یہ بات بالکل بجا ہے کہ جس معاشرے کے ا فراد کی زندگی انفرادی و اجتماعی سطح پرباہمی توازن، اعتدال اور انصاف کے اصولوں کے پابند ہ رہتی ہے،اُس معاشرے کا ہر فردخوشحال ہوتاہےاور وہ کامیاب اور فلاحی زندگی گزارتا ہے۔معاشرہ دراصل افراد کے تعلقات، عادات، روایات اور اداروں کے مجموعے کا ہی نام ہےاور ایک مثبت، صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ دراصل اچھے گھروں اور مضبوط رشتوں کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ اگر میاں اور بیوی کےازدواجی رشتے محبت، بھروسے اور ایثار کی بنیاد پر استوارہوں تو معاشرے میں بھی سکون، عدل اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔کیونکہ خاندان، معاشرہ کی پہلی اینٹ ہے، جب یہ اینٹ درست بنیاد پر رکھی جائے تو عمارت مضبوط اور پائیدار بنتی ہے، لیکن اگر یہاں بے اتفاقی، بدگمانی اور خودغرضی جگہ بنا لے تو معاشرے کی پوری عمارت کج ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء، دانشور اور ادباء ہمیشہ خاندان کے استحکام کو معاشرتی ترقی کے لئے بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے رشتے میں باہمی ہم آہنگی کو دنیا بھر کے مذاہب اور تہذیبوں میں مقدس مانا جاتا ہے۔اگر دونوں ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں، اپنی پسند ناپسند کے ساتھ ساتھ دوسرے کے حقوق اور خواہشات کا احترام کریں تو زندگی کی راہیںآسان ہو جاتی ہیں۔باہمی ہم آہنگی نہ صرف اپنے ذاتی سکون کا باعث ہے بلکہ یہ نسلوں کی تربیت کے بھی لئے ناگزیر ہے۔کیونکہ بچے وہی کچھ دیکھ کر سیکھتے ہیں جو اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر گھر میں محبت اور عزت کا ماحول ہے تو بچے بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کریں گے، یوں سماج میں محبت، رواداری اور قربانی کی قدریں پروان چڑھتی ہیں۔ میاں اور بیوی کا رشتہ محض دو افراد کے درمیان محصور نہیں رہتا بلکہ یہ معاشرے کی تشکیل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
ایک خوشحال اور محبت بھرا جوڑا دراصل ایک مثبت معاشرہ تخلیق کرتا ہے۔ ایسے گھروں سے نکلنے والے بچے اعتماد، محبت اور ایثار کی عملی مثال بنتے ہیں۔اس کے برعکس اگر میاں اور بیوی کے بیچ محض رنجشیں، بدگمانیاں اور ناچاقیاں ہوں تو وہ نہ صرف اپنے گھر کا سکون غارت کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں بگاڑ کا بھی سبب بنتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے اندر بد اعتمادی، تشدد اور نفرت جیسی زہریلی شاخیں پھیلنے لگتی ہیں۔ اسلام میں معاشرتی عدل کاایک جامع نظام ہے۔جس میں فرد کی ذاتی آزادی، اس کے حقوق اور اس کےا فرادی اور اجتماعی تعلقات میں توازن کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرتی عدل کی بنیاد پر ہی ایک ایسا معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جس میں فرد کا کردار مضبوط ہو تا ہے اور اجتماعی زندگی کامیاب ہوجاتی ہے۔کیونکہ انسان جب اپنی انفرادی زندگی میں اعتدال اپناتاہے،اپنے معاشرتی حقوق اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرتا ہےتو خود بخود اجتماعی سطح پر بھی یہ توازن قائم ہوجاتاہےاورنتیجتاً معاشرے کے ہر فرد کی زندگی میں سکون اور خوشی آجاتی ہےاور اُس کا ہر عمل اپنی جگہ، اپنی قدر اور اپنی حد میں رہ کر انسان کی فلاح و بہبود کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی کے تمام رنگوں کو اعتدال کے دامن میں باندھ لیتا ہے تو اس کے اندر روحانی سکون، جسمانی صحت اور اخلاقی بلندی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ یہی وہ حسن ہے اور یہی وہ نور ہے جو اندھیروں میں روشنی کا سبب بنتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے خاندانی، معاشرتی اور روحانی فرائض کو اسی اعتدال اور توازن کے ساتھ انجام دیں، جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں نہ صرف دنیاوی زندگی میں کامیابی و خوشحالی عطا کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی ہماری کامیابی کا ضامن بنتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اعتدال و توازن نہ صرف فرد کی زندگی کو سنوارتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو ایک مستحکم اور روشن منزل کی جانب لے جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس الٰہی پیغام کو اپنی زندگیوں میں اُتاریں، تاکہ ہم نہ صرف اپنے لئےبلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جہاں امن، محبت اور عدل کے چراغ روشن ہوں۔