یہ ہوئی نا بات !نیوزی لینڈ کی جوان سال وزیر اعظم نے عالمی لیڈروں کے برعکس بیانات سے نہیں بلکہ عملی کاروائی کرکے سبھی کوسبق سکھایا ۔اب فرقہ پرستی کا ہوا کھڑا کرنے والے لیڈروں کو شرم آئے نہ آئے پر خاتون عزت مآب نے انہیں بیچ چوراہے ننگا کردیا ۔وہ جو مسلم آبادی پر شکنجہ کس کے الزام ان ہی پر دھرتے ہیں کہ دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں ان کو زور کا جھٹکا زرا زور سے ہی دیا ۔ہمدردی کا با ضابط مظاہرہ ایک طرف اوراذان کی تشہیر دوسری طرف، پیغام محبت ا سطرح سامنے لایا کہ فرقہ پرست لیڈروں کو پانی پانی ہونا پڑا۔یعنی دنیا کو امن پسند اورامن مخالف حصوں میں بانٹ دیا اور کسے نہیں معلوم عالمی برادری امن ہی پسند کرتی ہے ؎
میرا پیغام سیاست ہے جہاں تک پہنچے
اور انجام محبت ہے وہاں تک پہنچے
اور دنیا کے دوسرے سرے پر یعنی بھارت میں مشن شکتی کا پرچار ہوگیا۔ مودی جی ہیں کہ زمین اور فضا کی جنگ سے جی نہیں بھرا تو خلا میں دوڑ لگا دی۔جو ٹیکنالوجی ۲۰۱۱ء میں متعارف ہو گئی تھی، اس پر رنگ روغن کرکے بھگوا رنگ چڑھا کر اپنی ملکیت جتانے ٹی وی اسکرین پر چڑھ بیٹھے کہ بھکت جنو ! اب ہم چوکیدار نہیں خلا مار بن گئے ہیں ۔اب پڑوسی ہوشیار ہو جائیں کہ ہم دور مار بن گئے ہیں ۔بھلے عوام کے لئے سرکار کچھ کرے نہ کرے پر ہم راکٹ سوار ہو گئے ہیں اور اس سب کے عوض ایک بار پھر مودی سرکار کی دہائی ہے ۔پرانے وعدوں پر موٹی سی رضائی ہے، نئے وعدوں کی صفائی ہے۔ آر پار کی لڑائی ہے۔میدان جنگ میں نہ سہی پر ٹی وی اسٹیڈیو کی کمائی ہے۔
امن اور جنگ کے درمیان بٹوارے کی خبروں کے بیچ اپنے ہل برداروں اور قلم دانیوں کے بیچ جو ٹھن گئی کہ ملک کشمیر کے بیچ کا بٹوارا اُن کے درمیان کیسے ہو؟ کیونکہ دونوں اس پر یہ کہہ کر حق جتاتے ہیں کہ اگر کسی نے یہاں بھلا کیا تو ہم ہیں ہمارے سوا کوئی نہیں۔الیکشن کے موسم میں ایک دوسرے پر زیادہ بڑے الزامی میزائل پھینکتے ہیں اور بیان بازی کا بارُود بڑی مقدار میں خرچ کرتے ہیں ۔ جی پی آر ایس سے لیس ایسے بم ٹھیک نشانے پر مارتے ہیں کہ ان سے بچ نکلنا محال ہے ۔اس منظر نامے میں ہل اور قلم دان والوں کا اندرون بیرون ننگا ہوجاتا ہے اور عوام وہ سب جان جاتے ہیں جو ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔اسے کہتے ہیں بیچ بازار دھو دینا۔اپنی تعریف میں بھی کوئی چھوٹے میزائل نہیں داغتے بلکہ ملک کشمیر کو جنت نما بنانے میں جو مضحکہ خیز کردار ادا کیا وہ بھی واضح کردیتے ہیں۔مثلاً دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے دور میں جو جو کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔ خالی خولی بھلا نہیں کیا بلکہ شہر شہر سڑکوں پر سونے کی پرت چڑھا دی۔گائوں گائوں دودھ کی ایسی نہریں بہا دیں کہ بے چارہ فرہاد بھی شرما گیا ۔بستی بستی نلوں سے شہد ٹپکتا ہے ۔جبھی تو اہل کشمیر موٹے تازے فر بہ دِکھتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ وردی پوشوں کی موجودگی کے سبب وہ بیربل کے بھیڑ کی مانند ڈھانچوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اہل سیاست البتہ ایک دوسرے کو کوستے رہتے ہیں ۔ ایک کا الزام ہے کہ دلی دربار کی الماریوں سے اُٹھا کر پوٹا، ژھوٹا(کوٹنے والا )، لوٹا(رشوت خوری )، کوٹا( خاندانی راج) جیسی بلائیں واردِ کشمیر کی گئیں اور دوسری طرف چند مصیبتیں یہاں پر ہی تیار کی گئیں، یعنی پی ایس اے وغیرہ میڈ اِن کشمیر ہیں اور یہ با ضابط شیر مارکہ ہیں اور اس کی تجدید کاری کے تمام حقوق بحق قائد ثانی محفوظ ہیں۔