Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

بھول

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 13, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
9 Min Read
SHARE
آج وہ اٹلی میں ہائی بلڈ پریشر کی وجوہات ، علاج اور پیچیدگیوں اور علاج پر لیکچر دے رہا تھا۔ مختلف ممالک سے ماہرین ِطب اُس کا لیکچر سننے آئے تھے۔پانچ برسوں میں اُس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر ہرش وردھن اُس کا نام تھا اور اب دنیا کے سبھی ڈاکٹر اس کا نام عزت سے لیتے تھے اور اُس کی تحقیقات سے استفادہ کرتے تھے۔ آج بھی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہ ہائی بلڈ پریشر کی پیچیدگیوں کے بارے میں ہر سوال کا جواب بڑی باریکی سے دے رہا تھا۔ حاضرین تالیاں بجا رہے تھے۔
اچانک ڈاکٹر ہرش وردھن چکرا گیا اور دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔اُسے پھٹاپھٹ ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹروں نے جانچ کرکے دیکھا کہ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اُس کے دماغ میں خون کی ایک نس پھٹ گئی تھی۔ وہ پچھلے دوبرسوں سے اپنا بلڈ پریشر چیک کروانا بھول گیا تھا۔
 
کل اور آج
صمدمیر نے کانگڑی میں سے چمٹی سے تین انگارے اُٹھا کر چلم پر رکھ لئے اور حقہ کی نلی کو منہ میں دباکر زور زور سے کئی کش لئے۔اُسے ایک عجیب قسم کا سرور محسوس ہوا ،جیسے اُس پر نشہ طاری ہوگیا ہو۔ تھوڑا توقف کرکے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ہر طرف برف ہی برف تھی۔ اُس کا جوان بیٹا برف میں چلنے پھرنے کے لئے رستہ بنارہا تھا۔ وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ صمد میر کو اپنے بیٹے پر پیار آیا۔ 
’’کتنا بڑا ہوگیا ہے۔کل تک میری گود میں کھیل رہا تھا‘‘
اچانک اُس کا جوان بیٹا مجید ایک ننھے منے بچے میں تبدیل ہو ا،اور باپ کی گود میں بیٹھ گیا۔
بچے کی نظر سامنے درخت کی ٹہنی پر بیٹھے پرندے پر پڑ گئی۔ اُس نے باپ کی ٹھوڑی کو پکڑ کر اُس سے پوچھا  ۔  ۔  
’’وہ کیا ہے بابا  ۔  ۔  ؟‘‘
’’وہ کو ّا ہے میری جان‘‘
’’وہ کیا ہے بابا‘‘
’’وہ کو ّا ہے میرے لال‘‘
’’وہ کیا ہے بابا‘‘
’’وہ کو ّا ہے میرے جگر‘‘
اس طرح بچے نے نہ جانے کتنی بار یہی ایک سوال پوچھا اور باپ مسکراتے ہوئے جواب دیتا رہا۔
’’لوچائے پی لو‘‘  اچانک بیوی کی آواز سُن کر وہ چونک پڑا۔
’’کیا سوچ رہے تھے۔۔ ؟‘‘  بیوی نے پوچھا۔
’’مجید کے بار ے میں سوچ رہا تھا۔ کتنا بڑا ہوگیا ہے‘‘
’’ہاں ۔۔ میں بھی سوچ رہی تھی کہ اب اس کے لئے ایک دلہن۔۔‘‘
’’ہاں ہاں  ۔  ۔  اس کی شادی تو اب کرنا ہی پڑے گی‘‘  ۔  ۔  صمد میر نے بیوی کی بات کاٹ کر کہا۔
صمد میر نے چائے کی چسکی لی۔ اچانک اُسے ایک خیال آیا۔اُس کے لبوں پر مسکراہٹ کے پھول بکھر گئے۔
وہ کھڑکی کے قریب آیا اور بیٹے کو زور سے آواز دی۔
’’بیٹا  ۔  وہ درخت پر کیا ہے؟‘‘
’’وہ کبوتر ہے بابا‘‘
’’بیٹا  ۔  درخت پر کیا ہے؟‘‘
’’وہ کبوتر ہے بابا‘‘
’’بیٹا وہ کیا ہے؟‘‘
’’اندھے ہو کیا۔ دکھائی نہیں دیتا کبوتر ہے‘‘
 
