میں کیسے لکھوں؟ کیسا ملا؟ درد جگر کا!
اس روحِ فسردہ پہ لگا گھاوہے گہرا
کیا دل پہ گزرتی ہے بتائوں میں تجھے کیا
آنکھوں سے رواں اشک ہیں یا خون کا دریا
رحلت کی خبر تھی کہ تھا بھونچال کا جھٹکا
میرے لیئے تو جیسے قیامت ہوئی برپا
فانی ہے یہ دنیا یہاں ہر اک کو ہے مرنا
لیکن میں بتائوں تجھے کیا مجھ کو ہے بھرنا
وہ تیری شفقّت ، وہ رفاقت وہ سنبھالا
تھا جیسے شب تار میں بھی دن کا اُجالا
گلہائے تبسم کا لبوں پر تھا بسیرا
اک علم کا ساگر تھا ہر گفتار تمہارا
مقصد تھا زندگی کے باغِ حق کو سجانا
باطل کے آگے سر کو جھکا کے نہیں رکھنا
وحدت و رسالت ہی تھا ایمان تمہارا
قرآن اور سنت پہ عمل دل کا سہارا
صفات ترے نیک، تھا اللہ کا پیارا
دل میں ہمیشہ مؤجزن تھا اسکا وظیفہ
اقلیمِ ربط و ضبط وایماں کا شہنشاہ
دنیا کی لغزشنوں سے بلند اور تھا بالا
کیا داد تمہاری دوں زباں کو نہیں یارا
اللہ سے دعا ہے، ہو جنت میں بسیرا
بچوں کی زندگی میں بھی دیکھوں وہ نظارا
وہ حِلم جو تم نے ہے انکی روح میں اُتارا
وہ عکس تمہارا ہیں اور انعام خدا کا
جو غم انہیں ملا ہے غمِ دل ہے وہ میرا
سید شبیر حسین شبیرؔ
گلشنِ سادات شری بٹ سرینگر