ٹھاکر شمشیر سنگھ نے اپنی بڑی بڑی موچھوں کو تائو دیتے ہوئے مادھورام سے پوچھا۔’کیوں کیسا رہا آج کا دن مادھو؟ اور سکور کیا ہے؟‘‘۔
’’سر آج سوریہ میں ’ایم‘ پانچ اور ’این‘ تین ۔ مادھورام نے جواب دیا۔ ’ایم ‘اور ’این ‘کو ڈ لفظ تھے جو بڑی اقلیت اور نیچی ذات کے لوگوں کیلئے استعمال کئے جاتے تھے۔ ’’ہوں۔ یہ بتائو کہ چار ہسپتالوں میں ابتک کاسکورکیا ہے؟‘‘ ٹھاکر نے پھر وضاحت چاہی۔ مادھو نے کاپی کھول کے بتایا کہ جو Details ابتک میرے پاس پہنچی ہیں اُن کے انو سار کُل سکور سات سو اُنسٹھ ہے یعنی ’ایم‘ چھ سو نو اور ’این‘ ایک سو پچاس۔
ٹھیک ہے مگر مادھو خیال رہے اس منصوبے کا کسی کو کانوں کان پتہ نہیں چلنا چاہئے۔ ٹھاکرنے راز داری اور نصیحت آموز لہجے میں مادھو رام سے کہا۔
مادھو رام نے ٹھاکر کو اطمینان دلاتے ہوئے بتایا۔ ’’ٹھاکر مہودے ابھی تک سب کاروائی پلان کے مطابق چل رہی ہے اور بھگوان کی دَیا اور متروں کی ساہتا سے آگے بھی ٹھیک چلتی رہے گی۔ سارا شک ہسپتالوں کے عملے کی کوتاہیوں پہ ہورہا ہے۔ کہیں کہیں پہ تو نزلہ انچارج ڈاکٹر اور سپلائیرز پہ گر رہا ہے۔ سر ہمارے کام کرنے والے لوگ بہت وفادار ہیں اور پلان کی نزاکت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ابھی تک ہمارے کسی بھی آدمی پہ شک کی انگلی نہیں اُٹھی ہے۔ میڈیا کے کچھ لوگوں کا اگر یونہی ساتھ رہا تو ہمارا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ ہاں۔ اب ایک مشکل آن پڑی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے بچے سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرانا کم کردیا ہے۔
اس معاملے میں کوئی زور زبردستی نہ کی جائے اور ناہی کسی کو اپنے بچے سرکاری ہسپتالوں میں داخل کروانے کیلئے مجبور کیا جائے۔ ایسا کرنے سے لوگوں کے دِلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور ہمارے لئے چنتا بڑھ جائے گی۔ ٹھاکر نے مادھو کو سمجھایا۔ آپ بے فکر رہئے ٹھاکر صاحب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اچھا تو میں چلتا ہوں۔ آپ بے فکر رہئے ٹھاکر صاحب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اچھا تومیں چلتا ہوں۔ آپکو اطلاع دیتا رہوں گا۔ یہ کہہ کر مادھو رام چل دیا۔
پلان یوں تھا کہ ٹھاکر اور اُس کے کارندوں نے سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی ہونے والے آکسیجن ڈیلروں کے کچھ مخصوص لوگوں کو پھانس لیا تھا تاکہ ہسپتالوں کو فراہم کئے جانے والے آکسیجن کی سپلائی میں تاخیر ہو۔ مزید لائف سیونگ ادویات بھی وقت پہ نہ پہنچنے پائیں۔ اس کام کیلئے اُنہوں نے نہ صرف آکسیجن اور ضروری ادویات سپلائی کرنے والے کچھ مخصوص افراد کو اپنے جال میں پھانسا تھا بلکہ ہسپتالوں کے عملے اور میڈیا کے کچھ لوگوں کو بھی وہ اس جھانسے میں لاچکے تھے۔
اندھیر نگری میں نئی پارٹی نے حکومت سنبھالتے ہی مرکز اور ریا ستوں میں کلیدی عہدوں پہ اپنے مخصوص اور چیدہ چیدہ لوگوں کو تعینات کردیا اور سلسلہ وار طریقے سے اقلیتوں اور نچلی ذات کے لوگوں کی آبادی کم کرنے کے منصوبے مرتب کئے گئے۔ اُن کا خیال ہے کہ اندھر نگری کو صرف ایک مخصوص مذہب اور طبقے کے لوگوں کا ملک بنایا جائے۔ اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پروگرام مرتب کیا گیا جو کچھ مہینوں سے روان دوان ہے۔انہیں یہ اندازہ تھا کہ یہ منصوبہ فوراً زیادہ فائدہ مند نہ ہو کا لیکن اس کی کامیابی کے نتائج کئی سال بعد سامنے آئیں گے۔
