نگہت فرمان
یہ دنیا بڑی نرالی ہے۔ اس کے رنگ ڈھنگ موسموں کی طرح بدلتے ہیں۔ یہاں تک کہ’’چشم ِما روشن ،دلِ ماشاد‘‘ کہنے والے بھی طوطا چشم نکل آتے ہیں، گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔ لیکن کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’اس رنگ بدلتی دنیا میں اگر کچھ سکون کا باعث ہے، تو وہ ہیں، بیٹیاں ، جو بہت ہی پیاری، معصوم اور اپنے والدین کا خیال رکھنے والی ہوتی ہیں۔‘‘ واقعی ،بیٹیاں نرم و نازک پھولوں ہی کی مانند ہوتی ہیں، جو کِھلتی کسی کے آنگن میں ہیں اور مہکاتی کسی کے آنگن کوہیں اور ہماری یہ ننّھی پریاں کب اتنی بڑی ہوجاتی ہیں، پتا ہی نہیں چلتا، لیکن یہ چاہے کتنی بھی بڑی ہو جائیں، والدین بالخصوص ماؤں کے لیے تو وہی معصوم سی، پیاری، چہکتی مہکتی، مَن موہنی، ضدیں کرتی، تو کبھی نخرے اٹھواتی ننّھی پریاں ہی رہتی ہیں۔
اور یہ بھی ہمارے معاشرے ہی کا المیہ ہے کہ عموماًشادی کے بعد اِن ننّھی پریوں کو سُسرال والے، نئے رشتے، گُھلنے ملنے کے لیے اتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ ذرا اُن سب کے مزاجوں سے آشنا ہوسکیں، رشتوں کی نزاکتیں، ذمّے داریاں سمجھ سکیں۔ اُس ایک معصوم بچّی کو، جو اپنے بابا کی رانی، ماں کی شہزادی اور بھائیوں کی بےحدلاڈلی ہوتی ہے، جسے بچپن ہی سے ناز نخرے، لاڈ اُٹھوانے کی عادت ہوتی ہے، یک دَم ہی سُسرال میں ذمّےداریوں کے بوجھ تلے گویادبا دیا جاتا ہے۔ اور بد قسمتی سےاس عمل میں سب سے بڑا کردار، سُسرالی خواتین جیسے ساس، نندوں، جیٹھانیوں وغیرہ کا ہوتا ہے۔
ابھی بہو لائے دو دن نہیں گزرتے کہ ایک نازوں پلی بچّی پر گھر بھر کی ذمّے داری ڈال دی جاتی ہے، گویا بہو نہیں، گھر بھرکے لیے ملازمہ لائی گئی ہو۔ اس طرح وہ کلیاں، جن کے ہاتھوں کی منہدی بھی ابھی پوری طرح سے اُتری نہیں ہوتی، نئے گھر میں، پوری طرح سے کُھل کر مُسکرا بھی نہیں پاتیں کہ مُرجھانے لگتی ہیں۔ اور پھر ان کی بقیہ پوری زندگی سسرال والوں کی توقعات پر پورا اُترنےکی تکمیل ہی میں گزرتی جاتی ہے۔
وہ بیٹیاں، جن کی آنکھ کا ایک آنسو بھی والدین کے دل پر گراں گزرتاتھا، اپنے غم، پریشانیاں چُھپانے کے لیے ہنستے ہنستے ڈھیروں آنسو پی جاتی ہیں۔ سُسرال میں ہر ایک کو راضی کرنے میں لگی رہتی ہیں، مگر اکثر ناکام ہی قرار پاتی ہیں۔ ایسے میں اگر اُن کےشوہرہی اُن کے دُکھ، سکھ کے ساتھی بن جائیں، انہیں سمجھیں، پیار کے دو میٹھے بول ہی بول دیں، تو وہ اپنا ہر غم، تکلیف بھول جاتی ہیں، لیکن اگر شوہر ہی انہیں سمجھنے پرآمادہ نہ ہوں،تو پھر توہر لمحہ اذیت بن جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں بہوؤں کو انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔
