سرینگر//حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی ایک جیل سے ’’بھاگنے‘‘ پر سیمی کے آٹھ کارکنوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں برسرِ اقتدار طبقہ چاہے سیکولرازم کا پُرفریب جامہ زیبِ تن کئے ہوئے ہو یا ہندوتوا کی خاکی وردی میں ملبوس ہو۔ سب کے سب اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو دیس نکالا دینے کے اپنے پروگرام پر برق رفتاری سے عمل پیرا ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ پچھلے 70سال سے بھارت میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کانگریس کے دورِ حکومت میں ہزاروں مسلم کُش فسادات ہوئے جن میں لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ اُن کی املاک کو خاکستر کیا گیا اور اُن کی عبادت گاہوں کو زمین بوس کردیا گیا۔ سیکولر ازم کے کھوکھلے نعروں کی گونج میں ہندوستان کے طول وعرض میں مسلمانوں کی آہ وبکا اور چیخ وپکار گم ہوکر رہ گئی۔ اب چونکہ پچھلے کئی سال سے ہندوتوا کا اصل اور خونخوار چہرہ کسی نقاب کے بغیر ہی سامنے آچُکا ہے تو مسلمانوں کا ویسے بھی اس خوف اور دہشت کے ماحول میں دم گھٹتا ہے۔ ہندوتوا کے پرچارک شروع سے ہی مسلم تشخص کو برداشت نہیں کررہے ہیں اب جبکہ اُن کے ہاتھ میں اقتدار کی طاقت آچکی ہے تو وہ دیش بھگتی کے اندھے جنون کی آڑ میں مسلمانوں پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپان کرکے تختۂ مشق بنانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ہزاروں واقعات ہماری بدقسمت ریاست میں پچھلے 7دہائیوں سے آئے روز رونما ہوتے رہے ہیں اور ہم اس دردوکرب سے گزرے ہیں اس لیے ہمیں یہ سن کر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ گیلانی نے کہا کہ اقتدار کے لالچی، بھارتی حکومت کے مقامی غلاموں کے لیے اس سے زیادہ عبرت کا مقام اور کیا ہوگا کہ جس گروہ کے ساتھ انہوں نے ہاتھ ملاکر اقتدار حاصل کیا وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور یہ بے غیرت اپنی کرسی کی خاطر بھارت کو مسلمانوں کے لیے سب سے ’’محفوظ‘‘ جگہ قرار دیکر اپنے آپ کو بھی ان ہی قاتلوں کی صف میں ہی کھڑاکرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ اگر کسی حلقے سے اِس خونِ ناحق پر واویلا ہو یا اس درندگی کے خلاف کوئی دھیمی سی آواز کہیں سے اُبھر آئے تو فسطائی اور خونین ذہن کے حکمران اس آواز کو بزورِ طاقت دباکر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ تحقیقات سے ہمارے بہادر سورماؤں کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے اور کسی کو ان کی نیت پر شک کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے یا پھر عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے NIAیا CBIکے ذریعے تحقیقات کا ایک اور ڈرامہ رچاکر لاشوں کے ساتھ ساتھ ان واقعات کو بھی فائلوں اور دفتروں میں دفن کرکے دیش بھگتی کا عظیم کارنامہ انجام دیاجاتا ہے۔ ورنہ یہ ماورائے عدالت کا ایک سیدھا اور صاف معاملہ ہے جس میں کسی تحقیق یا انکوائری کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ خود بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک سابقہ جج نے کہا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا چاہیے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہماری قوم بھی ایسے ہی ابن الوقت اور تنگ نظر حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے خون میں نہلادی گئی ہے اور آج بھی انہوں نے اسی سنگھ پریوار کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنی غیرت، انا اور بصیرت بھی ان ہی کے پاس گروی رکھ کر صرف اور صرف اقتدار بے اختیار حاصل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ ورنہ سرحدوں پر ہوئے کشت وخون پر واویلا کرنے والوں کو اپنے علاقوں کی بدنصیب انشائیں اور افرائیں بھی نظر آتیں۔ انسانی خون کے یہ سوداگر ہر دور میں اسی طرح نبی نواع انسان کی آزادی، اُس کی عزت وحرمت کو پاؤں تلے روندھ کر اپنے لیے رنگ محل تعمیر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ادھرتحریک حریت جموں کشمیر نے وادی کے طول وعرض میں فورسز کے کریک ڈاؤنوں، محاصروں، گھرگھر تلاشیوں، چھاپوں، گرفتاریوں اور مکانات کی توڑ پھوڑ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نام نہاد حکومت نے نہتے پُرامن اور آزادی پسند عوام سے انتقام لینے کی منصوبہ بند پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ طاقت، دھونس، دباؤ اور توڑ پھوڑ کے ذریعے رواں جدوجہدِ آزادی کو کچلنے کے لیے فوجی دستوں کی مزید کمک بلائی جارہی ہے۔ وادی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوئی ہے اور یہ سارا ظلم وجبر تشدد حکومت کی ایما پر ہورہا ہے۔ جموں کشمیر کے عوام نے گزشتہ چار مہینے سے جس عزم وہمت، استقامت اور ایثار سے ان مظالم کا مقابلہ کیا اس کے لیے ساری قوم خراج تھسین کی مستحق ہے۔ لوگوں نے قربانیوں کا ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تحریک حریت ان طالمانہ اور جابرانہ کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