ادھر ہل بردار خود قلم دانیوں پر الزام دھرتے ہیں کہ خود یہ پارٹی میڈ اِن دلی ہے اور اس کو دُلت مارکہ تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم نے از راہ انصاف اور امن و امان کی خاطر یک طرفہ فیصلہ سنا دیا کیونکہ کسے نہیں معلوم یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔ڈر تھا کہ کہیں دونوں طرف سے سرجیکل اسٹرائیک تک نوبت نہ پہنچے اور کیا پتہ سرجیکل موسم میں ایک ہل کا پھل دوسرے کے پیٹ میں گھسیٹ دیں اور دوسرا قلم کو تلوار بنا کر مار کاٹ پر اتر آئے۔اس لئے یہ حل نکالا تھا کہ چلو ہل کا زمانہ اگرچہ ختم ہوکر ٹریکٹر تک بات پہنچی پھر بھی ساری زمین نینشنلیوں کے قبضے میں دیں کہ وہ ہل جوتتے رہیں۔ہمیں بھی معلوم ہے کہ ان کے ہل کا پھل در حقیقت ہمیشہ ہی یہاں کی زمین کے بدلے اہل کشمیر کے سینے پر چلایا گیا جبھی تو یہاں کا ہر سینہ زخمی ہے ، دل اُداس ہے ، جگر پارہ پارہ ہے۔ساتھ میں سارے اسکول کالج دفتر وغیرہ میں اگرچہ اب قلم دوات استعمال نہیں ہوتا کیونکہ زمانہ کمپیوٹر کا ہے پھر بھی ماما بھانجی پارٹی کے ہی سپرد کردیں۔ چونکہ مفتیان بیج بہاڑا کے پاس سیاسی فتویٰ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں، جملہ حقوق محفوظ ہیں ،اس لئے وہ مردِ مومن اور مجاہدین کا قبالہ بھی اپنے نام کر پاتے ہیں ۔ ادھر ہل والے کہاں پیچھے رہتے، انہوں نے بھی اپنے کارکنوں کو مجاہدین جتانے کے لئے ان کی گردن چھری کے نیچے کر ڈالی۔بے چارے کارکن جائیں تو کہاں جائیں ؟پارٹی کا ڈسپلن عزیز ہے قربانی کے لئے گردن آگے کر ہی دیتے ہیں ؎
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
تختے پہ رکھی سری گردن سنبھال کے
مطلب نام کرن کی اس نئی جنگ میں نیشنلی مجاہدین میدان میں اترے ہیں۔ہل والوں نے فاروق مجاہد، اکبر مجاہد، حسنین مجاہد کو لڑ مرو عاشقو کہہ کر مجاہدانہ جنگ پر آمادہ کردیا ۔پر قلم دانی کہاں پیچھے رہتے۔انہوں نے بھی قیوم مجاہد ، محبوبہ مجاہدہ اورآغا مجاہد کو دیوانہ وار مقابلے پر مجبور کردیا ۔مانا کہ ہندوارا بریگیڈ اور لنگیٹ ریجمنٹ بھی کمر کس کے میدان میں ہیں اور سنا ہے کہ سیاسی کاسو CASOکے سبب اکبر مجاہد کو گھیرے میں لیا گیا ہے کیونکہ اس نے سبز رومال میں کوہستانی نمک کے تماشے کو یاد کرکے پاکستان زندہ باد کا نعرہ اکبری بلند کردیا جس کے سبب کنول بردار کپوارہ سے کرنال تک جھنجھنا اُٹھے اور اکبر مجاہد کو مسعود اظہر کے پاس بھیجنے کے لئے راہداری کھولنے کی بات کی ، کیونکہ مملکت خداداد کی بات کرنا دیش دروہ میں شامل ہے۔ادھر جو قلم دانی مجاہد میدان میں پدھارے تو لون کے اکبری نعرے کے جواب میں اپنا نعرہ مجاہدانہ لگایا کہ ہم جماعت اسلامی اور کے ایل ایف کو عدالتی انصاف کے حصول کے لئے بڑے قانونی سورما مہیا رکھیں گے۔ایسے سورما کہ ۳۵۔الف کی شنوائی کے وقت لحاف اوڑھے یہ کہہ کر سوگئے کہ بھائی لوگو! عدالتی زبان ہماری یا د داشت سے بالکل خارج ہوگئی ہے، لیکن اب کی بار دلی دربار کو پیش عدالت لا کر کان پکڑی کروائیں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ قلم دانی مردمومن اور دوسرے مجاہدین کی اٹھک بیٹھک پر مودی شاہ اینڈ کمپنی کی نظر عنایت مرکوز تھی۔اور اس پارٹی بین Ban کو ہٹوانے کے لئے ہم اپنا فتویٰ جاری کردیں گے ،اگر اب کی بار اپنی سرکار بن جائے تو ۔اس لئے اتنی سی گزارش ہے کہ اپنے ووٹ کو ہماری جھولی میں ہی ڈالنے کا اعلان کردیں۔اس بیچ ممتا دیدی کی ملک کشمیر میں بات چیت سے مسلٔہ حل کرنے کے اعلان کا بونس بھی دودھ ٹافی آنٹی اپنے کھاتے ڈالنے کے لئے جھپٹ پڑی۔دیدی میں ہوں جو ملک کشمیر میں تیرے لئے تِلہ پھرن اور وازہ وان کا انتظام کرے گی۔بس تم پہنچ جائو ہم بیٹھ کر مسلٔہ کشمیر کو سیلفی سیلفی لے کر حل کردیں گے ؎