مرکزی کمان کہ شہہ اور خفیہ ہدایت کے پیش نظر مرکزی پارٹی والی ریاستی حکومتوں نے اونچی سطح پہ یہ فیصلہ کر لیا کہ اقلیتی طبقے اور نچلی ذات کے لوگوں کے چھوٹے بچوں اور بالخصوص نوزائد بچوں کو ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہی کچھ خاص طریقے سے مروا دیا جائے تاکہ اُن کی آنے والی نسلیں خود بخود گھٹتی جائیںگی اور کسی پر شک کی انگلی بھی نہ اُٹھے مزید اکثریتی طبقے کو منظم کیا جائے۔ یہ فیصلہ لیا گیا کہ اثر و رسوخ رکھنے والے کچھ دیرینہ اور وفادار پارٹی ورکروں کو اس کام پہ مامور کیا جائے اور یہ بھی طے ہوا کہ اگر یہ تجربہ ایک ریاست میں کامیاب ہوا تو اسکا دائرہ دوسری ریاستوں میں بھی پھیلایا جائے۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ریاست کے مشہور سرغنہ ٹھاکر شمشیر سنگھ، جو کہ پارٹی کا وفادار تھا، کا سہارا لیا گیا۔ ٹھاکر کے ہاتھ کئی بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ حکومت اور پارٹی کی پُشت پناہی کی بدولت وہ اکثر جرائم میں تعزیر اور سزا سے بچ نکلا تھا ۔ ٹھاکر شمشیر سنگھ کے زیر سایہ مادھورام جیسے کئی اور لوگ بھی تھے جو دوسرے شہروں میں رہتے تھے اور ٹھاکر کے ٹکڑوں پہ پلتے تھے۔ اپنے ہر فصل کو صیغہء راز میں رکھنے کیلئے ٹھاکر نے مختلف کارندوں کی حرکات کو ایکدوسرے سے پوشیدہ رکھا تھا۔ سب اوچھے کام چھوٹے چھوٹے گروپس سے کروائے جاتے تھے اور ایک گروپ کو دوسرے گروپ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔
ٹھاکر نے اپنا اور اپنی تنظیم کا ڈھنڈورا پیٹنے کیلئے کچھ نیک کام بھی اپنے ہاتھ میں لئے تھے جیسے یتیم و نادار بچوں کی پرورش اور پڑھائی کا خرچہ، یتم لڑکیوں کی شادی، ہرسال تہواروں پر غریب لوگوں کو تحفے و تحائف دینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اس لئے تھا تاکہ عام لوگوں کی نظروں میں ٹھاکر غریب پرور اور نیک سمجھا جائے۔
ٹھاکر کو اپنا دھندا چلانے کے لئے نہ صرف پارٹی سے خوب مالی مدد ملتی تھی بلکہ کئی بڑے تجارتی ادارے بھی اُس کی مدد کرتے تھے۔ اُس نے اپنا کاروبار بہت سی ریاستوں میں پھیلا رکھا تھا۔ کئی شہروں میں اُس کے بڑے بڑے مال، ہوٹل، پیٹرول پمپ اور مکانات تھے، جن سے اُس کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔
ٹھاکر شمشیر سنگھ ادھیڑ عمر کا لمبا تڑنگا آدمی تھا جو دیکھنے میں ہی خوفناک لگتا تھا۔ بیوی کچھ سال پہلے مر چکی تھی۔ دوشادی شدہ لڑکے تھے جو اُس کے پھیلے ہوئے کاروبار کو چلا رہے تھے اور دوسرے شہروں میں الگ سے رہتے تھے۔ ایک بیٹی بھی تھی جو شادی شدہ تھی اور اپنے خاوند اور دوبچوں کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتی تھی۔ خود ٹھاکر محل نما حویلی میں اکیلا رہتا ، ہاں البتہ ساتھ میں پانچ نوکر، دو ڈرائیور، دو خانصاماں، دو بارمین، چار چوکیدار اور آٹھ سیکورٹی گارڈ ہمیشہ گھر میں موجود رہتے تھے۔ اپنی کوٹھی کے وسیع احاطے میں اُن سب کے رہنے کا الگ انتظام تھا۔
