سیاست ’’قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے کس خطےکے مسلمانوں نے سب سے زیادہ ہجرت کی؟‘ کل یہ سوال ہمارے رفیق ِدیرنہ سید محمد عباس نے کیا تھا، ہمارا جواب یہی تھا کہ شمالی ہند ہی کے مسلمانوں نے کثیرتعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ پرانے بتاتے ہیں کہ یوپی کے تو بعض شہر اور بعض قصبات مسلمانوں سے تقریباً خالی ہوگئے اور بالخصوص وہ مسلمان جو کوئی حیثیت رکھتےتھے‘‘۔ سید محمد عباس کا کہنا تھا کہ دہلی سے تو بڑی تعداد میں شیعہ مسلمان پاکستان چلےگئے۔
کئی برس قبل جب ہم کراچی جارہے تھے تو ہمارے بزرگِ مکرم مہدی اعظمی نے ہم سے کہا کہ میاں! ہمارے ایک بہنوئی ضمیر احسن کراچی میں ہیں ،ان کو اپنی ایک کتاب بھجوانا چاہتا ہوں، مختصر یہ کہ مہدی صاحب کی وہ کتا ب ہم یہاں سے لیتے گئے ۔ کراچی میں مہدی صاحب کے عزیز ہماری قیام گاہ پر تشریف لائے، وہ بہت خوش ہوئے جیسے اُن کے وطن کا کوئی عزیز برسو ں بعد اُن سےملا ہو۔ ہم نے ان سے سوال کیا کہ اب تو برسہا برس ہوگئے یہاں آپ کو، ذرا بتائیے کہ آپ اپنے وطن(فیض آباد) میں سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئے تھے ، اب کیا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے بعد جب اُن کے چہرے پر ہماری نگاہ پڑی تو محسوس ہوا کہ جیسے ہم نے اُن کے کسی زخم کو کرید دِیا ہو۔!۔۔۔ وہ نگاہیں نیچی کرکےچند ساعت تو خموش رہے ،اس کے بعد جب انہوں نے سَر اُٹھا یا تو ہم نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں چھلکی پڑ رہی تھیں اور رُندھے ہوئے لہجے میں بزرگوار نے کہاکہ’’ میاں! ہم لوگ جو تصور کرکے یہاں آئے تھے وہ سب ہمار ا خواب و خیال ثابت ہوا، بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ا ب تک زخم سہہ رہے ہیں اور پتہ نہیں یہ زخم کب تک لگتے رہیں گے ، کل ہم نہ ہوں مگر ہماری نئی نسل کس کس طرح سے اس زخم کو سہے گی۔۔۔کچھ کہا نہیں جاسکتا‘‘۔۔۔ پاکستان کے اس سفر کو ضمیر احسن صاحب سے ملاقات کوکئی برس گزر گئے مگر اس کے مشاہدات و تجربات ہمارے ذہن و قلب سے اب تک محو نہیں ہوئے ۔ کراچی ایر پورٹ پر ہم نے جو مناظر دیکھے ، آج بھی جب اُن کا تصور کرتے ہیں تو دل سے آنکھ تلک ایک نمی ہی نمی محسوس ہوتی ہے۔ کراچی ایر پورٹ پر ایک بوڑھی خاتون کا بیٹا اسے لینے پہنچا تو دونوں کی حالت دیدنی تھی۔ پتہ چلا کہ کوئی بیس برس بعد دونوں مل رہے ہیں، کوئی بھائی تیس برس بعد اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا اور بہن بلک رہی تھی، کوئی بھائی اپنے بھائی سے چالیس برس بعد مل کررو رہا تھا۔ یہ تو ایر پورٹ کی چشم دید مناظر تھے، جو وہاں ایک ماہ کے قریب رہ کر دیکھا اور محسوس کیا وہ الگ رُوداد ہے۔۔۔ ہما رے قریبی عزیزوں میں وا لد ِمحترم کی خالہ اور خالو پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ ہم جب کراچی میں اپنے والد کی خالہ کے گھر گئے اور دروازے پر بیل دبائی تو ان کا نبیرہ باہر نکلا ، اس کو ہم نے بتایا کہ بمبئی سے آیا ہوں، یہ سوچ کر اپنا نام نہیں بتایا کہ یہ ہمارا چچا زادا ور(والد کی خالہ) دادی ہمارے نام سے نا واقف ہوں گی۔ سو ہم نے اپنے والد کا نام لیا کہ میرے والد جمیل۔۔۔! دادی کواڑ کی سَنَن (دراز)سے سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھیں، دروازہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں تھا، ہم نے جیسے ہی اپنے والد کا نام لیا۔۔۔ اُدھر کواڑ کی آڑ سے ایک سِسکی کے ساتھ یہ سنا کہ’ ارے اس کو اندر بلاؤ‘۔۔۔! ہم اندر پہنچے تو دادی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جیسے برسات ہو رہی تھی ،وہ ہمارے ماتھے کو چوم رہی تھیں، کب آئے اور سامان کہاں ہے ۔؟ ہم مولانا انجم فوقیؔ بدایونی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے، اسی سفرمیں بقرعید بھی آئی اور دادا دادی نے بہ اصرار کہا کہ میاں ! ہمارے ہاں کوئی نہیں ہے ، لہٰذا آپ بقرعید میں یہیں رہیے، قربانی ہونی ہے، اس موقع پر آپ کے ہونے سے ہمیں آسانی ہوگی ۔ اس کے بعد انکار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بقرعید سے ایک دن قبل بازار سے ریڈی میڈ کرتا اور شلوار منگوائی گئی ،عید کے دن اسے ہمیں پہننے کو کہا گیا،ہمیں کانپور میں اپنا بچپن، اپنے ماموں اور نانی کی شفقت یاد آگئی، یہی نہیں کراچی سے رُخصت سے پہلے ایک شام وہ بازار لے گئیں یہ کہہ کر کہ میرے دانت میں درد ہے، وہاں ایک ڈاکٹر ہے اس کے ہاں لے چلو، وہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ دیکھو اس لائن میں کوئی ایر بیگ بیچ رہا ہوگا ،یہ روپے لو اور درمیانی سائز کا ایک ایر بیگ خرید لاؤ۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی، گھر پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ہمارے گھر کے تمام لوگوں کےلئے کپڑے اور دیگر اشیا اس میں بھری گئیں اور کہا گیا کہ اسے بمبئی لے جانا، ہم چپ چاپ یہ سب دیکھ رہے تھے، کرسی پر ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے ،ہم نے دیکھا کہ وہ اعلیٰ درجے کی پلاسٹک کی ایک چپل کو دیکھ رہی ہیں اور پھر ان کی نظر ہمارے چہرے پرپڑتی ہے۔ ہم یہ معاملہ سمجھنے سے قاصر تھے ، ہم نے پوچھ ہی لیا کہ دادی کیا بات ہے۔ ؟ کہنے لگیں کہ میرے پاس کئی چپلیں ہیں یہ بہت دنوں سے پڑی ہے، میرے پیر سے کچھ بڑی ہے ، اسے بھی لیتے جاؤ وہاں کسی نہ کسی کے پیر میں آہی جائے گی، میں نے بس ایک آدھ بار ہی پہنی ہے ۔ ہم نےمسکراتے ہوئے کہا : دادی ! شکر ربی ،گھر پر سب کچھ ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر آپ دینا ہی چاہتی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔مختصر یہ کہ انہوں نے انگریزی اخبار میںوہ چپل لپیٹی اور ایر بیگ میں رکھ دی۔ دادا جو اُس وقت صاحبِ فراش تھے، پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے، آواز دی ، میاں ! یہاں آئیے۔ ہم قریب گئے، اُنہوں نے پوچھا:بمبئی جارہے ہو؟ ہم نے تبسم کے ساتھ ’’جی‘‘ کہا۔۔۔ انہوں نے کہا’’کیا دوں؟‘‘ ہم نے کہا: دُعائیں، جواب ملا: وہ تو ملیں گی ہی، معاً انہوں نے تکیے کے نیچے سے برطانیہ میں بناہواسنہری قلم Parker45نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور کہا:’’ میاں! اس سے میں نے الہٰ آباد میں کوئی دس برس سے زائد مدت لکھا ہے اور کم و بیش اتنی ہی مدت یہاں استعمال ہوا ہے اور اتنی ہی مدت مجھے ریٹائر ہوئے ہوگئے۔ آپ شاعری، کرتے ہیں، اخبارمیں کام کرتے ہیں!! یہ لیجئے اس پر آپ کا حق ہے‘‘ ۔اتنی باتیں سننی تھیں کہ دل پر بادل چھائے اور آنکھوں کے راستے برس پڑے، ہم نے دادا کا ہاتھ چوما اور وہ قلم لے لیا پھر دیکھا کہ دادا کے چہرے پر تبسم کا نور پھیلا ہوا تھا۔
