"جوان بیٹی گھر میں ہے، کتنی بار آپ سے کہہ چکی ہوں کہ اس کی شادی کروا دو کہیں۔ آخرکار رشتے بھی تو آ رہے ہیں مریم کے لئے ۔کسی ایک کو ہاں کیوں نہیں کہہ دیتے"
درد کی ماری صائمہ نے اختر کو خوب کھری کھوٹی سنائی۔
اختر نے چائے کا پیالہ ختم کرکے بستہ اٹھایا اور کام پر نکل گیا ۔عید کے موقع پر لوگ شہر سے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے تھے جس کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن پر اچھا خاصا رش رہتا تھا ۔جس کے چلتے اختر بھی اچھی خاصی رقم کمال لیتا تھا۔ اختر ہر روز اپنی کمائی کا دس فیصد حصہ اپنے گھر میں رکھے بکسے میں علیحدہ سے جمع کر دیتا تھا۔
اور یہ کام پچھلے پندرہ سال سے کرتا آ رہا تھا۔ اور پھر کچھ روز بعد عید بھی آ گئی۔ نماز اور دن کی مصروفیات کے بعد اختر دیر شام گھر واپس پہنچا۔
کھانا کھانے کے بعد اختر کو خیال آیا کہ کیوں نہ آج جمع کی گئی رقم کر تھوڑا گن لیا جائے ۔
اس نے صائمہ بی بی کو آواز دی اور اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔ اب دونوں نے جمع کی گئی رقم کو گننا شروع کردیا ۔ رقم کو گننے کے بعد پتا چلا کہ جمع کی گئی رقم تقریبا دو لاکھ دس ہزار روپے کے قریب ہے۔
دونوں میاں بیوی اپنی اپنی جگہ پرامید تھے کہ اتنے پیسے سے تو مریم کی شادی آرام سے ہو سکتی ہے۔ اب جب دونوں میاں بیوی مطمئن ہوگئے تو آئے ہوئے رشتوں پر غور کرنا شروع کر دیا۔
اور آخر کار ایک رشتہ قبول کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ فواد خان صاحب کا صاحبزادہ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر چکا تھا اور خود فواد خان صاحب ایک بزنس مین تھے۔
اختر نے فواد خان صاحب کو رشتے کے بارے میں بتایا اور انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی۔ فواد خان اور اس کا پورا خاندان دوسرے دن اختر کے گھر آ پہنچا۔
اور پھر رشتے اور لین دین کے معاملات پر بات چیت ہونے لگی۔ بات چیت کے دوران ہی فواد خان نے اختر سے کہا
"باقی سب تو ٹھیک ہے یار ! مگر جہیز تو کم سے کم چار لاکھ تک ہونا ہی چاہیے"
فواد کی یہ بات سن کر اختر کی بات اس کے حلق میں اٹک کے رہ گئ ۔اس نے سہمے ہوئے لہجے میں فواد خان سے کہا
"فواد صاحب چار لاکھ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تو مشکل سے دو لاکھ تک کا جہیز دے پاوں گا"
اختر کی یہ بات سن کر فواد ایک دم بول اٹھا
"ارے نہیں بھائی آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ آج کل کون سا دور چل رہا ہے۔ چار لاکھ کا جہیز تو عام شادیوں میں دیا جاتا ہے اور اب یہ تو ہم اس لیے آپ کو چار لاکھ کی بات کہہ رہے ہیں کیوں کہ آپ تو رشتے کے اعتبار سے بھی ہمارے اپنے ہو۔ اگر آپ سے نہیں ہو پائے گا تو کوئی بات نہیں ہم اپنے بیٹے کی شادی کہیں اور کر لیں گے "
یہ سب بولنے کی بعد فواد خان اپنی فیملی کو ساتھ لے کر اپنے گھر کو چل دیا اور یہاں اختر بے یارومددگار اس سوچ میں مبتلا ہو گیا کہ آخر وہ چار لاکھ روپے کہاں سے لائے گا؟۔
وقت گزرتا گیا اور گزرتے گزرتے ایک سال گزر گیا اور اس ایک سال کے دوران مریم کے لئے کئی رشتے آئے مگر سب آکر جہیز کی اس لاعلاج بیماری کے پاس آکر دم توڑ بیٹھتے۔
ادھر اختر بھی اب پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگ گیا تھا۔ رات کو دیر گئے گھر لوٹتا اور صبح جب سب لوگ سوئے ہوتے تو وہ کام پر نکل پڑتا ۔اختر پہلے سے ہی جسمانی طور پر کمزور تھا اور اب زیادہ کام کرنے کی وجہ سے اس کی صحت پر پڑنے والے برے اثرات بالکل نمایاں ہونے لگے۔
اور پھر ایک روز کام کے دوران ہی اختر کو چکر جیسا آیا اور وہ غش کھا کر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھا کا ہسپتال پہنچایا مگر اختر زندگی کی جنگ ہار چکا تھا۔
ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کیا ۔ رپورٹ میں پتہ چلا کہ اختر نے ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھایا اور جسم میں زیادہ خون نہ ہونے کی وجہ سے دل جسم کے ہر حصے کو خون پہنچانے میں ناکام ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے اختر کی موت واقع ہوگئی۔
اختر کی وفات کے بعد مریم کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ اسے اپنے خوابوں کا محل اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹتا ہوا نظر آرہا تھا ۔
اختر اس ایک سال کے دوران صرف پچاس ہزار روپے کما سکا تھا۔ جن کو ملا کر مریم کی شادی کے لیے صرف دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے جمع ہوئے تھے۔ جو کہ مانگے گئے جہیز کی آدھی رقم کے برابر تھے۔
سایمہ بی بی نے اختر کی وفات کے بعد اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔
اور ادھر مریم، جو اپنے والد کی زندگی میں اپنا گھر بسانے کا خواب دیکھ رہی تھی،دھیرے دھیرے اپنے خوابوں کو اپنی آنکھوں میں ہی دفن کرتی چلی گئی۔
اس طرح تیرہ سال کا عرصہ گزر گیا اور اب مریم کی عمر 32 سال سے بھی زائد ہوگئی تھی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مریم کی ماں بھی بوڑھی ہوتی چلی گئی۔اور اس سے بھی اب لوگوں کے گھروں میں کام کاج نہ ہو پاتا تھا۔
اس طرح گھر کی ساری ذمہ داری مریم کے سرآ گئی اور مریم اپنی دو چھوٹی بہنوں اور بوڑھی ماں کا پیٹ پالنے کے لئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگ گئی۔
اس کام نے مریم کو اتنا مصروف رکھا کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی بہاروں اور خزانوں کا کچھ حساب نہ رکھ پائی۔
تنکا تنکا جوڑ کر اُس نے دو چھوٹی بہنوں کی شادی کے لئے تھوڑا بہت جہیز تیار کیا۔ پھر دنیا کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے بڑے گھرانوں میں نہ سہی، لیکن شریف گھروں میں دونوں بہنوں کو بیاہا۔ اپنی بہنوں کے چہروں سے اُٹھے والی طمینانیت کے رنگوں سے اپنی زندگی کی خیالی بہاروں کو سجانا ہی اسکا معمول ہے۔
رابطہ؛ مغلمیدان کشتواڑ
طالب علم گورنمٹ ڈگری کالج کشتواڑ