شہباز رشید بہورو
انگریز نے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکنہ سطح پرکام کیااور ان کے ہر کام کے پیچھے اُن کی بُری نیت کارفرما تھی۔انہوں نے تعلیم و ترقی کے میدان میں جو بھی خدمات انجام دیں، وہ تمام اپنے تسلط کوقائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے مقصود تھیں۔لارڈ میکالے کا نظام ِتعلیم ہو یا ایف ایم ہولمسر(FM Holmes) کی انڈیا کے چار ہیروز (Four heros of India) ہو یا بنگال کی ایشیاٹک سوسائٹی ہو سب کی سب کتب اور تنظیمیں منافقت اور مکر کا شربت تھیں جو ہندوستانیوں کو پلایا گیا۔ان تمام نوع کی کاراوائیوں کا مقصد صرف تسلط اور جبر تھا۔لیکن ان تمام ہتھکنڈوں میں ایک اہم ہتھکنڈا جو انگریز ی حکومت نے ہندوستان میں اپنے رول کو مستحکم کرنے کے لئے ا ستعمال کیا وہ فرقہ وارانہ منافرت تھی۔ ہندؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کے بیج بو کر برصغیر میں اپنے آپ کو انگریز نے مستحکم کیا ۔معروف بھارتی اسکالر شاشی تھارور (Shashi Tharoor)لکھتے ہیں :
’’ استعمارکی تقسیم کرو، حکومت کرو ،پالیسی نےمذہبی فرقہ وارانہ، منافرت کو پیدا کرکے اپنی استعمار ی حکومت کو مضبوط کیا جو منافرت بعد میں ۱۹۴۷ میں اپنے عروج کو پہنچ گئی ۔‘‘
برصغیر انیسویں صدی سے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہا، جس کی وجہ سے ہندو مسلم سوال نےباضابطہ متعلقہ سیاسی بلاک پیدا کئے ۔اس سوال نے سیاست کے دائرے سے نکل کر سماج کو بھی متاثر کیا اور صدیوں سے ایک ہی ملک میں رہنے والے دو ہمسائیوں کے راہنماوں کو باہمی مکالمہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفرت کی بھٹی اس قدر گرم ہے کہ ہر لمحہ یہ ملک فسادات کے خطرے سے دوچار ہتا ہے ۔بہر حال اب یہ سوال مستقل ایک موضوع اور شعبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے جس پر بہت سارے مسلم اور ہندو مخلص حضرات مثبت کام کر رہے ہیں ۔۱۹۴۷کےبعد ایک ہی ملک میں رہنے والے دو فریق آپس میں ایک دوسرے کے لئے اجنبیت کو محسوس کر رہے ہیں ۔ حالانکہ دونوں کےدرمیان گہری مماثلت اور یکسانیت بھی ہے ،جس مماثلت اور یکسانیت کو سمجھنا اور اسے عام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت معلوم ہوتی ہے۔اسلام چونکہ عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلا، اس لئے عربوں اور ہندؤں کےقدیم تعلقات کو عوام الناس تک پہنچانا اہل علم کا موجودہ حالات میں اہم ترین فریضہ ہے ۔یوں تو اہل علم سے ہندوستان اور عربوں کے تعلقات پوشیدہ نہیں ہیں لیکن بعض لوگ جانتے بوجھتے اس موضوع پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرکے نفرت کا ماحول پیدا کررہے ہیں، جس کی وجہ سے عالم انسانیت کا امن دائو پر لگ سکتا ہے ۔عرب اور ہند کے تعلقات علمی ،فنی اور تجارتی معاملات پر مبنی تھے جن سے انسانی علم نے ایک پڑائو سے نکل کر دوسرے پڑائو پر قیام کیا ۔تجارتی تعلقات کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب ’عرب ہند تعلقات ‘میں لکھتے ہیں :
’’ہندوستان اور عرب دنیا کے وہ دو ملک ہیں جو ایک حیثیت سے ہمسایہ اور پڑوسی کہاجاسکتے ہیں۔عرب تاجر ہزاروں برس پہلے سے ہندوستان ساحل تک آتے تھے اور یہاں کے بیوپار اور پیداوار کو مصر اور شام کے ذریعے یورپ تک پہچاتے تھے اور وہاں کے سامان کو ہندوستان ،جزائر ہند،چین اور جاپان تک لے جاتے تھے ۔‘‘
