جموں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کومعطل کیا گیا کہ اس نے بھگت سنگھ کو دہشت گرد بتایا ہے۔ ان کے کلاس لیکچر میں موجودکچھ طلباء نے اُن کے درس کے ایک حصے کو کیمرے پر ریکارڈ کر لیا اور اسے اپنی شکایت کی بنیاد بناکر یونیورسٹی حکام سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔پروفیسر موصوف پر قوم کے ایک منجھے ہوئے ہیرو کی بے حرمتی کا الزام لگایاہے۔ بعض طلباء تنظیموں نے اس سلسلے میں پر وفیسر کے خلاف زوردار احتجاجی مظاہرے بھی کئے ۔ ا س تنازعے کیی بابت پروفیسر صاحب نے وضاحت وصراحت کی کہ میں روسی انقلاب کاچیپٹر کلاس میںپڑھاتے ہوے لینن کے بھائی کی بات کر رہا تھا جس کو روس کے بادشاہ زار کے قتل کی سازش میں شامل ہونے کے الزام میں پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ پروفیسر نے اپنے دفاع میںیہ صفائی پیش کی کہ میرے لیکچر کو اپنے سیاق وسباق سے جدا کر کے اس کے ایک چھوٹا سے حصہ کو ریکارڈ کیا گیا اورپھر لیکچر میں چل رہی اصل رہی بات کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ تو محض لینن کے بھائی کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی روشنی میں بھگت سنگھ کی مثال دے رہا تھا۔ بالفاظ دیگر اُن کا قطعی یہ منشا ء نہ تھا کہ بھگت سنگھ کے شخصیت کی توہین کی جائے ۔اس پر شکایت کنندہ طلبہ تنظیموں کا موقف یہ رہا کہ بقول ان کے اگر انتہا پسندی کی کو ئی مثال دینی ہی تھی تو اجمل قصاب یا افضل گورو کا نام لیا جا سکتا تھا، قوم کے ہیروں کا نہیں۔
روسی انقلاب کے روح رواں اورلیڈر لینن کا نام سب جانتے ہیں۔ اُس کا بڑا بھائی الیگزانڈر اُلیانوو (Alexender Ulianov) نارودنِک نام کی ایک دہشت گرد تنظیم کا ممبر تھا جو ہتھیار بند کاروائیوں سے روس میں شخصی شہنشاہی سامراج ختم کر کے اس کو جمہوری ملک بنانا چاہتی تھی۔ اس تنظیم کے کچھ لوگوں نے روس کے بادشاہ زارکو قتل کرنے کی کوشش کی۔ بادشاہ زار تو بچ گیا لیکن اس کے قتل کی سازش کر نے والے سب پکڑے گئے۔ ان میں لینن کا بڑا بھائی بھی تھا جس کو بعد میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔سوویت زمانے کا ایک پوسٹر بہت مشہور تھا جس میں لینن کو اپنی اشک پونچھتی ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو دلاسا دیتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اس کے نیچے کیپشن لکھا تھا: ’’ماں! ہم لڑائی کو جاری رکھیںگے لیکن ہماری راہ الگ ہوگی‘‘۔ لینن نے جو راستہ اختیار کیا اُس میں قتل، بندوق اور پستول شامل نہیں تھے۔اس نے لوگوں کی تنظیمی طاقت پر اپنا یقین مستحکم بنایا۔ اس نے بہت سارامطالعہ کیا، سماج کو سر تاپا بدلنے کے لئے دنیا بھر کے فلاسفروں کے خیالات کا بغور مطالعہ کیا۔ خود بھی عوامی انقلابی جدوجہد کی فلاسفی پر کتابیں لکھیں اوراس وجہ سے قتل وغارت گری کے راستے کو ردّ کیا۔لینن کے بھائی کا اپنا یا ہواراستہ تو غلط تھا لیکن اس کا مقصد روس میں زار ِ روس کی شخصی حکومت کا خاتمہ اور جمہوریت کاقیام تھا۔ اس میں کسی ایک مذہب یا قوم سے کوئی بدلہ یا انتقام لینے کی کوئی بات نہ تھی۔بھگت سنگھ کا مقصد اور ہدف یہی تھا اور اُ س نے ایسا ہی راستہ بھی ایسا ہی چنا تھا۔ اس لئے لینن کے بھائی کے لئے بھگت سنگھ کی مثال ہی دی جا سکتی تھی، اجمل قصاب کی نہیں۔ اجمل قصاب نے تو اپنے بیان میں کئی بار دہرایا کہ وہ اور اس کے ساتھی گجرات میں ہوئے مسلم کش دنگوں اور قتل عام کا ہندؤوں سے بدلہ لینے کے لئے آئے تھے۔یہ بات الگ کہ اُن کے ہاتھوں مرنے والوں میں بعض مسلمان بھی تھے۔
بہر کیف جامعہ جموں کے مذکورہ پروفیسر صاحب کے خلاف کاروائی کی مانگ کرنے والوں کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ خیالات کے اظہار کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ قوم کے ہیروؤں کی نکتہ چینی کی جائے۔ ان کی یہ دلیل غلط ہے، خیالات کی آزادی کا مطلب ہر طرح کے خیالات ہیں جن سے اتفاق کیا جائے نہ اختلاف۔ اگر کسی کے کوئی خیالات کسی ودسرے کو اچھے نہیں لگیں تو ان پر بحث ومباحثہ تو ہو سکتا ہے مگر بولنے والے کی تھو تھو نہیں کی جا سکتی، نہ اس کی زبان پر قفل چڑھایا جاسکتا ہے۔
بھگت سنگھ سوشلسٹ فلاسفی کا پیروکار تھا۔ وہ آدمی کی طرف سے آدمی کی لوٹ کے خلاف تھا۔اس نے ا س موضوع بہت سارے کتابچے اور مضمون لکھے۔ان میں سماج کی برائیوں کے بارے میں بہت کچھ درج تھا۔ اس نے توہم پرستی اور اندھی عقیدت (blind faith)کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا۔ اس نے جات پرستی اور مذہبی فرقہ پرستی کے خلاف بھی موثر انداز میں اپنی آواز بلند کی۔یہ سب باتیں جان کر کسی کے بھی من میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر اُس زمانے کا یہ ترقی پسند انقلابی نوجوان اپنی پوری زندگی زندہ رہتا تو دیش، قوم اور انسانی سماج کے لئے کتنے فائدے کی بات ہوتی۔اس کا دنیائے فانی سے جلدی چلے جانا سماج اور انسانیت کے لئے نقصان دہ تھا۔
در حقیقت آج ہمارے سماج میں بھگت سنگھ کو ان بلند خیالات کی وجہ سے یاد نہیں کیا جاتا۔ بہت لوگوں کو ان کی شخصیت کا پتہ بھی نہیں ہے۔آج بھگت سنگھ کی تعریف میں گن گان کئے جاتے، لوک نغموں اور گانوں میں بھی یہی ذکر ہوتا ہے کہ وہ ہنس ہنس کر پھانسی پر چڑھا اور مسکراتے ہوئے پھانسی کے رسّے کو چوما، اس کو بوسہ دیالیکن آج زمانہ دلیل پر مبنی خیالات کا ہے ، ترک سنگتی (rationality) یا زیر کی کا وقت ہے اور انسانی ضمیر یہ ضرور پوچھے گا کہ کیا پھانسی کا پھندا کوئی اچھی چیز ہے جو اس کو چوما جائے،بوسہ دیا جائے۔ خاص کر اب جب دنیا کے دو تہائی ملکوں نے سزائے موت ختم کر دی ہے تو پھانسی کا رسّاہماری تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے۔بھگت سنگھ بارے ا سکولی کتابوں میں بھی اُس کے ترقی پسند خیالات کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ ایسی کہانیاں ہی زیادہ تر ہوتی ہیں کہ جب وہ چھوٹا تھا تو توتلی زبان میں کہا کرتا تھا کہ میں بڑا ہو کر ’’دمونکھیں ‘‘ (بندوقیں) بوئوںگا۔بھگت سنگھ کی جانب سے اس طرح کے شعر گنگنانے کی باتیں بھی بتائی جاتی ہیں ؎
