پایا ہے،خواہ وہ ہمارے گھر کی خواتین ہوں یا آپ کے گھر کی ہوں۔
ایسے میں میرا ذاتی خیال (جو آپ کی دعا سے تجربات و مشاہدات پرمبنی ہے) یہ ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح سمجھدار ہوتی ہیں۔ان کے پاس بھی بصیرت ہوتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے بھی مختلف معاملات میں دید شنید کی جائے،نیز ان کی بصیرت کا استعمال کیا جائے۔ بھئی امور خانہ داری کے علاوہ معاملات زندگی میں بھی ان کی شمولیت کو ہرصورت ممکن بنایا جائے۔ نون مرچ یا لہسن پیاز سے الگ بھی دنیا ہے۔ایسی صورت اختیار کی جائے،ایسے مواقع پیدا کیے جائیں جس سے انہیں بھی سیکھنے سمجھنے اور خود کو آزمانے کا موقع میسر آئے۔یکساں مواقع فراہم کیے جائیں پھر لیاقت اورصلاحیت کی بنیاد پرمواقع فراہم کیے جائیں۔اس طرح سے خواتین کی بھی شمولیت ممکن ہوگی اور انہیں بھی اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملے گا،نیز ان کی بھی صلاحیتوں سے دنیا کو فوائد میسر آئیں گے۔اجی ریڈیم کی موجدہ ماں اور بیٹیوں کی سائنسی خدمات سے کون نفس بے خبر ہے بھلا۔۔اپنی کلپنا چاولہ کو کون بھول سکتا ہے بھئی۔
اچھا جی کون عقل مند ہے، کون کم عقل ہے یا کون کمزور و کم تر ہے یہ تو جانچ پڑتال کا موضوع ہے۔ امتحان لینے کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے۔اسی وقت کسی کو جج کیا جا سکتا ہے جب اس کو مختلف معاملات میں جانچ پرکھ لیا جائے کہ یہی درست مارگ ہے۔اب کسی کو جانچے پرکھے بنا اس کے حق میں فیصلہ کردینا بھلا کس دیس کا قرینہ ہے۔
ہمیشہ ذہن میں رکھنے رکھنے والی بات یہ ہے کہ حکیم الحکماتثلیث فلاسفہ جناب سقراط،ارسطو افلاطون (جنہیں ایک عورت کی ہی کوکھ نے جنم دیا ہے) اگر ان سے بھی رائے مشورہ کرنا ترک کردیا جائے تو بلا تکلف حکما موصوف بھی کم عقلوں کی صف میں جا کھڑے ہوں گے۔یہ بھی نقطہ یاد رکھیں کہ عقل استعمال کرنے یا ٹھوکر کھانے سے بڑھتی ہے،بادام کھانے یا طبیہ کالجز کی دماغین کھانے سے نہیں۔انسان جس قدرتجربات و مشاہدات کی بھٹی میں جلے گا، جس قدر حادثات سے دوچار ہوگا،وہ اسی قدر عقل و خرد کی باتیں کریگا۔
اب میں مضمون کی آخری سطروں میں عنوان سے پھوٹتی ہوئی کام کی دو ایک باتیں مزید عرض کردوں۔ اول تو یہ کہ اپنے بچوں کے درمیان 'لڑکے اور لڑکی' کی تفریق ہرگز نہ کریں۔بچوں کو خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا تعلیم و تربیت کے حوالے سے یکساں مواقع فراہم کرنے کی کوشس کریں۔دونوں کو خومختاری اور خود کفالت کا سب سکھائیں،نیز گھر کے اندر بچوں کے درمیان برابری اور مساوات کا ماحول قائم کریں۔بچوں کا اولین مدرسہ،کالج،یونیورسٹی یاتربیت گاہ گھر ہی ہوتا ہے۔
جملہ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک زرا سی بات میں اپنے بڑے بزرگوں کی شان جلیلہ میں بھی عرض کروں گا۔قبلہ بزرگ وار،بیٹوں کو 'گھر کا چراغ' سمجھنا اور بیٹیوں کو 'پرایا دھن' سمجھنا خدا واسطے ترک کردیں۔محترم المقام،بیٹے اور بیٹیاں دونوں آپ کے گھر کا چراغ ہیں۔بیٹے کو جب پانچ روپئے دیں تو بیٹی کو پانچ روہئے دیں ۔بیٹا جب لانگ ڈرائیو مستیاں کر کے آئے یا دوستوں کے سنگ موج مستیاں کر کے آئے تو اس سے کہیے کہ وہ اپنا کھانا خود نکال کر کھالے۔اور اگر بیٹی اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ کہیں جانے کو کہے تو حتی الامکان اس کو اس کی اجازت دیں اور اس پر پوراپورا اعتماد کریں۔
رابطہ۔[email protected]
موبائل نمبر۔9560877701