ٹھاکر شمشیر سنگھ نے اپنے ایک خاص معتمد دوست دنیش کا کڑ کو گووماتا کی نام نہاد رکھشا کیلئے چند بے کار لفنگے اور مفت خورے نوجوانوں کی ٹولی بنانے کو کہا۔ یہ گوورکھشک پچھلے دو سالوں سے ملک کے کئی شہروں میں پھیل چکے تھے۔ یہ لوگ گائے کو بچانے کے نام پر میں کئی غیر قانون دھندوں میںملوث تھے اور ان کا کام ایک مخصوص طبقے کے لوگوں میں خوف و دہشت پھیلانا اور گائے کے گوشت و پوست سے منسلک دھندے والوں کو معاشی طور پست کردیناتھا۔ ان نام نہاد گوو رکھشکوں نے طاقت کے بل بوتے پر اور حکومتوں کی پشت پناہی کی بدولت کئی لوگوں پر چھوٹے الزامات لگا کے انہیں جان سے مار دیا تھا۔
ٹھاکر کی کوشش کے باعث اور چند حکام کی پشت پناہی کی وجہ سے اُس کا یہ کام بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بخوبی چل رہا تھا۔ ٹھاکر شمشیر سنگھ کو ہر ہفتے مادھو رام سے بچوں کی اموات کے اعداد و شمار مل جاتے تھے اور دنیش کاکڑ بھی مخصوص کوڑ لفظوں پر مشتمل زبان میں گوو رکھشک پارٹی کے کارناموں کی تفصیل بتادیتا تھا اور ٹھاکر یہ تمام تفاصیل اوپر تک پہنچا دیتاتھا۔ اعلیٰ حکام اُس کے کام سے نہ صرف مطمئن تھے بلکہ بے حد خوش بھی۔
حسب معمول آج بھی ٹھاکر اپنے ڈرائینگ روم میں بڑے گائو تکیوں سے ٹیک لگاکے دیوان پر بیٹھا مار پیچی حقے سے کش لگا رہا تھا۔سامنے کرسیوں اور فرش پہ بیٹھے کئی لوگ اُس کے جھوٹے کارناموں پر تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے، جنہیں سن کر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ سب یک زبان ہو کے کہہ رہے تھے کہ ’’ٹھاکر آپ ہمارے اَن داتا ہیں، آپ ہی ہماری سرکار ہیں۔ جب تک ہمارے سر پر آپکا ہاتھ ہے ہمیں کوئی فکر نہیں‘‘۔ ٹھاکر بھی اُنہیں یقین دلارہا تھا کہ جب کسی چیز یا کام کی ضرورت ہو وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اُن کا کام پورا ہو۔ اسی دوران اُسے مرکز سے فون آیا اور اُسے کہا گیا کہ مرکز اور سرپرست تنظیم اُس کے کام سے خوش ہیں۔ مگر بیٹھے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں ٹھاکر فون پر ایسے بول رہا تھا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کس سے بات ہورہی ہے اور کس بارے میں بات ہورہی ہے۔ اصل میں غلط کاموں کے باوجود ٹھاکر کی کامیابی کا راز ہی یہی تھا کہ اُس نے اپنے ہر کام کو انتہائی رازداری سے انجام دیا تھا۔ ہر کسی کے کام کو دوسرے سے پوشیدہ رکھا تھا۔
کچھ دیر بعد سب لوگ ایک ایک کرکے چل دیئے اور اب صرف دروازے پر پہرہ دینے والے باڑی گاڑی ہی رہ گئے کیونکہ ٹھاکر سے ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا۔
شام کو حسب معمول ٹھاکر شمشیر سنگھ نہانے کے بعد اپنے پرائیویٹ بار میں بیٹھ گیا اور اُس کے بار مین نے سکاچ وہسکی کا بڑا پیگ گلاس میں ڈال کے سامنے میز پر رکھ دیا اور سوڈا، آئس بکس وغیرہ بھی سامنے رکھ دیئے۔ اُس نے خود ہی پیگ میں سوڈا اور برف ملا دیئے اور آہستہ آہستہ چسکیاں لینے لگا۔
ٹھاکر کے پرسنل بار میں سوائے چند خاص دوستوں اور کچھ معتمد لوگوں کے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ویسے بھی وہ شام کو اپنے بار میں شراب اکثر اکیلے ہی پیا کرتا تھا۔ اگر ایسے وقت میں کوئی خاص مہمان آجائے تو اُسے بیٹھک میں بٹھادیا جاتا تھا ورنہ عام لوگوں سے کہا جاتا تھا کہ ٹھاکر صاحب پوجا میں معروف ہیں اس لئے اب مل نہیں سکتے۔ فون بھی اس دوران بند کردیئے جاتے تھے، بس صرف ایک پرنسپل موبائل فون آن رہتا تھا جس کا نمبر صرف چند خاص اور قریبی لوگوں کے پاس تھا۔
