بلا شبہ انسان کی ذہنی صلاحیتوںسے دنیا دن بہ دن مستفید ہورہی ہےاور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کے باوصف نئے نئے ایجادات سامنے آرہے ہیں۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی ذہنی صلاحیت سے دنیا اِس ڈیجیٹل حالت میں آئی ہے،جس میںایسے ہیومنائیڈ روبوٹ سامنے آئے ہیں جو مکمل طور پر انسانی کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم انسان کی بنائی گئی اس تکنیکی ٹیکنالوجی سے ہٹ کر خالق کائنات کی تخلیق’’انسان‘‘کی نشوونما کی طرف پر متوجہ ہوجائیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہےکہ ہر انسان اپنی دماغی صلاحیتوںکے مطابق اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے، کیونکہ خالق ِ کائنات نےاُس کی فطرت میں وہ تمام مادے بھر رکھے ہیں جن کی با وصف وہ دنیا کو ترقی کی طرف لے جا رہا ہے،تاہم اس کے لئےانسان کی سب سے اہم ضرورت بہتر ماحول اورنیک صحبت ہے۔ انسان جس صحبت اور ماحول میںرہتا ہے، وہی اُس کا نقشِ قدم بنتا ہے،اُس کے سوچ کا رُجحان ایسا بن جاتا ہےجو مہ صرف اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو بھی وسعت بخشتا ہے۔ ماحول اور صحبت ہی انسان کی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ہر انسان کی یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ اور اُس کے بچے ایسی شخصیت کے مالک بنیں،جن کے نام سے اُنہیں پہچانا جائے۔جس کے لئے ہر والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شخصیت کو نکھاریں اور انھیں اچھی صحبت میں رکھیں کیونکہ ہر بچہ ایک کٹے ہوئے پتھر کی مانند ہوتا ہے،جس میں ایک خوبصورت بُت چھپا ہوتا ہےاور،جسےایک ہنر مند اُستادہی تراش کر خوبصورت مجسمے میں بدل سکتا ہے۔اس لئے بچوں میں اچھی شخصیت کی تعمیر کے لیے اقدار اور قواعد و ضوابط کو اُبھارنا ضروری ہے۔ جس کے لئے سمجھ، صبر، سچائی اور پاکیزگی سے کام لینا لازمی ہوتا ہے تاکہ بچے کے لئے اچھی راہ ہموار ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے، ہزاروں کے مجمع میں بھی وہ اپنی منفرد شخصیت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔چنانچہ فطرت کا قانون ہے کہ ایک انسان کی شکل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، اس کی فطرت، اقدار اور رجحانات میں یکساں تفاوت ہےجبکہ وراثت اور ماحول بھی شخصیت کی نشوونما کے اہم عنصرہوتے ہیں۔ وراثت انسان کو فطری قوتیں عطا کرتی ہےاور ماحول اُسے ان طاقتوں کی تکمیل کے لیے سہولیات فراہم کرتا ہے جبکہ سماجی ماحول کا بھی انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے بچے اپنے اساتذہ یا ہم جماعت سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے ہیں، لیکن وہ ہر اُس چیز کو جذب نہیں کر سکتے جو وہ دیکھتے یا سُنتے رہتے ہیں۔ یہ سب اس قدر متضاد ہے کہ اسے قبول کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ انسان کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سی خوبیاں قابل قبول ہیں اور کن کو ترک کرنا ہوتا ہے۔ انتخاب کا یہ حق ہربچّےکو خود ارادیت کا حق بھی دیتا ہے،تاہم ہر انسان کا ایک ہی واقعے پریکساں ردعمل نہیں ہوتا ہے۔ ایک ساتھ رہنے والے بہت سے نوجوان اسی طرح کے حالات سے گزرتے ہیں، جبکہ ہر نوجوان ان حالات کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے اور اُن کےا ذہان میں مختلف ردعمل ہوتے ہیںاور یہی ردعمل اُن کی زندگی کے نقطہ ٔ نظر کو تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں،گویاوہ خود اپنے آپ کے مالک ہوتے ہیںاور اپنا کردار خود بناتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی میں جدوجہد نہ ہوتی۔ بے شک انسان اپنا کردار خود بناتا ہےاورکردار سازی کے لئےاُسے حالات کو سازگار یا مضبوط بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود ارادیت کی طاقت کو استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم دوسروں کی باتوں یا مشوروںکو غور سے سنیں اور اپنے ذہنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق اپنی تجویز یا جواب دیں۔ اپنے فیصلے خود مکمل کریں کیونکہ بعض اوقات دوسروں کے فیصلوں پر عمل کرنا ناکامی کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ ہمارے الفاظ ہوں یا ہمارے عمل، ہر جگہ مثبت سوچ کا ہونا اچھی شخصیت کی نشوونما کے لئےبہت ضروری ہے۔ مثبت سوچ خود اعتمادی کو بڑھاتی ہے اور شخصیت کو نکھارتی ہے ،زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاؤ آتے ہیں لیکن مثبت سوچ رکھنے والا شخص ہمیشہ صحیح راستے کی طرف گامزن رہتا ہے۔ اچھی صحبت اور ماحول قابلیت کو ثابت کرنے کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے،اس لئے ہر عمر میں بہترماحول اوراچھی صحبت میں رہنا ضروری ہے۔