میں ہندوستان ہوں، ہمالیہ میری سرحدوں کا نگہبان ہے، گنگا میری پوترتا کی سوگندھ، تاریخ کے آغاز سے اندھیروں اور اُجالوں کا ساتھی رہا ہوں میں ۔ سنگ مرمر سے لپٹی چادریں گواہ ہیں کہ جب جب ظالموں نے مجھے لوٹا، اس وقت محبت کرنے والوں نے مجھے سنوارا بھی ،نادانوں نے مجھے زنجیریں پہنائیں اور مجھے چاہنے والوں نے انہیں کاٹ پھیکا، محبت اور نفرت کے کئی پڑاؤں سے ہو کر میرا قا فلہ گزرا ، میں نے مسلمانوں کو دیوالی تو ہندوؤں کو ایک ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل پایا۔ میں نے کئی سلطنتوں کے عروج دیکھے تو کئی ایک کے زوال ، کچھ خوش نصیب دیکھے تو کئی بد نصیب بادشاہوں کو بھی دیکھا۔ اسی میں ایک وہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرتھے جنہوں نے خود اپنی بدنصیبی کا ذکر یوں کیا ؎
کتنا ہے بد نصیب ظفر ؔدفن کے لئے
دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں
جی ہاں، دہلی کے تخت پر بیٹھا ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا آخری چشم و چراغ 7 ،نومبر 1862 ء کو ہمیشہ کے لئے گل ہوگیااور اپنےپیچھے چھوڑ گیا اپنی بدنصیبی کی داستان1526ء میں عہد سلاطین کا خاتمہ کر کے ظہیر الدین محمد بابر نے پہلی بار ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کو قائم کیا۔یہ دور حکومت1857 ء میں بہادرشاہ ظفر کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ہی تین سو اکتیس برس طویل مغلیہ سلطنت کا خاتمہ تھا۔ ـ اگر 1857 ء کی جنگ میںجان بازوں کو شکست نہ ہوتی تو یہ سلطنت کا خاتمہ بھی نہ ہوتا۔ساٹھ سال کی عمر میں دہلی کے تخت پر بیٹھنے والا یہ مغل حکمراں اردو ادب کا ایک بلند پایا شاعر تو تھا لیکن اپنی بیس برس کے دور حکومت کے بعد بھی ایک مضبوط لیڈر سیاست داں نہ بن سکا ـ۔بہادرشاہ ظفر پیدائش: 24 اکتوبر 1775ء۔وفات: 7 ،نومبر 1862۔وا لد کا نام : اکبر ثانی ،زوجہ کا نام : زینت محل۔
بہ حیثیت ایک مرد مجاہد بہادر شاہ ظفر ظالم انگریزوں کے خلاف آخری وقت تک لڑ تا رہا۔فرنگیوں نے بہادر شاہ ظفر پر بے انتہا ظلم ڈھائے ایسےکی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کئی نہیں ملتی-
1857ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بعد انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو دعوت پر بلایا، ظفر انگریز سازش سے انجان اس دعوت کو ایک عام دعوت سمجھ کر قبول کر بیٹھے، جب جنرل کے یہاں پہنچے تو ان کے سامنے کپڑے سے ڈھکے کچھ برتن پیش کئے گئے ،ان برتنوں سے کپڑا ہٹا تو اس میں بڑے بیٹے کا کٹا ہوا سر تھا ۔ بادشاہ ظفر کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ان کے سبھی بیٹوں کو قید کر ان کا فرنگیوں نے سر قلم کر کے ان کے سامنے اس لئے پیش کیا کہ ہمارے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا انجام اسی طرح سے ہوگا۔ بہادر شاہ ظفر نےنم ناک آنکھوںسے اپنے لخت جگر کے سروں کو دیکھا اور درد بھرے لہجے میں ان کے لئے دعا کرتے ہو ئے کہا تیمور کی اولاد باپ کے سامنے ایسے ہی فرض ادا کرتے ہیں سرکٹ جانے پر ظالموں کے سامنے جھکا نہیں۔کتنا مشکل ہوگا وہ وقت جب ایک سلطنت کے بادشاہ کے سامنے اس کے ہی بیٹوں کے کٹے ہوئے سر رکھے ہوں اور ایک باپ نم دیدہ ہو ۔ جس باپ نے محلوں میں اپنے بچوں کو بڑے لاڑ اور پیار سے پالا ہو اور ان کی ہر خواہش پوری کی ہو،وہ باپ جو اپنے بعد مغلیہ سلطنت کو آگے بڑھانے کے لئے ان کے سروں پر حکومت کا تاج پہنانا چاہتا تھا ،آج بے بس کھڑا اپنے جگر کے ٹکڑوں کے سروں سے خون بہتا دیکھ رہا ہے۔اس کے بعد ظالم فرنگیوں نے ان سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا ۔ انگریز سینا پتی نے بہادر شاہ ظفر کو دھوکے سے بلایا اور گرفتار کرکے رنگون کی جلاوطنی پر بھیج دیا۔
بہادر شاہ ظفر کو قید کر 17 اکتوبر 1858ء کو سمندری راستے سے رنگون لے جایا گیا ۔ان کے ساتھ شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تھے۔ ینگون پہنچنے کے بعد وہاں کا انچارج کیپٹن نیلسن ڈیوس دنیا کے تیسری بڑی سلطنت کے آخری سلطان کو ساتھ لئے اپنی رہائش گاہ پر آیا ۔نیلسن نے بوڑھے اور بیمار بادشاہ کو اپنے گھر کے پیچھے ایک چھوٹے کمرے میں بند کر دیا۔یہی وہ کمرہ اور قید خانہ تھا جہاں بہادر شاہ ظفر 1862ء تک چار سال رہے۔ اسی بند کوٹھری اور تنہائی میں مشہور غزل’’ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں ‘‘ لکھی۔ بہادر شاہ ظفر کی یہ غزل زندگی کے آخری وقت میں اُن کے دل کا درد بیان کرتی ہے ؎
