سید اسامہ ہدوی
اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کردہ یہ دنیا، چاند ستارے فلک کے سارے نظارے یہ کہسار یہ سر سبز و شاداب زمین یہ کھیت کھلیان اور بالخصوص حضرت انسان یہ تمام کے تمام ربّ قدیر کی نعمتیں ہیں۔ اللہ جل مجدہ خود قرآنِ کریم میں بر سرِ اعلان کہہ رہا ہے کے اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے کی کوشش کروگے تو نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کائنات کی ہر چیز ہر شی چرند پرند پیڑ پودے نباتات جمادات حیوان انسان سب اللہ کی نعمت ہے۔ مزید تخصیص کے ساتھ غور کریں تو حیات انسانی میں ماں باپ کا وجود اہلِ خانہ سے گھر میں رونقیں اور ہمارا جسم جسم کے تمام اعضاء ان اعضاء کی حرکتیں سانس کا چلن اور دل کی دھڑکن سب اللہ کی نعمت ہے۔ ایک انسان کو اپنے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے اور اسکے آگے جبین نیاز کو جھکا کر اسکی حمد و ثنا بجا لانی چائیے۔
اللہ کی ان بیشمار نعتموں میں ویسے تو ہر نعمت انمول ہے مگر ایک نعمت ایسی بھی ہے جسکا کوئی جواب نہیں۔ ایک ایسی نعمت کہ جسے حاصل ہو جائے تو اسکی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت میں بھی اسکے وارے نیارے ہوجائیں۔ایسی نعمت جسکے حصول کو خود خواجہ دو جہاں حضور سرورِ عالمؐ نے باعث فخر کہا ہے اور اس نعمت کے شکرانے پر جنت کی ضمانت رکھ دی ہے۔ یہ وہ نعمت ہے کہ جو ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ اسکے لیے بھی نصیب ہونا چاہئے۔ وہ نعمت جو گھر کو روشن اور خاندان کو تابناک و منور کردے۔ اور جسے یہ نعمت حاصل ہوجائے تو گویا وہ دنیا کا امیر ترین شخص کہلائے اور اللہ کا جتنا شکر ادا کرے اسکے لیے کم ہے۔اس نعمت سے مراد ”بیٹی کی نعمت” ہے اور پاکستان کے مشہور عالم دین ڈاکٹر سلیمان مصباحی صاحب نے بہت ہی خوب کہا ہے کہ باپ تو باپ بھی اس وقت ہوتا ہے جب اسکو بیٹی سے نواز دیا جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت بھی ہے کے باپ کو باپ بننے کا لطف بھی اس وقت آتا ہے جب اسکے گھر کسی بیٹی کی ولادت ہو۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان عالیشان ہے کہ جسکی تین بیٹیاں ہوں اور اُنکی اچھے سے پرورش کرے حتیٰ کہ یہ بیٹیاں سن بلوغت کو پہنچ جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس شخص کو ایک جنتی محل عطا کردیتا ہے۔ یہی تو وہ عظیم نعمت ہے کہ شکل مادری میں اسکے قدموں تلے جنت ،بیٹی کی شکل میں والدین کے لیئے جنت کی ضامن اور بیوی کی شکل میں دین و دنیا کا عظیم سرمایہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کا سب سے عظیم و عالی خاندان بھی ایک بیٹی کے دم قدم سے چلا ہے۔
نبی کریمؐ نے بیٹیوں کے معاملے میں دنیا کو بہت بڑا درس دیا ہے اور اسوہ حسنہ کی عظیم مثال قائم فرمائی ہے۔ کبھی سیّدہ فاطمہؓ کو گلے لگا کر دنیا کو بتا دیا کے بیٹیاں جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں۔ کبھی سیّدہ فاطمہ ؓ کے لیے کھڑے ہوگئے اور قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے یہ پیغام دیا کے بیٹیوں کی عزت کرنی چاہئے۔ یہ ہماری آنکھوں کا سرمہ دل کا چین و سکون اور سر کا تاج ہوتی ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کے ایک شخص کہنے لگا بیٹیوں کے اتنے مسئلے ہوتے ہیں اچھا ہے میری بیٹیاں نہیں ہیں، یہ بات سن کر کسی نے اسے جواب دیا کہ اللہ بیٹیاں بھی اُسے دیتا ہے جو انہیں پالنے کی اوقات رکھتا ہو۔
بیٹیاں باپ کے درد کو بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھنے والی ہوتی ہیں اور یہ محبت و الفت کا پیکر جمیل ہوتی ہیں۔ ماں کی محبت کو دیکھیے اور سوچئے کے ماں بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔ بہنوں کو دیکھ لیں کے بہنیں تو خاندان کی زینت ہوتی ہیں اور آخر بہنیں بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔ بیٹیاں جب بولتی ہیں تو کائنات میں ہر سُو زندگی کے رنگ بھر دیتی ہیں۔ بیٹیوں کا دل چاہت و قربانی سے لبریز ہوتا ہے۔ جب وقت پڑتا ہے تو بیٹیاں اپنے آنچل کو پرچم بنا لیتی ہیں۔ جب خاندان پر برا وقت آتا ہے تو بیٹیاں قربانی دینے میں سبقت لے جاتی ہیں۔والد کی جان ہوتی ہے بیٹیاںاور جو گھر خدا کو پسند ہو، اللہ اس گھر میں بطورِ تحفہ بیٹیاں عطا کردیتا ہےاور کسی نے بہت ہی خوبصورت بات کہی ہے کہ بیٹے نعمت ہیں اور نعمتوں کا حساب لیا جائیگا لیکن بیٹیاں رحمت ہے اور رحمتوں کا حساب نہیں ہوتا۔
اللہ کے محبوب و محبوب دو جہاں آقائے نعمتؐ نے بیٹیوں کی کفالت پر جنت میں اپنی رفاقت کا انعام رکھا ہے۔،’’ اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی جنت میں وہ اور میں ایک ساتھ دو انگلیوں کی طرح داخل ہونگے حضور ؐ نے دو انگلیاں جوڑ کر اشارہ فرمایا۔‘‘(سنن الترمذی)۔بیٹیوں کے دم قدم سے اس جہاں رنگ و بو میں رونق ہے۔ اس لیے بیٹی والوں سے ہماری گذارش ہے کہ بیٹیوں کی قدر کریں اُنکی بہترین تربیت کریں انھیں دین و دنیا کی تعلیمات سے آراستہ کریں، خاص کرکے بیٹیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے مزین کریں کیونکہ دینی تعلیم بیٹیوں کے لیے راہِ نجات اور راہِ کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اپنی ان شہزادیوں کو دنیا میں جینے کے گن سکھائیں۔ انھیں اللہ و رسول سے قریب لائیں۔انھیں بہترین سے بہترین تعلیم دلائیں۔ جو والدین بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں وہ جان لیں کے تعلیم حاصل کرنا ان بیٹیوں کا بھی حق ہے۔ بیٹیوں سے محبت کریں اور جو لوگ بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے کم تر گردانتے ہیں، اس بات کو یاد رکھیں کہ آپاد رکھیں کہ آپ بیٹی کے ساتھ سخت ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بیٹیوں کے نصیب منور فرمائے اور بیٹی والوں کو حضور اکرم ؐکی رفاقت کا حقدار بنائے۔آمین