زمین کی کھدائی میں ہڈیوں کے پنجروں سے ، فوسل، جوہڑوں، سوکھے کنوئوں، پتھروں کے اوزاروں، غاروں کی دیواروں پر بنے مختلف اشکال و چتر کلا سے ، سنگی زیوارت اور کراکری کے ٹکڑوں اور ٹوٹے مٹی کے برتنوں سے قدیم زمانے سے متعلق جو مفروضے یا اسطور ( بسا اوقات جزوی حقائق بھی منظر عام پر آتے ہیں) وضع کر لئے گئے ہیں یا جیسے وادی سندھ کی تہذیب ترتیب دی گئی ہے، آج جب ہم اُس کے بارے میں کتابیں پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ کھوج یا تحقیق مفروضہ نہیں لگتا بلکہ ہم سچ مچ ہی ہڑپا، مو ہنجودارو کی سر زمینوں میں کھو جاتے ہیں اور سندھ کے ٹھنڈے میٹھے وشال پنوں پر تصوراتی آنکھ سے اپنے آپ کو بھی انہی لوگوں میں شمار کر لیتے ہیں جو کبھی اُن صحرائوں، وادیوں اور میدانوں میں اپنے رومان پرور ماحول میں مست ساز بجاتے، گیت سجاتے اپنے قدیم طرز کے مزا میر کا ترنم جا بجا بکھیرتے آنے والی نسلوں کیلئے ایک نشانی اور تحقیق کیلئے ایک موضوع چھوڑ جاتے تھے۔
جو بات میں گوش گذار کرنے جا رہا ہوں اگر نوجوان طبقہ اِسے حسن ِاتفاق سے بلکہ متعجب ہو کر تاریخ سمجھ لے تو پھر یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس تاریخ کے مورخ و مأخذ بھی ہم ہیں اور راوی بھی، کیونکہ یہ باتیں سُنی سنائی یا نانی اماں کی کہانی یا اساطیرالاولین کے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی آنکھوں دیکھی اور ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے جو بچے سن 1980کے بعد پیدا ہوئے ہیں وہ یہ باتیں جب اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں تو حیران ہر جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اپنے بزرگ پر اعتبار بھی نہ کرتے ہوں۔ یہ باتیں الفؔ لیلوی قصے کہانیوں کی طرح دیو مالائی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی صرف چند سال قبل کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
کچھ عرصہ یا چند سال قبل اُدھر کی بات ہے کہ ہماری ایک بزرگ خاتون شہر خاص گوجوارہ ؔ سری نگر سے رات کے ایک بجے دعوت سے فارغ ہو کر اکیلی میزبان کے ہاں سے چل پڑی اور لگ بھگ ڈھائی بجے رات کو گھر ( بربرشاہؔ) پہنچی۔ محترمہ اگر چہ پُرانی طرز کا کشمیری برقعہ اوڑھے ہوئے تھی مگر پھر بھی اُ س کے ہاتھ، کلائیاں، چہرہ اور کان وغیرہ عیاں تھے اور اُن تمام اعضاء پر سونے کے قیمتی زیوارت لگے تھے، بالے، بندے، چوڑیاں، جگنی، انگوٹھیاں سب دِکھ رہے تھے مگر محترمہ بغیر کسی خوف و ڈر کے بڑے آرام سے لگ بھگ چار کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ طے کرکے آئی اور اطمینان سے گھر پہنچ گئی۔ عجیب بات ہے نہ چوری چکاری کا خوف نہ اغوا ء کاڈر اور نہ ہی بے حرمتی یا قتل کا وسوسہ تھا۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی بات ہے کیونکہ سابقہ خیامؔ سمینار یا موجودہ خیبرؔ ہسپتال ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا ۔ خیام روڑ پر جو آج دوکانوں کی قطاریں، ہوٹل ، گیسٹ ہائوس، کارخانے، بستیاں، سکول اور پیٹرول پمپ وغیر ہیں ،وہ بھی نہیں تھے۔ اخوانؔ ہوٹل، اور اُس کے سامنے آر ٹی سی سنگرمال کمپلیکس کو جانے والی روڑ اور اُس کے مد مقابل خانیار جانے والی سڑک کا بھی وجود نہیں تھا ۔ بربر شاہ کے قریب سے گزرتا ہوا بابا ڈیمب روڑ بھی نہیں تھا۔ قدیم تاریخ میں مشہور آبی گذر گاہ ، سڑک میں، خوبصورت کناروں، رومان پہرور یارہ بلوں(Friends Meeting Place) والی لچکتی بل کھاتی ندی ژونٹھ کوہل بھی بدبودار نالی میں تبدیل نہیں ہوچکی تھی۔
