سید مصطفی احمد
آج ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل سے دوچار ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ ایسا ہے جو دوسرے کئی مسائل کو جنم دیتا ہےاور یہ مسئلہ بےروزگاری کا ہے۔ ظاہر ہے کہ بےروزگاری ایک ایسی لعنت ہے ،جس کا مفلسی، بھوک اور بیماری کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بدحالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہےاور دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بے ایمانی ،چوری، ڈاکہ زنی،یہاں تک کہ عصمت فروشی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اِن جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا اثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں فراہم نہیں کرسکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا ،وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلاب کی ایک بڑی تعداد بےروزگار ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بہت سارےڈگری یافتہ اعلیٰ اذہان والےبے کار نوجوان نوکری کی تلاش میں ان کےدَر کھٹکھٹاتے پھر رہے ہیں، اپنی حاصل کردہ اُن ڈگریوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جن کے حصول کے لئے انہوں نے نہ صرف اپنے والدین کی خون پسینہ کی کمائی صَرف کی ہوتی ہے بلکہ اپنے دن و رات کی انتھک محنت بھی شامل ہوتی ہےاور اس دوران بہت سارے مصائب و مشکلات جھیلے ہوتے ہیں۔مگر نتائج ندارد ہونے کے باعث وہ محض اپنا پیٹ پالنے کے لائق نہیںہوتے۔ ان جوانوں کی دلوں پرجو بیت رہی ہے، وہ ہر ذی ہوش محسوس کرسکتا ہے۔ اپنی فکر، والدین کی فکر، بھائی بہنوں کا غم اور سماج کے توقعات پر کھرا اُترنا،تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان کواضطراب میںڈال چکا ہے۔ کب تک ایک جوان ماں باپ کی کمائی پر پلتا رہے گا؟ کب اُس کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کاخواب پورا ہوگا؟ کب وہ اپنی کمائی سے ماں باپ کو راحت دلاکر خوش کرے گا؟
ایسے کئی سوالات ہیں جو دورِ حاضر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوانوں کی زندگیوں کو شکستہ کرچکے ہیں،جس کا نتیجہ مایوسی اور ذہنی تناؤ کی شکلوں میں نکل آتےہیں۔ اپنےحال کی بدتر صورتحال دیکھ کرنوجوان کی کمر ٹوٹ جاتی ہےاور مستقبل کی فکر اُس کی زندگی کو دن بہ دن خستہ کر دیتی ہے۔ایک ایک فارم کو بھرنے کے لئے پانچ پانچ سو روپے ماں باپ سے ہی لے لیتا ہے۔آنے جانے کا خرچہ بھی والدین سےحاصل کرتا ہے۔امتحانات میں حصہ لینےاور دوسرے لوازمات پورے کرنے کا بھی بوجھ والدین کے کندھوں پر ہوتا ہے ۔ پھرجب نتائج آتے ہیںاور وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر نیا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ صاحب ِ ثروت اور اثرورسوخ والوںکو تو کہیں نہ کہیں نوکری مل جاتی ہےمگر غریب وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔بعض اوقات امتحانی نتائج میں اگر غریب نوجوان کامیابی حاصل کرتا ہےتو دھاندلیوں کی آڑ میںامتحان کو ہی رد کیا جاتاہےاور اس صورت میں بھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تمام توانائیاں بے کار ہوجاتی ہیں ۔
