ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر مُلک میں گداگر موجود ہیں ،فرق بس اتنا ہے کہ مغربی ممالک کے گداگر یا بھکاری گِٹار بجاکر یا کوئی کھیل تماشہ دکھاکربغیر کسی حُجت بھیک مانگتے ہیں اور ایشائی بھکاری اداکاری ،زبان اور اپنے جسمانی نقائص کو بہانہ بنا کر گداگری کے پیشے میں چار چاند لگا رہے ہیں۔
ہمارے اس کشمیر میں بھی بھکاریوں کی کمی نہیں ہے۔خاندانی بھکاری بھی ہیں،جسمانی طور معذور بھکاری بھی ہیں اور غریب و مُفلس بھیک مانگنے والے بھی ہیں،لیکن اب یہاں اُن بھکاریوں کی تعداد تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جو اپنی پیٹ کی آگ بُجھانے یا کسی نہایت مجبوری کے سبب بھکاری نہیں بنے ہیں بلکہ گداگری کا پیشہ اُن کے لئے جہاں بے حد نفع بخش کاروباربن گیا ہے وہیں ایک ایسا نشہ بن چکا ہے کہ مرتے دَم تک اب وہ اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ۔شہرو گام میں دوڑتی بسوں میں دیکھئے ،کسی بس اسٹاپ پر اچانک کوئی نوجوان ایک ہاتھ میں کسی اجنبی کی تصویر اور دوسرے ہاتھ میں کسی ہسپتال کا ایڈمشن کارڈ اور کچھ پھٹے پُرانے ڈاکٹری نسخے لے کر اس بستی کے کسی شاطر سیاست دان کی طرح ایسی پُر اثر تقریر جھاڑ دیتا ہے کہ پوری بس کو رام کرکے سو ڈیڑھ سو روپے لیکرہی اُتر جاتا ہے۔اسی طرح بعض بھکاری گروپوں کی صورت میں اپنی موٹر گاڑیوںمیں گھوم گھوم کردرد بھری التجائوں کے تحت نقد و جنس جمع کرتے رہتے ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے تو آج انسان کے اخلاقی اقدار کو ختم کرنے والا محض پیسہ ہی ہے۔ ہر طرف جھوٹ، ناانصافی اور رشوت خوری عام ہے، لوگ چند پیسوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنا ا یمان خراب کررہے ہیں، ہر انسان اسی دوڑ میں ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ پیسہ ہو، چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے آئے۔ گو کہ انسان سستا ہوگیا ہے اور پیسے کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ آج کا انسان پیسے کی خاطر اپنا خاندان ، بہن بھائی یعنی اپنے خون کے رشتے تک چھوڑدیتے ہیں جبکہ کئی اپنے ایمان و غیرت کا بھی سودا کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ظاہر ہےکہ ہر ایک کو صرف اپنی پڑی ہے، معاشرےکے اجتماعی مستقبل کی فکر ہم میں اکثر کو نہیں ہے۔ اسی لئے توہمیں مسجد وں ، درسگاہوں اور مدرسوں کے لئے کشکول گدائی لئے پھرنا پڑتا ہے۔وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس اپنے اسکول کالجز نہیں ہیں، ہمارےاپنے خیراتی اسپتال نہیں ہیں، ہمارے پاس بڑے بڑےیتیم خانے نہیں ہیں، نفسیاتی مریضوں کے علاج کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے، طلبہ کے لئے اسکالر شپ کا کوئی انتظام نہیںہے۔ اگرچہ ہمارے یہاں سرمایہ داروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجوداکثریت غریبوں کی ہےجبکہ ایک خاصی تعدا دغریبی کی نچلی سطح پر ہے۔ اس لئے مجموعی طور پر معاشرے سے غربت دور کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ منشیات کے لعنت ہمارے نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے لیکن ہمارے پاس اِسے روکنے کے لئے کوئی مناسب ادارہ ،کوئی مضبوط تنظیم نہیں ہے۔ کسی کی آنکھ پُرنم اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ ہم اس صور تحال کو اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ہم صرف اپنی جیب ، اپنا منہ اور اپنا پیٹ بھرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔حالانکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں کسی بھی انسانی مسئلے اور مُشکل کا حل موجود ہے، اس لئے اسلام نےجہاں گداگری کو سختی سے منع کیا ہے وہیں گداگری کو معاشرے سے ختم کرنے کے بھی اصول وضع فرمائے ہیں، شرط بس اتنی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر شروع سے آخر تک بَصدقِ دل عمل کیا جائے ۔اگر صاحبِ ثروت مسلمان ہر سال پوری زکوٰۃ ادا کریں تو گداگری پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر واقعی کوئی حاجت مند ہے تو اس کا حل نکالیں،کیونکہ گداگری جیسی بُری عادت کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہر ایک انسان پر عائد ہوتی ہے، اس بُرائی کے خاتمے کے لیے ہر ایک انسان کو میدان میں آنا ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں اس کے تئیں نفرت پیدا کرنا ہوگا، تاکہ لوگ اس بُری عادت کی طرف اپنا قدم نہ اٹھائے۔حیران کُن امر یہ بھی ہےکہ اگر دنیا کی بیشتر قومیں اپنے اپنے معاشروںکے لئے ٹرسٹ بناکر مل جل کر بڑے بڑے کام کر سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں؟مگر سوال یہی ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے کی فلاح و بہبودی کے لئےایسا کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں؟
بھیک مانگنے کا بڑھتا رجحان