اس واقعے کو برسوں ہو رہے ہیں ،اب وہ زمانہ آگیاہے کہ اخبار کے دفتر میں قلم کا کام ہی بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے، سب پر کمپیوٹر نے قبضہ کر لیا ہے، لیکن جب بھی دادا کی باتیں یاد آتی ہیں تو الماری سے و ہ قلم نکالتا ہوں،اس میں ریفل ڈلواتا ہوں اور دادا کا نام ’محمد‘ لکھ کر پھر قلم جیب میں رکھ لیتا ہوں۔ اس موقع پر بشیر بدر ؔ بے طرح ذہن میں اپنے اس شعر کے ساتھ جلوہ افروز ہیں؎
جانے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لئے
کبھی چاندی، کبھی سونے کے قلم آتے ہیں
قلم کا کام بے شک کم ہوگیا ہے مگر قلم کی اہمیت تو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔۔۔ تقسیم ِوطن اور قیام پاکستان کی تو ایک طویل کہانی ہے جس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اس سے متعلق کئی باتیں ایسی ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ یہ کبھی کبھی آموختہ ہو تی رہیں ۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ اُس وقت مسلم لیگ کے کئی لیڈر ایسے تھے کہ جن کی زبان پر بس ایک ہی نعرہ تھا: ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ اس کے برعکس مسلمانوں ہی میں کچھ ایسے لیڈر بھی تھے جو تقسیم ِ وطن کے خلاف تھے ۔ انہی میں سے ایک شخص ،جن کا خاصا دبدبہ تھا، وہ ہر جلسے میں تقسیم ہند کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک رات شہر کے جلسے میں انہوں نے بڑے سخت لہجےمیں تقسیم کی مخالفت کی مگر کیا اس کے برعکس ، جب انہیں یقین ہوگیا کہ پاکستان تو واقعی بن رہا ہے تو موصوف دوسری صبح شہر میں نہیں تھے بلکہ پاکستان کی طرف کوچ کر چکے تھے۔ بالآخر14 ؍اگست1947 کو پاکستان وجود میں آ ہی گیا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے ذہنوں میں مرتسم ہے، جس واقعے کا ہم آموختہ کرنے جا رہے ہیں اس سےبھی اکثر باذوق لوگ واقف ہیں کہ جب مہاجر قافلوںکی گرد تھمی اور کراچی کے ایک مشاعرے کیلئے کانپور سے فنا ؔنظامی مدعو کیے گئے ، اس مشاعرے کے ڈائس پر وہی مذکورہ قائد جو راتوں رات یہاں سے کراچی ہجرت کر گئے تھے، وہ مہمان ِخصوصی کے طور پر جلوہ گر تھے۔ فناؔ نظامی کو جب مائیک پر زحمت دِی گئی تو انہوں نے ہی اُٹھ کر فنا ؔکا خیر مقدم کیا۔ فناؔ نظامی کا پڑھنا پرانوں کے ذہنوں میں یقیناً ہوگا، اُنہوں نے اپنی غزل شروع کی ؎
گھر ہوا، گلشن ہوا صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رُسوا ہوا
اس کے بعد انہوں نےحاضرین کی توجۂ خاص چاہی اور مہمانِ خاص کو مخاطب کرتے ہوئے جب دوسرا مطلع پڑھا تو مشاعرے میں جیسے آگ لگ گئی ،واہ کی بجائے آہ بلند ہوئی اور بار بار یہ مطلع پڑھوایا گیا۔ فناؔ نظامی ایک مزاج کے آدمی تھے، اس آہ پر انہوں نے ایک تیر اور چلا یا وہ یوں؎
پرسشِ غم آپ رہنے دِیجیے
یہ تماشہ ہے مرا دیکھا ہوا
اس شعر پر بھی مجمع مکرر مکرر ہی کہہ رہا تھا اوراُ دھر مہمان خاص کا اُترا ہوا چہرہ بھی دیدنی تھا۔
جس مطلع پر مشاعرے میں آگ لگی تھی، ستر برس پرانے پس منظر کے باوجود اب تک باسی نہیں ہوا ،وہ یوں ہے؎
غیرت ِ اہل چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا
پاکستان میں ہم نے اکثر لوگوں کی زندگی میںخوش حالی دیکھی، ہم ہندوستانی مسلمانوں کا توآشیا ں اب تک جل رہا ہے لیکن ہم دعا گو ہیں کہ خدا کرے ہمارے ان تمام اعزہ کی خوشیاں اور خوش حالیاں قائم و دائم رہیں۔