بینک کے اندر داخل ہوتے ہی میری نگاہیں اس جگہ گئیں جہاں بینک کے منیجر بینک میں آنے جانے والوں کو اپنی زیارت کے شرف سے مشرف کرتے ہیں۔خیر کسی کام کی عرض سے تو میں بھی گیا تھا۔مگر منیجر صاحب اپنے کیبن میںکافی دیر بعد وارد ہوئے۔انتظار کی وجہ سے حال بے حال ہوا۔خالی ایک دستخط کے لیے بینک جانے کی گھٹنا گھٹی ۔ اب آپ بھی منٹو کی طرح ''منوں مٹی'' معذرت '' منوں من'' میں سوچ رہے ہوں گے کہ اس سب کا کیا مطلب ہے؟ بھئی جب نظم و ضبط کی عزت کی ڈور ٹوٹنے کی نوبت آتی ہے تب اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ میں بھی ایسے نظام کا فرد ہوں جس کی جب تشکیل ہو رہی تھی اور میں اپنی آنکھوں سے سب دیکھتا تھا اور کانوں سے سنتا تھا؛مگر ٹال دیتا تھا یہ کہہ کر کہ بھئی اب مجھے کیا لینا دینا۔مگر جب اسی لینے دینے کے معاملے میںکسی بھی سرکاری دفتر میں ایک معمولی کام نپٹانے کے لیے کئی گھنٹے کسی صاحب دستخط کا انتظار کرنا پڑتا ہے تب عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔تب جا کے احساس ہو جاتا ہے کہ واقعی میں ہم اپنی بے ہوشی، بے حسی،غیر ذمہ دارنہ حرکتوں اور ہر چیز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے’’منوں مٹی‘‘میںزندہ لاشیں ہیں؛جنھیں اچھے بُرے اور صحیح غلط میں امتیاز ہی نہیں۔۔۔خیر میں بھی درس دینے لگا۔۔۔جس طرح بقیہ دفاتر میں اُونچی ٹوپیوں کی آؤ بھگت ہوتی ہے،ٹھیک ویسے ہی بینکوں میں بھی اُونچی ٹوپیوں کی سخت گرم جوشی کے ساتھ استقبال ہوتا ہے۔ میراجب بھی بینک جانے کی واردات پیش آئی ہے، تو اتنا ضرور دیکھا ہوں کہ منیجر کے کیبن میں دو یا تین لوگ چائے نوش فرما رہے ہیں۔اُن کے خادم بذات خود منیجر صاحب ہوتے ہیں۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ایسے لوگوں کو پیسے جمع کرانے ہوں یا نکالنے ہوں، ما شاء اللہ وہ کام خود منیجر ہی کرتے ہیں۔اچھا ٹوپیوں ٹوپیوں میںمیں تو بھول ہی گیا تھا،عام جنتا بھی وہیں ہوتی ہے۔ بھئی آپ تو یاد دلاتے؟خیر کوئی بات نہیں؛ وہ بھی کہاں بھاگی چلی جائے گی،اُن کے چہروں سے ایسا لگتا ہے کہ صبح سے اسی لمبی لائن میں لگے ہیں ۔ایک طرف عام لوگوں کی لمبی لائن اور دوسری طرف منیجر کے کیبن میں چند ایک لوگ چائے نوش فرما تے دیکھ کرمن ہی من میںمنتری کی ''من کی بات '' یاد آگئی کہ ''سب کا ساتھ سب کا وکاس'' تب سمجھ میں آیا کہ یہی تو وہ گنے چنے لوگ ہیں جن کے وکاس کی بات منتری کرتے ہیں۔مگر جنتا بے چاری! اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی مطلب نکال گئی۔ اصل میں سب کے ساتھ سے دیش کے گنے چنے لوگوں کے وکاس کے لیے کہا گیا تھا،جو بینکوں کے ساتھ سے وکاس پاکر ہزاروں کروڑ روپئے لے کردیش سے پوری شان و شوکت کے ساتھ ٹائیں ٹائیں پُھرہوجائیں ۔ خیر ہم وآپس بینک چلتے ہیں۔ بینک میں ایک تو کچھ لوگوں کی آؤ بھگت بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے۔ کیوںکہ ایک تو اُن کے دھن سے بینک والے دھنے ہوجاتے ہیں اور دوم بینک منیجر بھی کبھی کبھی انفرادی طور پر کسی نہ کسی طریقہ سے دھنے ہو ہی جاتے ہیں۔ بینک میں آئے ہوئے لوگوں کی ایک جماعت ایسی بھی ہوتی ہے جو خود کو اِس قدر چالاک اور ہوشیار سمجھتے ہیں کہ بقیہ سب لوگ اُنھیں گدھے نظر آتے ہیں۔ وہ منیجر کے سوا سب کو پٹائے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ پیسے نکالنے ہو یا جمع کرنے ہو، وہ اپنا مال مع پاس بک بینک ملازم کے ذمہ چھوڑ دیتے ہیں اور خود سائڈ میں اِس ٹھاٹ بھاٹ سے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے اکبر خود انکارکلی کا ہاتھ سلیم کے ہاتھ میں دینے والا ہوتا ہے۔وہیں دوسری طرف عام جنتاکافی وقت سے قطار میں دھکے کھا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قطار اُن کے لیے نہیں بلکہ وہ قطار کے لیے بنے ہیں۔ایسے لوگوں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پر آکر اس بات میں کچھ حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ’ پیسہ بولتا ہیـ‘۔ یعنی بینک میں ایسا سماں دیکھ کر ضرور زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ ’گول مال ہے بھئی سب گول مال ہے‘۔اور اسی گول مال میں تو چند وکاسی لوگوںنے بینکوں سے اتنا مال گول کر لیا کہ ہجرت کے لیے اپنا بوریا بسترا ہی گول کر گئے ہیں۔خیر! بینکوں میں دو قسم کے لوگوں کی عزت ہوتی ہے۔ ایک وہ ہے جن کے پیسوں سے بینک کو فائدہ رہتا ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کے لیے بینک اور سسرال ایک جیسا رہتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو بینک سے لون(Loan) لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔اُن کا انتظار ایسے ہوتا ہے جیسے ایک قصائی کابکری کا ۔ اب یہ جو پیسہ ہندوستانی بینکوں سے اُڑ گیا ہے دراصل انہی دو قسم لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب اُن کے لیے بینک منیجر ہی چپراسی کی طرح خدمت میں لگ جاتے ہیں اور اُس کے بینک سے لون(Loan) لینے کی کی درخواست کرتے ہیں؛ تو اس لینے کے اب دینے یوں پڑ گئے کہ وہ حضرات ’ہو ا ہوئی‘ ہو گئے۔مگر بینک منیجر کے کیبن میں اگلی پارٹی اسی لینے دینے کے کام کو جاری رکھتے ہوئے ’جن دھن یوجنا‘ کو تین تیرہ کرنے کے لیے ’جَن‘ لے لیے ’یوجنا‘ اور اپنے لیے’ دھن‘رکھنے کا سوچتے ہیں۔ اس طرح سب کے ساتھ سے کچھ لوگوں کا وکاس ہو جاتا ہے۔ اب بینک اسی سب کا ساتھ کچھ کا وکاس کے پیار میں دھوکہ کھا کر اپنے قرض داروں کو یوں بلاتا ہے: پیار جھوٹا سہی دُنیا کو دکھانے آجا،تو کسی اور سے ملنے کے بہانے آجا!۔بینک سے نکلتے ہوئے منیجر کے کیبن کی دیوار پر ٹنگی ایک فریم پر گاندھی جی کا کہا ہوا قول لکھاتھا، جو کہ یوں ہے:
''A customer is the most important visitor on our premises.He is not dependent on us. we are dependent on him. He is not an interruption on our work.He is the purpose of it. He is not an outsider on our business.He is part of it.We are not doing him a favour by serving him. He is donig us a favour by giving us an opportunity to do so.''
تب جاکے سمجھ آیا کہ قول بھی صحیح چُنا ہے اور لٹکا یابھی صحیح جگہ پر ہے۔ مگر ایک بات اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ منیجر کے کیبن سے زیادہ لوگ تو کیبن سے باہر ہوتے ہیں،تو قول اندر کیوں لٹکایا گیا؟پھر وہی بات’گول مال ہے بھئی سب گول مال ہے‘۔
رابطہ : ریسرچ اسکالر۔۔۔یونیورسٹی آف حیدرآباد