ان کی مرضی، خوشی اور خواہش کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ، پھر ایک افسوس ناک امریہ بھی ہے کہ وہ خواتین، جنہوں نے سُسرال میں کڑا وقت گزارا ہوتا ہے، جو ساس، نندوں کی تنک مزاجی بھگت چُکی ہوتی ہیں، وہ بھی اپنی بہوؤں کو راحت دینے کے بجائے، ان کے ساتھ بالکل ویسا ہی رویّہ اختیار کرتی ہیں، ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں، جس سے وہ خود برسوں پہلےنبردآزما رہی ہیں۔
بہرحال، ہماری ہر ایک گھرانے سے استدعا ہے کہ بہو لائیں، تو یہ سوچ کر لائیں کہ وہ بھی کسی کی بیٹی ہے اور جب کسی کی بیٹی اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر آپ کے گھر آئے تو دل کشادہ کرکے اُس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں، اُسے رعایت دیں۔ اُس پر اتنا بوجھ مت ڈالیں کہ وہ فرار چاہے، اُسے سُسرال، گھر نہیں، جیل لگنے لگے۔ پھر ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو بہو کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے سے لے کرشوہر کے ساتھ آنے جانے تک پر تنقید کرتے اور باتیں بناتے ہیں۔ بہو کو بہو نہیں، ایک بےجان مُورت سمجھتے ہیں، جس کے کوئی جذبات ہیں، نہ احساسات۔ جانے یہ بے ہودہ سوچ ہمارا پیچھا کب چھوڑے گی۔دنیا چاند پر گھر بسانے کا سوچ رہی ہے، وہاں زمینوں کی خرید وفروخت شروع ہو گئی ہے اور ہم ساس بہو،نند ،بھاوج کے لڑائی جھگڑوں ہی سے نہیں نکل پارہےہیں۔
اگر آپ کو اپنی بہو کی کچھ عادات، طور طریقے پسند نہیں، تو اسے پیار سے سمجھائیں۔ اُسے بتا ئیں کہ آپ کے گھر کے اندازواطوارکیا ہیں، لیکن پورے خاندان میں اس کی کمیوں، غلطیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر یا گھر کے مَردوں کو ان باتوں میں شامل کرکے آپ اُس بچّی کی کوئی اصلاح نہیں کر رہیں، اُلٹا بدتمیزی پر اُکسا رہی ہیں۔ گھر کے سکون کی خاطر لعن طعن، الزام تراشیوں سے قطعاً گریز کریں کہ اس سے آپ کی دنیا ہی نہیں، آخرت بھی برباد ہوجائے گی۔ اسی طرح بہوؤں کو بھی یہی اطوار اپنانے چاہئیں، اپنے شوہروں کو جھوٹے سچّے قصّے سُنا کر، ساس، نندوں کی برائیاں کرکے، اُنہیں اُن کے گھر والوں سے دُور کرکے آپ خود بھی دائمی سُکھ نہیں پاسکتیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بھابھیاں، نندوں سے حسد کا شکار ہونے لگتی ہیں اور کسی بھی طور پر اُنہیں نیچا دِکھانے کی کوشش میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر ڈالتی ہیں، حالاں کہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ان سے دوستانہ تعلق قائم کرلیں۔ ہاں! اگر کسی بھی سبب میاں بیوی کے تعلقات خرابی کا شکار ہورہے ہیں، تو گھر کے بڑوں کو سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضمن میں ذمّے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں، زندگی کا حُسن اعتدال میں ہے اور رشتوں میں توازن و اعتدال ہی سے اس کا حُسن برقرار رکھا جاسکتا ہے اور یہ بات اگر ہم سب سمجھ لیں، تو کئی گھر اور دل ٹوٹنے سے بچ جائیں گے۔