 
علاج
 
رجب بیگ کی بیوی کے گھٹنوں میں اکثر درد ہوتاتھا۔ کئی ڈاکٹروں نے اُس کا علاج کیامگر بے سود۔ ڈاکٹروں نے کہا۔ ۔۔
’’عمر کا تقاضا ہے، گھٹنے کمزور ہوہی جاتے ہیں‘‘
لیکن وہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔ اُس نے کسی عورت سے کسی ڈاکٹر کے بارے میں سنا ، تو اُس نے شوہر سے کہا ۔
شوہر اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے معائینہ کیا۔ ایکس رے دیکھے، ایم آر آئی دیکھا اور کہا  ۔  ۔  ۔
’’دونوں گھٹنے خراب ہوچکے ہیں۔ دوائیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ دونوں گھٹنے بدلنے پڑیں گے۔ بس وہی ایک علاج ہے‘‘
’’خرچہ  ۔  ۔  ؟‘‘  شوہر نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’دس لاکھ‘‘  ۔  ۔  ڈاکٹر نے جواب دیا۔
رجب بیگ یہ سن کر بیوی کو ساتھ لے کر کلینک سے باہر نکلا۔ 
چھ ماہ بعد اتفاق سے ڈاکٹر اور رجب بیگ کی ملاقات ایک وازوان دعوت میں ہوئی۔ دونوں ایک ہی ترامی (پلیٹ) میں کھانا کھارہے تھے۔
ڈاکٹر نے اُسے پہچانا اور کہا  ۔  ۔  ’’آپ نے پھر اپنی بیوی کا علاج نہیں کروایا‘‘
ڈاکٹر صاحب آپ نے دس لاکھ مانگے تھے۔ میں نے تین لاکھ میں علاج کیا۔
’’وہ کیسے ؟‘‘  ڈاکٹر نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’میں نے دوسری شادی کرلی‘‘  ۔  ۔  رجب بیگ نے گوشت کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
 
 
بلا عنوان
دفتر سے چھٹی لے کر راجہ سیدھااپنے دوست ببلو کے گھر پہنچا۔ ببلو کی بیوی روبی نے اُس کا والہانہ استقبال کیا۔ دونوں بیڈروم میں گئے۔ جام پر جام  ۔  ۔  ۔  اور پھر بے خودی کے عالم میں دن بھر ہوس کی آگ میں جلتے رہے۔
چار بجے راجہ بیڈ پر سے اُٹھا، کپڑے پہنے، اپنا حلیہ درست کیا اور روبی کو بائی بائی کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔
مین گیٹ سے نکل کر وہ لڑکھڑاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھا۔
راستے میں وہ روبی کے بارے میں سوچ رہا تھا  ۔  ۔  ۔
’’کتنی الٹرا ماڈرن عورت ہے۔ جانتی ہے مرد کو کیا چاہیے۔ اور ایک وہ میری بیوی ۔ جاہل ، دقیانوسی ،کچھ نہیں جانتی ہے۔ بالکل ایک گائے کی طرح ہے وہ  ۔  ۔  ۔  کہاں روبی اور کہاں وہ  ۔  ۔  ۔  ‘‘
یہی سوچتے سوچتے وہ اپنے گھر کے نزدیک پہنچ گیا۔
اچانک اُس کے سر پر جیسے بجلی گری۔
اُس نے ببلو کو اپنے گھر کے مین گیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے کوٹ کاندھے پر لٹکائے ہوئے اپنی کار کی طرف جارہا تھا۔
 
 
تعویذ
 
وہ تعویذ برسوں سے اُس کے دائیں بازوپر بندھا تھا۔ اور وہ کبھی اسکے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ مگر آج جانے کیوں اُسے خیال آیا کہ وہ اِس تعویذ کو کھول کر دیکھ لے کہ اِ س میں کیا لکھا ہے۔
اس تعویذ نے اُس کی زندگی کا رُخ بدل دیا تھا۔ وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا مگر پڑھائی میں دلچسپی لینے کے بجائے آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔ جسکی وجہ سے اُس کی ماں بہت پریشان رہتی تھی۔ آخر بہت غور و فکر کے بعد وہ اُسے ایک پیر کے پس لے گئی۔ پیر صاحب نے ماں کی بات سنی اور بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ ہر روز صرف چار گھنٹے پڑھائی کیا کرے اور باقاعدگی سے نماز ادا کرتا رہے۔ اس کے بعد پیر صاحب نے اُس کی ماں سے کہا ۔ ۔ ۔
’’کل رات بھر میں نے ایک تعویذ لکھا ہے، میں اُسے تمہیں دیتا ہوں‘‘
اُس نے کاغذ کے ورق کو بہت سارے تہہ کرکے سبز رنگ کے ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپیٹ کر اُس کی ماں کے حوالے کیا۔
یہ تعویذ ہمیشہ اِ سکے دائیں بازوپر بندھے رہنا چاہیے ، پھر دیکھنا یہ کیا سے کیا بن جائے گا۔
برسوں گزر گئے۔ اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہوا۔ اُسے اور اُس کی ماں کو پختہ یقین ہوگیا کہ یہ سب پیر صاحب کے تعویز کی بدولت ہوا ہے۔ وہ کبھی بھی وہ تعویذ اپنے آپ سے الگ نہیں کرتا تھا  ۔  ۔  ۔
آج جانے کیوں اُس نے بازو سے تعویذ کھولا اور تھرتھرائے ہاتھوں سے تعویز کی تہیں کھولتا گیا۔ جب تک اُس کے ہاتھ میں اب کاغذکا صفحہ تھا۔ اُس نے اُلٹ پلٹ کر دیکھا ۔ کاغذ بالکل کورا تھا۔
 

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تعطیلات میں توسیع کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں، موسمی صورتحال پر گہری نظر ، حتمی فیصلہ کل ہوگا: حکام
تازہ ترین
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سری نگر میں عاشورہ جلوس میں شرکت
تازہ ترین
پونچھ میں19سالہ نوجوان کی پراسرار حالات میں نعش برآمد
پیر پنچال
راجوری میں حادثاتی فائرنگ سے فوجی اہلکار جاں بحق
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?