کیا ہی کنڈل مار کر بیٹھا ہے جوڑا سانپ کا
پھن سے چھوٹا زہر ہے روز تھوڑا سانپ کا
اس سب تماشے کے بیچ ہل والے قائد ثانی کو ملک بچانے کی فکر کھانے لگی۔کیا بات ہے کبھی ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہے تھے کہ سارا ہندوستان ان کے پیچھے کھڑا تھا جبھی تو انہوں نے کرسی قبول کی تھی ۔ہندوستان پیچھے کھڑا تھا تو مملکت خداداد پر بم بارود برسانے کی وکالت کر ڈالی بلکہ کشمیر کو بھی گولی مارنے کا ذمہ لیا تھا ۔اب کی بار ملک بچانے کا نیا نسخہ ڈھونڈ نکالا ہے ۔ملک تو تب ہی بچے گا اگر ہل والے الیکشن جیتیں گے، نہیں تو مودی شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ اس کی نہاری بنا کر حلق سے نیچے اتاریں گے ؎
میں چاہتا ہوں لوک سبھا میں پہنچ جائوں
وعدوں سے سار ی سوئی ہوئی قوم کو جگائوں
یہ جو راہداری کی بات چلی تو ہمیں یا د آیا کہ مملکت خداداد والوں نے شاردا پیٹھ راہداری کھولنے کا عندیہ دیا ہے۔مانا کہ اس کی مانگ پہلے سے تھی پر اب کی بار مودی پرچار کے شہ سوار یہ دستار بھی مودی شاہ اینڈ کمپنی کے سر ہی باندھنا چاہتے ہیں جبھی تو کچھ بھکت جن چار قدم آگے ہی بڑھ جاتے ہیں کہ شاردا پیٹھ کی راہداری اپنے ملک کشمیر کا ہی حصہ ہے، اس لئے خان بہادر عمران نے کوئی احسان نہیں کیا ۔اور کچھ تو یہ سوچتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک کے خوف سے شاید یہ راستہ بھی کھلے۔بھارت ورش کے مودی مہاراج تو سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی خوب دیتے ہیں ۔ ادھر بالا کوٹ ، ادھر جماعت اسلامی اور جے کے ایل ایف کو سرجیکل والا بھاگڑ بھلا دکھایا ، ادھر چینیوں نے تیس ہزار نقشے برباد کر دئے جن میں ارونا چل پردیش بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا ۔اس بارے میں مودی اینڈ کمپنی بات چیت کو ہی اصل راستہ بتاتے ہیں ۔کیا پتہ چینی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں سے دور تک اندر پرویش کردیں اور پھر انہیں نکالنا تو کیا ڈھونڈنا بھی نا ممکن ہوجائے کہ کسی گری راج سنگھ کی دھوتی میں چھپ جائیں یا ایڈوانی کی مونچھوں میں ہی پناہ لیں،کیونکہ گری راج کی دھوتی جے این یو والے کنہیا کمار نے ڈھیلی کردی اور خود ایڈوانی کی مونچھیں مودی شاہ اینڈ کمپنی نے اس قدر نیچے گرادیں کہ چھتنار بنا دیں۔ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ خبر دی کہ گری راج مودی شاہ کے پائوں پڑکر التجا کررہا ہے کہ مجھ ناچیز کو بھلے ہی سرحد پار بھیجو پر بیگو سرائے نہ بھیجو یہ لڑکا کنہیا کمار بڑا ظالم ہے۔
بھکت جن مسلم اقلیت کو مملکت خدادد کا ٹکٹ دینا چاہتے ہیں ۔اسی لئے ہریانہ کیا کرناٹک کیا چن چن کے مسلم افراد کی مار پیٹ جاری ہے اور بھکت جن کو کوئی سوال نہیں پوچھتا کیونکہ سوال پوچھنے کا حق کنول برادری نے کب کا اپنے کھاتے میں ڈالا ہے ، مگر بھارت ورش کی وزیر خارجہ کو پاکستان کی دو ہندو لڑکیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔حالانکہ ادھر تو حالات بدلے ہیں ہوا بدلی ہے کہ خبر آتے ہی وزیر اعظم نے فوری کارروائی کروائی ۔مشکوک افراد بشمول نکاح خوان گرفتار ہوگئے ۔اب کوئی کیسے پوچھے کہ میڈم دور بین سے نہیں خورد بین سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سرحد کے اس پار بھی لوگ عتاب کا شکار ہیں کچھ ان کی بھی خبر لیں۔
…………………….
رابط ([email protected]/9419009169)