وہ اب سامنے دیوار پر لگے بڑے ٹی پر خبریں بھی دیکھ رہا تھا۔ اسی دوران موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا دوسری جانب مادھورام تھا۔ ’’سر پچھلے ہفتے میں مزید ایک سو دس بڑھ گئے ہیں۔ جن میں ’این‘ بیس ہیں اور باقی ’ایم‘ ہیں۔ باقی سب کام ٹھیک طرح سے چل رہا ہے‘‘۔
ٹھاکر نے مادھو کی بات کاٹتے ہوئے کہا …’’گڈ، کام جاری رکھو۔ صرف رازداری کا خیال رکھنا، کیونکہ معاملہ نہایت نازک ہے۔‘‘
’’آپ بے فکر رہئے، ہم نے رازداری کا پورا پورا خیال رکھا ہے‘‘۔ مادھو رام نے ٹھاکر کو پورا یقین دلایا۔
’’اور ہاں مادھو …کوڈ الفاظ ’ایم‘ اور ’این‘ کبھی کسی کو پتہ نہ چلیں۔‘‘ٹھاکر نے مادھو سے زور دیکے کہا۔
’’ایسا ہی ہوگا۔ آپ پورا بھروسہ رکھیں۔‘‘
ٹھاکر شمشیر سنگھ خوش تھا کہ ہر کام خوش اصلوبی سے ہورہاہے اور اُمید سے کہیں زیادہ اچھا ہورہا ہے۔ ٹھاکر نے بار مین سے پھر پیگ بنانے کو کہا۔ وہ اب تک چار بڑے پیگ پی چکاتھا اور شراب کے نشے نے ذہن پر غلبہ پالیا تھا۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور وہ پانچوان پیگ پی رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی…
فون اُٹھاکے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ یہ کیا نرملا، اُس کی بیٹی کا فون؟ اتنی رات گئے؟ ’’ہیلو بیٹی خیریت تو ہے نا؟‘‘ ٹھاکر نے حیرانگی سے پوچھا۔
دوسری جانب نرملا دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی۔ ’’پتا جی رینکو ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ ہائے اب میں کیا کروں؟ اُسے کہاں سے لائوں؟‘‘
رینکو اُس کی بیٹی نرملا کا دوسال کا بیٹا تھا، جو اپنے نانا شمشیر سنگھ کی جان تھا۔ ٹھاکر نے پریشانی کے عالم میں پوچھا ’’کیا ہوا اُسے؟ کہاں گیا وہ؟‘‘
’’پتا جی رینکو کو پرسوں ڈینگو بخار ہوگیا اس لئے ڈاکٹر کے کہنے پر میں نے اُسے پاس والے ہسپتال میں داخل کروادیا۔ وہاں اُسے ICUمیں رکھا گیا لیکن آکسیجن وقت پر نہیں آیا جس کے کارکن کئی بچے مر گئے اور ہمارا رینکو بھی بھگوان کو پیارا ہوگیا۔ اب میں کیا کروں؟ منوہر تو بالکل پاگل ہوگیا ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔ اُسے بتایا گیا کہ آکسیجن کا وقت پر نہ آنا ایک سازش ہے ۔ اب منوہر کہتا ہے کہ میں یہ پتہ لگا کے ہی رہوں گا۔ پتا جی آپ جلدی آیئے …پلیز‘‘ نرملا روتے روتے ہلکان ہورہی تھی۔
ٹھاکر کے ہاتھ سے وہسکی کا گلاس گر گیا اور اُس نے چلّاکے آواز دی اور ڈرائیور سے گاڑی تیار رکھنے کو کہا۔ ہمیں ابھی رام نگر جانا ہے۔ رام نگر کوئی دو سو کلومیٹر دور تھا،جہاں اُس کی بیٹی رہتی تھی۔
’’نکلنے سے پہلے اُس نے پھر فون ملا کر بیٹی سے کہا ’’دھیرج رکھو نرملا اور منوہر کو بھی دلاسہ دو اُس سے کہومیرے آنے تک کوئی غلط قدم نہ اُٹھائے۔ بھگوان کی مرضی کے آگے ہم کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پوری سیکورٹی کے ساتھ رام نگر روانہ ہوگیا۔
اولڈ ائرپورٹ روڑ،راولپورہ سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9419011881