ایڈوکیٹ کشن سنمکھ داس
جدوجہد، محنت اور ہنر انسانی زندگی کے تین ہتھیار ہیں جو زندگی میں کامیابی کے بنیادی منتر ہیں، ان تینوں منتروں کے زور پر ہر انسان اپنی زندگی کی گاڑی کو منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی سیڑھی چڑھنی پڑتی ہے، اس سیڑھی سے ہم کئی بار پھسل بھی سکتے ہیں، لیکن اگر کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ اور ہمت ہو تو پھسلنے کے بعد دوبارہ کھڑے ہو کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ سیڑھیاں چڑھنے کوہی جدوجہد کا نام دیا گیا ہے، اس کے ذریعے ہم یقینی طور پر کامیابی کی اس سیڑھی کے آخری پہیے تک پہنچ سکیں گے اور اپنی، اپنے خاندان اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں گے۔ اگر ہم چیونٹی سے محنت، بگلے سے کرتب اور مکڑی سے کاریگری سیکھنے کی بات کریں تو چھوٹی چیونٹی ایک ماہ تک محنت کرتی ہے اور پورا سال اپنی زندگی آرام اور بے فکری سے گزارتی ہے۔محنت کے بغیر زندگی خوشگوار اور بے فکر نہیں ہو سکتی، یہی اس ننھی چیونٹی کی زندگی کا سبق ہے۔بگلا اگرچہ اپنے دکھاوے کے لئے جانا جاتا ہے لیکن بگلےکا ڈھونگ انسان کو بہت بڑا سبق بھی سکھاتا ہے۔ راستہ بدلو مگر منزل مت بدلو۔ بعض اوقات بہت زیادہ محنت کے بعد بھی کام پورا نہیں ہوتا، لیکن وہی کام کم محنت سے پورا کیا جا سکتا ہے، اسے کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف ایک چال یا طریقہ ہونا چاہیے۔دنیا کا ہر جاندار اپنی پناہ گاہ اور خوراک کا انتظام اپنے طریقے سے کرتا ہے لیکن مکڑیوں سے اپنا جالا بنانا کافی دلچسپ اور بہت مشکل ہے، ہمیں ان مشکل حالات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ان سے خوبیاں سیکھنی ہوں گی۔
اگر ہم اپنی زندگی کی جدوجہد کی بات کریں تو ایک چھوٹی چیونٹی جب دانہ لے کر چلتی ہے، دیواروں پر چڑھتی ہے تو سو بار پھسل جاتی ہے۔ ذہن میں یقین رگوں میں ہمت بھر دیتا ہے، اوپر چڑھنا اور گرنا، گرنے کے بعد اوپر نہ چڑھنا، تکلیف دہ ہے۔ آخر کسی کی محنت رائیگاں نہیں جاتی، کوشش کرنے والے ہارتے نہیں۔ زندگی جدوجہد کا دوسرا نام ہے ایک بات ہمیشہ یاد رکھو، اپنی منزل کا آدھا راستہ طے کر کے پیچھے مڑ کر مت دیکھو باقی آدھا فاصلہ پورے جذبے اور ایمان کے ساتھ طے کرو، بیچ میں لوٹنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ واپسی پر تمہارے پاس ہوں گے۔ صرف اتنا فاصلہ طے کرنا جس سے آپ ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔
جدوجہد ہمیں زندگی کے نشیب و فراز کا تجربہ کرواتی ہے، اچھے بُرے کی پہچان کرواتی ہے، مسلسل متحرک رہنا سکھاتی ہے، وقت کی قدر سکھاتی ہے، جس کی وجہ سے ہم تحریک کے ساتھ دوبارہ اپنے مقصد کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ بااختیار بنائیں اور زندگی جینے کا صحیح طریقہ سیکھیں۔ آگے بڑھنے میں کامیابی نہ ملے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کم از کم تجربہ تو نیا ہوگا۔ جدوجہد یہ ہے کہ بار بار شکست کے باوجود ہمت کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھیں۔ اپنی ہر ناکامی سے کچھ سیکھیں اور بے خوف ہو کر اپنی منزل کی طرف بڑھیں، جدوجہد ہماری زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور یہ ہمیں برداشت، حساس اور خدا پسند بناتی ہے، جب تک زندگی میں جدوجہد نہ ہو، زندگی گزارنے کے انداز، حقیقی خوشی کا تجربہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جس طرح پتھر بغیر چوٹ کے خدا نہیں ہے۔ اسی طرح جدوجہد کی حرارت کے بغیر انسانی زندگی نہ پھل پھول سکتی ہے، نہ عروج پر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی مطلوبہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
اگر ہم مکڑی سے دستکاری سیکھنے کی بات کریں تو یہ مثال بھی ہمیں ہمارے بزرگوں نے نسل در نسل، عشروں سے دیا ہے کہ دیکھو مکڑی نے کیسا خوبصورت جالا بنایا ہے، اس کی فنکاری تو دیکھو، ذرا آج جانئے اس مکڑی کے بارے میں آج آرٹ ورک کو ہنر کا نام دے کر ہمیں اپنے انسانی ذہنوں میں یہ بات بٹھانا ہو گی کہ جب ہم سے ہزاروں گنا چھوٹی مخلوق اتنا خوبصورت کام کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔ یہ انسانی سوچ انسانی فکری صلاحیت کے کسی نہ کسی درجے کے بند دروازوں کو کھولنے کا کام کرتی ہے اور ایک بار جب یہ دروازہ کھل جائے گا تو ہمارے پاس ہنر کی طویل کامیابیاں ہوں گی اور ہم سب مل کرملک اور معاشرے کا نام بلند کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
اگر ہم ہنر کی بات کریں تو موجودہ وقت میں ہم ہنر یا کاریگری یا ہنر کا نام بہت سن رہے ہیں، حکومت ہند کی تقریباً ہر وزارت کے پروگراموں کی فہرست میں اسکل ڈیولپمنٹ کا نام ہے۔ ہنر ہاٹ کے انعقاد اور چند ہفتوں تک ہر انسان کے بنائے ہوئے فنون کی نمائش کے لیے وزارت کی جانب سے عالمی سطح پر توسیع کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ جس کے دور رس نتائج ہمیں آنے والے برسوں میں یقینی طور پر نظر آئیں گے۔لہٰذا اگر ہم اوپر کی پوری تفصیل کا مطالعہ اور تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جدوجہد زندگی کا بنیادی منتر ہے۔جدوجہد ہی زندگی ہے۔ آئیے! چیونٹی سے محنت، بگلے سے کرتب اور مکڑی سے ہنر سیکھ کر زندگی گزاریں، آنے والا کل تب ہی اچھا ہو گا جب ہم آج سے اس کے لیے محنت کریں گے۔
(مضمون نگار مصنف، مفکر، شاعرو موسیقی میڈیم ہیں)