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ِناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید تھی لکھی فصل بہار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل ِداغ دار میں
اک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں
کانٹے بجھا دیئے ہیں دل لالہ زار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہیں اور شام ہوگئی
پھیلا کے پاؤں سوئے گے کنجِ مزار میں
کتنا ہے بر نصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ مل سکی کوئے یار میں
آخر 7 نومبر، 1862 ء کا وہ خشک دن نکل ہی گیا جس دن بہادر شاہ ظفر کو ظالم انگریز حکمرانوں کی قید سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی ملنے والی تھی، بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں جنرل نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی، جب جنرل باہر آیا تو بہادر شاہ ظفر کی خادمہ نے اس کے قدموں میں گر کر کہا کہ بادشاہ شدید بیمار ہے، شاید آخری وقت بھی ہو، موت سے پہلے بادشاہ آزاد ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے کوٹھی کی کھڑکی کھلوا دے۔جنرل نے اپنے ہمراہ گارڈ کولیااور کو ٹھی میں داخل ہوا، اندر بدبو، موت کا سکوت اور خاموشی دیکھ کر آگے بڑھا اور بادشاہ کے چہرے کو دیکھا ۔اس نے اپنی زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارہ گی اور غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ جنرل نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا تو وہ سمجھ گیا کہ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ نیلسن نے بادشاہ کی آخری رسومات کی ادائیگی کا حکم دیا۔ اس کے لئے حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو بلوایا گیا ۔انہوں نے بادشاہ کو غسل دیا، کفن پہنایا بادشا ہ کی نماز جنازہ پڑ ھائی لیکن جب قبر کا مرحلہ آیا تو پورے ینگون شہر میں آخری مغل بادشاہ کےلے دو گز زمین دستیاب نہیں ہو پائی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی مٹی میں دفن کر دیا۔سامنے بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے اور قریب ہی کھڑے حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے شاید اس دن کو یاد کیا ہوگا جس دن بڑی ہی دھوم دھام سے بادشاہ سج دھج کے دہلی کے تخت پر بیٹھے ہوں اور پورے ملک سے لاکھوں لوگوں نے بادشاہ سلامت کو مبارک باد پیش کی ہوگی۔ ایک وہ دن اور ایک آج کا دن !قسمت کا کھیل بڑا نرالا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ جو سزا بہادر شاہ ظفر کو دی گئی تھی کیاوہ دُرست تھی؟ان کا قصور کیا تھا؟ بس یہ کہ انہوں نے ملک کی ریاستوں کے حاکموں اور سرداروں کو انگریزوں کے خلاف متحد ہوکر اپنے وطن کو انگریزوں کی غلامی سے بچانا چاہا تھا ۔انگریز کے ناپاک قدم سرزمین ہندوستان میں پڑنے سے روکنا چاہا تھا۔ شہنشا ہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر تمہاری شہادت کو سلام، تم نے 1857ء میں پہلی جنگ آزادی کی جو مقدوربھر کوشش کی تھی اور ہمت دکھائی تھی وہی ہمارے کام آئی اور ہم نے تمہارے آزادی کے ادھورےخواب کو پورا کیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت اور ظلم استبداد کے خلاف دونوںمسلم وغیر مسلم ہندوستانیوں نے اپنی بہادرانہ مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا ،یہ مزاحمت رفتہ رفتہ ایک زبردست عوامی تحریک بن گئی جو ہندوستان کی آزادی پر منتج ہوئی کہ انگریز جیسی طاقت ور سلطنت کو سر زمین ِ ہند سے دیر سویرکوچ کر نا پڑا ۔ یہ ان قربانیوں کا ہی نتیجہ تھا جو بہادر شاہ ظفراور ان کے جیسے دیگر شرکائے تحریک آزادی نے پیش کی تھیں ۔ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اب ہندوستانی کسی حال میں غیر ملکی حکمرانوں کو قبول نہیں کریں گے اور آزادی لے کر رہیں گے۔24 /اکتوبر بہادر شاہ ظفر کا یوم پیدائش ہے، سارے محب وطن ہندوستانی انہیں دل کی عمیق گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیںاور دعاگو ہیں کہ الله رب العزت انهیں جنت الفردوس میں اعلی مقام دے۔
مدرس سلیم اردو ہائی اسکول، شیونہ، اورنگ آباد (مہاراشٹر)