جس بڑے راستے کو آج خیام روڑ کہا جاتا ہے، وہ سڑک کے نام پر ایک پتلی سی راہداری یاپگڈنڈی تھی جو عام طور پر تانگوں کی آمدو رفت کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ دائیں بائیں ڈل کے پاینوں سے لدے اور روئے آب ہریالی سے سجے نالے تھے جن میں اکثرتانگے سواریوں سمیت درُ گھٹنا سے دو چار ہو جاتے تھے۔ ایس ایم ڈی سکول نہیں تھا اور منور آباد محلے کے اندر جانے والی گلی کے دائیں طرف قبرستان تھا جس پر آج شاندار تعمیرات کھڑی ہیں۔ اور سکول کے بالکل سامنے ایک سو کھا بوڑھا چنار بھی تھا جس نے نہ جانے اپنے اندر کتنی داستا نیں چھپا کر رکھی تھیں۔
شام گئے لوگ اس راستے پر چلنے سے کتراتے تھے اور بلا شبہ رہزنوں کے خوف سے نہیں بلکہ بھوت پر یت کے ڈر سے۔ انسانوں سے کوئی خوف تھا نہ ڈر اور نہ کہیں فوجی پہرہ ہوتا تھا ۔ پولیس نظر آتی تھی نہ کوئی گرہ کٹ۔
اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ چوریاں نہیں ہوتی تھیں یا مانو مکمل ’’ رام راجیہ‘‘ تھا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ اچکے اور اغواء کار نہیں تھے۔ عورتوں کا جان و مال اور عفت و عصمت محفوظ تھی۔ چند پیسوں کے لئے قتل ناحق نہیں ہوتے تھے اور رواں دواں گاڑیوں میں بچیوں کی بے حرمتی نہیں ہوتی تھی۔ بے راہ روی، نشے کی لت اور اغواء کاری نہیں تھی۔ ایکس گریشیا ریلیف لینے کیلئے باپ اپنی بچیوں کا بے دردی کے ساتھ قتل نہیں کرتے تھے۔ کتنے امن و امان والے پُر سکون تھے وہ دن!! بیم ورجا سے قطع نظر دماغ میں حملے کا، چوری کا یا لٹنے کا خیال ہی نہیں پیدا ہوتا اور یہ وادیٔ گلپوش جنت بے نظیر اپنے نظاروں اورکہساروں کی وجہ سے نہیں تھی کیونکہ دنیا میں سینکڑوں بے انتہا پُر کشش اور خوبصورت مقامات ہیں، البتہ یہ وادی بلاشبہ جنت بے نظیر اپنے ماحول، بے خطر عبور و مرور ،امن و آسودگی اور محفوظ جان و مال کی وجہ سے تھی۔ گر چہ کشمیریوں بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ کشمیری مسلمانوں نے وقت وقت پر سیاسی ظلم، مذہبی عصبیت اور تنگ نظری و تعصب کے ستم سہے تھے مگر ایسے ستم تاریخ کے کسی گوشے سے ہویدا نہیں ہو رہے ہیں جس طرح کے ستم آج کل مروج ہیں۔ اُس وقت اگر چہ مسلمان کم پایہ غریب اور حاجت مند تھامگر انفرادی حیثیت میں وہ ایک باکردار انسان تھا۔ جب اس سے بیگار لی جاتی تھی تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ راجدھانی ؔ پاس پرپیر پھسلنے کا بہانہ بنا کر وہ بیس سیر کا بوجھ کہیں پھینک سکتا تھا مگر نہیں۔ وہ گرچہ بیگار پر ہوتا تھا مگر چاول برابر فوجی کیمپ میں جمع کراتا تھا۔ مگر ا ب وہ باتیں کہاں؟؟؟ اب ہم نے اپنا سب کچھ، اپنی فرزانگی، بلند خیالی سارا کچھ پس پشت ڈال دیا اور صرف دنیا کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر ہم نے معمولی دنیاوی مفاد کی خاطر قانونِ قدرت اور اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی نہ کی ہوتی، غفلت نہ برتی ہوتی تو آج خوف و ڈر اور گھبراہٹ و پریشانی، بے اطمینانی اور سراسیمگی سے معموریہی شب و روز ہمارے لئے بہار کے مست و معطر جھونکے ثابت ہوسکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ روگردانی نافرمانی ہے اور نافرمانی بہر حال مستوجب سزا و عذاب الٰہی ہے۔ نا تمام آرزو یہی ہے ع
کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995