پٹھانکوٹ کے ایک کالج میں زیر تعلیم راجوری کے طالبعلم کی ہوسٹل میں پراسرار ہلاکت نے بیرون ریاست طلباء کی سلامتی کے حوالے سے پہلے سے ہی پائے جارہے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کردیاہے ۔یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں جب جموں و کشمیر کے بیرون ریاست زیر تعلیم طلباء کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہو بلکہ اس سے قبل کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ، کبھی گائے کے گوشت پر سیاست،کبھی ملک سے غداری الزام اور کبھی کسی دوسرے بہانے کے ساتھ طلباء کو ہراساں کیاگیا ۔جہاں کئی مرتبہ طلباء کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی و ہیں کچھ جامعات نے ان کا داخلہ ہی منسوخ کردیا جبکہ چندایک طلباء کی لاشیں واپس لائی گئیں۔ تین رو ز قبل اسی طرح کے ایک واقعہ میں راجوری کے منجاکوٹ علاقے سے تعلق رکھنے والے اورنگ زیب نامی طالب علم، جو والدین کا اکلوتا تھا، کی توی پالی ٹیکنک کالج پٹھانکوٹ سے ہلاکت کی خبر موصول ہوئی، جس کے بعد گھر کے کچھ افراد طالبعلم کے کالج پہنچے اور وہاںسے اس کی لاش لائی گئی ۔ لاش لینے گئے لوگوں کو اس بات کایقین ہے کہ اورنگ زیب کاقتل کیاگیا ہے لیکن اب تحقیقات کے بعد ہی یہ بات سامنے آسکتی ہے کہ اس نوجوان کی موت کی اصل وجہ کیارہی ۔ اگرچہ لاش آبائی گائوں پہنچنے پر بڑی تعدا د میںلوگوںنے احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور پولیس سے کیس ٹرانسفر کرانے کا مطالبہ کیا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی زیادہ پیشرفت ہوتی دکھائی نہیںدی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست سے تعلق رکھنے والے ہزاروںکی تعداد میں طلباء اس وقت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں،پروفیشنل و ٹیکنکل کالجز اور دیگر اداروں میں زیر تعلیم ہیں جنہیں کسی نہ کسی بہانے زیادتیوں کاشکار بنایاجاتاہے ۔ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب طلباء کازدوکوب کیاگیا ہو ۔ کئی ایک ہلاکتیں بھی پیش آئیں لیکن آج تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ ان کی ہلاکت کی اصل وجہ کیاتھی اور اس کے پیچھے کون لوگ ملوث تھے ۔ایسے واقعات کے بعد نہ صرف طلباء کے والدین بلکہ ریاستی حکومت اور سماج کا ہر ایک طبقہ تشویش مند ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی بار اس معاملے پرجموں و کشمیر سرکار کو متعلقہ حکام سے بات چیت کرنا پڑی، اسی کے رد عمل میں دہلی اور دیگر شہروں میں سرکار نے رابطوں کا انتظام کیا تھا، لیکن اسکا بھی کوئی فائیدہ سامنے نہیں آیا۔ہر بار ریاست کی حکومت نے اس بات کی ضمانت دی کہ بیرون ریاست زیر تعلیم طلباء کو کوئی گزند نہیں پہنچے گااور ان کی حفاظت کو یقینی بنایاجائے گالیکن وقفوں وقفوںکے بعد کوئی نیا واقعہ رونما ہوتارہا۔ان واقعات میںجہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر کے عناصر ملوث پائے گئے ہیں وہیں بیرونی عناصر کاہاتھ بھی کارفرمارہا ،تاہم آج تک کسی کے بھی خلاف ایسی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، جس سے آئندہ کیلئے اس طرح کے واقعات رونما ہونے کا اندیشہ ختم ہوجاتا۔حکومتوں کی طرح ملکی سطح پر ذرائع ابلاغ کا رویہ بھی اس معاملے پر دہرا ہی رہا ۔جس میڈیا نے کشمیر میں این آئی ٹی کے اندر طلبہ کے درمیان ٹکرائو کے معاملے پر ملک بھر میںواویلا مچایا ،وہی میڈیا جموں کشمیر کے طلباء کے ساتھ ہونے والی ہر ایک زیادتی پر ہمیشہ خاموش رہا۔یہی وجہ ہے کہ شر پسند عناصر کے حوصلے بلند ہوتے گئے اور وہ اپنی مذموم حرکات انجام دیتے رہے ۔اورنگ زیب کی ہلاکت کے تازہ واقعہ نے ایک بار پھر سے کئی طرح کے سوالات کھڑے کئے ہیں اور طلباء کے والدین اپنے بچوں کی سلامتی کیلئے فکر مند نظر آنے لگے ہیں ۔ریاستی حکومت اور پولیس کو اس واقعہ کے تعلق سے فوری طور پر پنجاب سرکار اور پولیس سے رابطہ کرناچاہئے اور اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ اکلوتے فرزند کے والدین کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے ۔بیرون ریاست زیر تعلیم دیگر تمام طلباء کی حفاظت بھی ہر صورت یقینی بنائی جانی چاہئے ۔
آزادی ہم سے کیا مانگے ؟