علمی تعلقات کے ضمن میں علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب کے تیسر ےباب میں مفصل گفتگو فرمائی ہے ۔ان کی تحقیق کے مطابق جب اہلِ عرب ہندیوں کے علم سے واقف ہوئے تو ان کی علمی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا اور اسطرح سے ہندی علوم کو عربوں نے اپنے علوم کا حصہ بنایا ۔اس موضوع پر مزید جاننے کے لئے مذکورہ کتاب کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
مذہبی کتب کے مطالعہ سے بھی یکسانیت کے حیرت انگیز نکتے سامنے آتے ہیں ،جن کی بڑے پیمانے پر وضاحت سے بین لمذاہب مکالمہ ایک مثبت تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے ۔قرآن مجید نے غیر مسلموں کے سامنے اپنا مدعا پیش کرنے کے لئے ایک بنیادی ہدایت تجویز کی ہے وہ یہ کہ :’’کہہ دو ،اے اہل کتاب اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ۔‘‘
ویدوں کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں بین المذاہب موضوع کے فہم پر ایک ایسا کام ہے، جس کا تقاضا آج کے دور میں ہر عام و خاص کررہا ہے ۔آیئے ویدوں کے کچھ مضامین پر قرآن کی روشنی میں نظر ڈالیں :
قرآن کہتا ہے ’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ‘(الفاتحہ ) اور وید کا اس جیسا منتر یوں ہے،’ ’اس دنیا کے بنانے والے کے لئے تعریف ہے ‘‘(رگ وید ۵۔۸۱۔۱)
’جو رحمن اور رحیم ہے ‘(الفاتحہ)’’جو دینے والا اور رحیم ہے‘ ‘( ۳ ۔۳۴۔۱)
’اس کی کسی چیز سے مشابہت نہیں ہے ‘(شوریٰ)’’اس پرمیشور کی کوئی تصویر نہیں ہو سکتی‘ ‘(یجروید۳۲۔۳)اس حوالے سےان مختلف کتب کا مطالعہ ،جو اس موضوع پر لکھی گئیں ہیں نہایت مفید رہے گا۔
بین المذاہب مکالمے کے دوران فریقین کی جانب سے نہایت اعتدال اور غیرجانبدارنہ رویے کو اختیار کرکے صرف تلاشِ حق پر نظر رہنی چاہئے ۔کسی بھی نوعیت کا تعصب اور جذباتیت کا اظہار نہ ہو تاکہ یکسانیت کے بدلے پھر کہیں بات فرقہ واریت پر منتج نہ ہو ۔مجھے اس موقع پر مولانا ثناء اللہ امرتسری کا وہ جملہ یاد آتا ہے جو آپ نے فریق کا جواب دینے کے لئے کہا تھا:
’’قبل ازمضمون ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ہم ایک ملک کے رہنے والے ہیں۔ملک کے ہر نفع ونقصان میں باہم شریک ہیں ،اس لئے ہماری یہ گفتگو ایسے پیرائے میں ہونی چاہئے جس میں ملکی مفاد کو کوئی نقصان نہ ہو اور ہندو مسلم سوال پیدا نہ ہو، بلکہ برادارانہ طور پر تبادلہ خیالات ہو۔‘‘
بین المذاہب مکالمہ کے ضمن میں صرف ہندومت اور اسلام ہی نہیں آتا ہے بلکہ عیسائیت ،یہودیت ،بدھ مت وغیرہ بھی زیرِ بحث آتے ہیں۔لیکن چونکہ اس ملک میں زیاداکثریت ہندؤں کی ہے، اس لئے پہلا حق ہندؤں کا ہم پر ہے کہ انہیں اسلام کی تفہیم کا پیغام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ارسال کریں تاکہ اسلام کے متعلق ان کے اذہان میں پیدا شدہ شکوک و شبہات کو دور کیا جائے ۔