تیغوں کے سائے میں پل پل کر جواں ہوئے ہیں
ایک کھیل جانتے ہیں پھانسی پر چھول جانا
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دِل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یعنی بھگت سنگھ کی زندگی کا تصور پستول، بندوق اور پھانسی کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا ہے۔بچپن سے ہی ہم بھگت سنگھ کی جو تصویریں دیکھتے آئے ہیں ،ان میں اس کو ہاتھ میں پستول لئے اور پستول کی نالی سے دُھواں نکلتا ہوا دکھائی گیا ہے۔اب اُس کی بہت ساری ایسی تصویریں بھی مارکیٹ میں آتی ہیں جن میں اُسے ہاتھ اُوپر اُٹھا ئے نعرہ بلند کرتے دکھایا جاتا ہے، حالانکہ تواریخ میں بھگت سنگھ کا کسی نعرے لگاتے جلسے جلوس شمولیت کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ بھگت سنگھ کی شخصیت کے بارے میں یہ تبدیلی ہماری اپنی سوچ کی ادلا بدلی ہے۔ شاید ہم بھگت سنگھ کا ایسا ہی تصور چاہتے ہیں، یا ہو سکتا ہے کہ ہمارے من کی گہرائی کے اندر یہ تمنا کہیں چھپی ہو کہ کتنا اچھا ہوتا اگر بھگت سنگھ پستول یا بندوق کے ساتھ چلنے کی بجائے ہاتھ اُٹھا نعرے بازی سے لوگوں کومنظم کرتا اور ملک کی آزادی کی عوامی تحریک میں آگے آگے شامل ہوتا۔
بھگت سنگھ نے ایک مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں اور یہ کہ عوامی جدوجہدوں کو ہی ہمیشہ کارآمد مانا ہے۔ عام طور پر بھگت سنگھ کے اسی مضمون کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں یا آتنک وادی نہیں تھا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسمبلی میں بم پھینکنے ، انگریز پولیس افسر اور حوالدار چنن سنگھ کوقتل کرنے کی کارروائی شدت پسندانہ کارروائی تھی یا نہیں؟اگر ہم ان کارروائیوں کو شدت پسندی نہیں مانتے تو ہمیں اس اصطلاح کے نئے معانی دینے ہوںگے ، اس کی نئی definition کی تلاش کرنی ہوگی۔جب کھل کر خیالات کے اظہار ہوںگے، کھل کر بحث و مباحثے ہوںگے تو یہ سوال بھی پیش ہوگا کہ کیا بھگت سنگھ کو پھانسی آزادی مانگنے کے لئے دی گئی یا پولیس افسر کو قتل کرنے اور ا سمبلی میں بم پھینکنے کی پاداش میں۔ آزادی تو ہزاروں نے نہیں لاکھوں نے،کروڑوں لوگوں نے مانگی تھی، گلیوں میں، بازارں میں اور سڑکوں پر آکر علی الاعلان قربانیاں دیتے ہوئی مانگی تھی۔انہوں نے گولیاں اورماریں کھائیں اور نقصانات بھی اُٹھائے لیکن کسی کو خود نہیں مارا، کسی کو چوٹ نہ دی اور اسی حکمت عملی پر چل کر اُنہوں نے آزادی صرف مانگی ہی نہیں بلکہ حاصل بھی کر دکھائی۔جموںیونیورسٹی کے پروفیسر کی معطلی نے سنجیدہ فکر سماج کے سامنے ایک اہم مدعارکھا ہے۔ اس پر غور وخوض کی ضرورت ہے، بنے بنائے اور پکے پکائے جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقی سنجیدگی کی اساس پر۔ اور یہ سب کچھ خیالات کے اظہار کے حق کے دائرے سے باہر ہو ہی نہیں سکتا۔
رابطہ 98783 75903