ماضی میںکہا جاتا تھا کہ علم نور ہے، اس سے جہالت دور ہوتی ہے اور اچھا روزگار ملتا ہے۔ مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پڑھائی ذہنی کوفت بڑھاتی ہے اور روزگار کا ملنا لگ بھگ محال ہے۔ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ اب جتنی جہالت پڑھے لکھے طلاب میں ہیں، اتنی اَن پڑھ لوگوں میں نہیں۔ ایک اَن پڑھ ترکھان ماہانہ لگ بھگ بیس ہزار روپے کماتا ہےاور زندگی افراتفری کے بغیر گزارتا ہے۔ ایک مزدور مہینے میں دس پندرہ ہزار روپے کماتا ہے اور زندگی آرام سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ایک پڑھا لکھا ڈگری یافتہ جوان اپنا پیٹ پالنے سے بھی قاصر ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہے تو ایسی پڑھائی کسی بھی لحاظ سے پڑھائی کے کس زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟حالانکہ اس صورتحال سے نکلنے کے کو کئی راستے تھے۔لیکن وہ بھی اب بند دکھائی دے رہے ہیں۔چنانچہ ملک میں نئے نئے کارخانے اور صنعتیں وجود میںتو آئیں مگر چھوٹی صنعتوں میں کمی آرہی ہے ، کیونکہ جو کام بہت سے کاریگر گھنٹوں میں کرتے تھے ،مشینیں اس کام کو منٹوں میں کردیتی ہیں۔گویا صنعتی انقلاب کے فائدے اتنے نمایاں نہیں ہوئے جتنے کہ ان کے نقصانات۔ صنعتی ترقی سے بہت کم لوگوں کو روزگار ملا اور بہت بڑی تعداد کو بے روزگاری کا منہ دیکھنا پڑا۔صنعتی زندگی دور سے دیکھنے میں بہت پرکشش اور رنگین نظر آتی ہے۔ دیہاتوں اور قصبوں میں لوگ شہری زندگی کا ذکر بڑی دلچسپی اور شوق سے سنتے ہیںاور اونچی اونچی عمارتوں، سینما، ریل، موٹر، ہوٹل اور تفریح گاہوں کو دیکھ کر گاؤں چھوڑ کر شہر میں نوکری کرنے کے لئے آتے ہیں، بڑے بڑے کارخانوں کا ذکر سن کر روپیہ کمانے کی دھن میں شہر میں بستے ہیں۔ لیکن جب کام تلاش کرنے والے زیادہ اور نوکریاں کم ہوں تو بے روزگاری میں بڑھوتری ہی ہوجاتی ہے۔
اب اگر تعلیم کا حال دیکھیںتو کالجوں اور اسکولوں کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے ،اس کے نتیجے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہر سال جتنے طلباء پڑھ کر نکلتے ہیں، ان میں سے بہت کم نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور بیشتر نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ہماری بیشتر تعلیم محض نصابی ہو کر رہ گئی ہے جو کہ عملی زندگی اور مختلف پیشوں میں کوئی فائدہ یا مدد نہیں دیتی۔ دوسری کمی یہ ہے کہ تعلیم میں ملکی ضرورت کا صحیح خیال نہیں رکھا جاتا، جس وجہ سے بہت سی ڈگریاں کسی نوکری کے حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہوتیں۔ حالانکہ ملک میں بہت سی ایسی صنعتوں کے امکان موجود ہیں جو ملک کے بے روزگار لوگوں کو کام فراہم کرسکتے ہیں۔ تعلیم کو صنعتی اور ملکی ضروریات کے لحاظ سے شکل دینا چاہیے تاکہ جو لوگ تعلیم حاصل کرکے نکلیں ،وہ ملک کے لیے کار آمد ثابت ہو سکیں۔ تعلیم میں فنی اور عملی صلاحیتوں پر زیادہ زور ہونا چاہیے اور صرف انہی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے جن میں واقعی اس کی صلاحیت ہو۔ باقی لوگوں کو زراعت، تجارت یا دوسرے فنون کی تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اپنے خاندان اور ملک کے دوسرے لوگوں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اپنی روزی خود کما سکیں۔اسطرح کچھ حد تک ملک سے بیروزگاری کا مسلہ حل ہو سکتا ہے۔
اگر جموں و کشمیر میں بھی نجی سیکٹر کو فروغ دیا جاتا اور بڑے بڑے کارخانے لگائے جاتے،تو بھی بےروزگاری پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوکری کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی یا مذہبی مسائل کو نظر انداز کرکے پوری انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچے۔ اگر ہم سبھی واقعی جوانوں کی موجودہ صورتحال کی طرف سنجیدہ ہوجائیں تو ہمیں جلد سے جلد کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہم جوانوں کو ایسے ہی مایوسیوں کے دلدل میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ ہمارے نوجوانوں اور جوانوں کو روزگار عطا کرے۔ ان کی زندگیوں میں سکون آجائے۔
(حاجی باغ بڈگام)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)