باہمی تفہیم کی نظریاتی گفتگو اگرچہ اپنی اہمیت رکھتی ہے ،لیکن عملی نفاذ کی صورتیں تجویز کرنے کے بغیر موضوع کا حق ادا نہیں ہوتا ۔اس لئے ذیل میں چند عملی تجاویز پیش کررہا ہوں ۔پہلی فرصت میں اس ملت کا ہر فرد دین مبین کا ایک سیدھا سادھا اور فطری مفہوم ہر اس شخص تک پہنچائے جو اس کے تعلقات کے دائرے میں آتا ہو۔اسے اس کے مذہب کے متعلق بنیادی جانکاری فراہم کرکے قرآن کی روشنی میں مماثلت اور یکسانیت کے وہ باتیں بیان کرے،جو اُن کی کتب میں بیان ہوئی ہیں ۔ان سے کہا جائے ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ قرآن کو مانو یا اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کریں بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ تم وید و گیتا کی تعلیم پر عمل کرو ۔آپ کی مقدس مذہبی کتب میں کہیں بھی گناہ ،ظلم ، بدکاری ،چوری ،فریب کی تعلیم نہیں دی گئی ہے اور قرآن مجید کی تعلیمات بھی یہی ہیں تو اس لئے ہم کیوں آپس میں مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔آئیں، ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھیں اور بغیر کسی تعصب اور ہٹ دھرمی کے راہِ اعتدال تلاش کریں جو ہمیں افراط وتفریط سے بچا کر صراط المستقیم پر گامزن کرے ۔
دوسرا جو قدم اس ضمن میں اٹھایا جائے، وہ یہ ہے کہ اپنی اپنی برتری ثابت کرنے کے بجائے محبت کا پیغام عام کیا جائے۔ کیونکہ پیغامِ محبت ہی سے امن کے حالات پیدا ہوں گے اور حالتِ امن ہی میں ایک دوسری کی بات کو صحیح طور پرسمجھا جاسکتا ہے ۔ورنہ جہالت اور بدامنی میں جہاںلہوِ انسانیت رائیگاں ہو سکتا ہے وہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ مذاہب کا تقدس جہالت کی بنا پر پامال ہو ۔اس لئے تعصب اور تنگ نظری کے قفس سے آزاد ہو کر اعتدال اور وسعتِ نظری کا ثبوت پیش کریں ۔
یہ بات تو تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس ملک کی ترقی اور امن مسلمانوں اور ہندؤ ں کے درمیان خوشنما تعلقات پر مبنی ہے۔ اس لئے ہندو مسلم یکجہتی ہرجماعت کی طرف سے اہم ترین اہداف میں ہونی چاہئے ۔یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے حکومتی سطح پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور اسی حوالے سے میڈیا (جو آج سب سے زیادہ اس یکجہتی کو نقصان پہنچا رہی ہے )کو خبریں نشر کرنے میں منضبط کیا جائے ۔بین المذاہب تصادم کو انسانیت کے دشمن از سرنو زندہ کرنے کے لئے اسلام کو ہدف ِ تنقید بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اسلام کو پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔اس گھناونی حرکت میں متعصب ،تنگ نظر،مفاد پرست اور جاہل لوگوں کا ایک ٹولہ حیوانوں کی سطح پر اُتر کر امن عالم کے لئے خود ایک مہیب خطرہ بنا ہوا ہے۔اس لئے انہیں اس روش سے باز رکھنے کے لئے اور اُن کے زیرِ اثر عوام کو سمجھانے کے لئے ایک متحرک پالیسی ہر مذہبی تنظیم عمل میں لائیں جو کسی نہ کسی پہلو سے خدمت انسانیت کا فریضہ ادا کرے ۔
بین المذاہب مکالمہ اگرچہ مختلف سطحوں پر جاری ہے لیکن پھر بھی متعدد چیلنجز کا سامنا رہتا ہے، جنہیں ایڈریس کرنا ضروری ہے۔سیاسی دخل اندازی ،فرقہ وارانہ فسادات،نصابی کتب میں جذبات کو مشتعل کرنے والا مواد شامل کرنا،ذمہ دارمعاشرتی عہدوں پر فرقہ پرست لوگوں کا فائز ہوناوغیرہ جیسے متعدد چیلنجز ہیں جو پوری دنیا کے امن کو برباد کرسکتے ہیں ۔