عاقب اعجاز لون
دنیا کو بڑے درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ غریبی بھی ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ مفلوک الحال لوگ شوشل میڈیا پر اپنا رونا روتے ہیں، اپنی درد بھری کہانیاں سناتے ہیں، کسی مرض میں مبتلا ہو کے دوائی کے لئے ترستے ہیں، کوئی غریب باپ اپنی جوان بیٹی کی شادی کے خرچے کے لئے ، کوئی دو وقت کی روٹی کے لئے، کوئی سردی یا گرمی سے بچنے کے لئےچھت کو ترستا ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو بیماری میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں ، کئی بیٹیاں شادی نہ کرنا ہی پسند کرتی ہیں ۔ لیکن لوگوں کے سامنے آنا پسند نہیں کرتے، اپنے عزت نفس کے بارے میں سوچتے ہوئے خاموش ہی رہتے ہیں۔
کیا ہم سے اس کے بارے میں سوال نہ ہوگا؟ ضرور ہوگا!!
غریبی ایسی بیماری ہے جس کا علاج اگر بروقت نہ ہوسکا تو یہ وبال جان بھی بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ غریبی کی وجہ سے کتنے ہی لوگ خودکشی کر لیتے ہیں ۔وقت کی ضرورت ہے کہ اس درپیش مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے ۔ اب یہ صرف دیکھنا ہی نہیں ہےبلکہ یہ سوچنا ہے کہ اس مسئلےکا حل ہے بھی یا نہیں؟
حل ضرور ہے ! اسلام کے پاس زندگی کے ہر مسئلے کا حل ہے۔جیسا کہ غریبی کو مٹانے کیلئےبیت المال کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔بیت المال کی رقوم کا صحیح استعمال کرکے غریبوں کی امداد کی جاسکتی ہے۔جہاں بیت المال غریبی کو کم کرنے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، وہیں اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں، جن سے غریبی کو روکا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ مالدار لوگ اپنے اردگرد نادار لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں، ان کے مسائل کو جاننے کی کوشش کریں اور حتی امکان ان کی مالی تعاون کریں ،اپنے رشتے داروں سے گہرے روابط رکھیں، صلہ رحمی کی قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو کسی مصیبت میں مبتلا دیکھو تو ان کی امداد کرو ۔ اسی طرح اگر پڑوسیوں میں سے کوئی نادار ہے تو اس کی کفالت کریں۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ آدمی مومن نہیں جو رات کو شکم سیر ہو کر سورہا ہواور اُس کے قریب کا پڑوسی بھوکا رہے، حالانکہ اس کو معلوم ہے۔‘‘(مستدرک حاکم)۔پڑوسی کا اتنا حق ہے کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے ۔حضرت نبی رحمتؐ نے فرمایا ہے، مجھے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اتنی تلقین کی گئی کہ مجھے اندیشہ ہوا، کہیں پڑوسی اب وراثت کا حق دار نہ بن جائے۔
رزق کی تنگی اور رزق کی فراوانی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، کوئی یہ نہ سمجھیں کہ میرے پاس اتنا مال ہے، رزق میں کشادگی ہے ،بزنس (Business) بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس میں میری اپنی کوئی کارستانی ہے بلکہ یہ آپ کے لئے آزمائش ہے۔ یہ تو اللہ تعالی کی حکمت ہے، جسے کہ قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے:
’’کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہےاور( جس کے لیے چاہے ) تنگ کردیتا ہے۔اس میں یقیناً ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو ایمان لائیں۔‘‘( سورہ روم: آیت نمبر ٣٧)۔
اللہ تعالیٰ کے لئے ( یعنی ناداروں ، مفلسوں ، غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے) خرچ کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ ربّ العزت قرآن مقدس میں بیشتر مقامات پر فرماتے ہیں، اللہ کی راہ میں، اللہ کا دیا ہو مال خرچ کرو۔’’لہٰذا تم رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی ۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں ان کے لئے یہ بہتر ہے، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (سورہ روم:آیت نمبر ٣٨)۔
رشتہ داروں، مسکینوں، یتیموں کے حقوق اللہ تعالیٰ نے برابر رکھے ہیں، اگر ان کے حقوق ٹھیک اسی طرح دئیے جائیں گے، جس طرح بیان کئے گئے ہیں، تو یہ پھر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کیلئے مجبور نہیں ہونگے اور ان کا عزت نفس بھی محفوظ رہے گا اور مسائل بھی حل ہونگے۔ مگر دینے والے کو پھر ہرگز یہ احسان ان پر نہیں جتانا چاہیے کہ فلاں وقت میں نے آپ کی نہ ہوتی تو آپ ابھی تک اسے مسئلےمیں اُلجھ رہے ہوتے،بلکہ دینے والے کو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے یا اللہ آپ نے مجھے مال دیا اور ساتھ میں یہ شعور بھی عطا کیا کہ میں ان غریبوں ، مسکینوں کا خیال رکھو۔
بے روزگار نوجوانوں کو اگر مال دار لوگ قرضہ حسنہ دے کر ان کی مالی امداد کریں، تاکہ وہ اپنا کچھ کاروبار شروع کر کے حلال طریقے سے اپنی روزی کمانے لگے اور وقت کے بےشمار جرائم (نشہ، جوا) سے بچ جائیںگے۔یہ اُس دینے والے شخص کے لیے صدقہ جاریہ بھی رہے گا۔ اسلام یہی درس دیتا ہے، جیسے اپنے بچوں کی فکر کرتے ہو،پڑوسی کے بچے کے لیے بھی ویسے ہی فکر مند رہو۔ ہمارے سامنے نمونہ ‘مہاجر و انصار کی اخوت ہے پھر تاریخ گواہ ہے کہ کیسا خوشگوار معاشرہ وجود میں آیا، پھر سب مل جل کر، ایک ہو کر اعلیٰ کلمتہ اللہ کے لیے کام کرنے لگے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ دینی و دنیاوی کاموں میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں۔
اگر اس جذبے کے تحت خرچ کیا جائے، یتیموں ، غریبوں اور ناداروں کا خیال کیا جائے تو غریبی اور مفلسی جڑ سے ہی ختم ہوگی اور دنیا کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوگا۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ پہل ہمیں ہی کرنی ہے، کیونکہ ہمارے یہاں بیت المال کا نظام ہے، اگر بیت المال کو منظم بنایا جائے تو ہم غریبی کو مٹانے میں کامیاب ہونگےاور دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرینگے کہ مسائل کا اصل حل تو ’’اسلام‘‘ میں ہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے لئےمحنت کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں غریبوں ،مسکینوں، محتاجوں کا مددگار بنائے۔آمین
(رابطہ۔9149793301)
[email protected]