گھر والے پیسے کیوں نہیں بھیج رہے ہیں !
اس طرح میرا یونیورسٹی کا داخلہ خطرے میں پڑ سکتا ہے !
پتہ نہیں خیریت سے ہی ہیں وہ سب لوگ ؟
ویسے کیا ضرورت تھی مجھے ایم بی اے کرنے کی ۔ وہ بھی افریقہ میں۔بزنس سنبھالنے کے لئے پا پا جی نے کون سی ڈگری حاصل کی تھی۔۔۔۔ ارے بھئی پوری دُنیا میں ہماری دستکاری اشیاء کی مانگ تھی اور لوگ ان کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجاتے تھے ۔۔۔۔۔ لیکن زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ایسے خریدار کہاں جو ہمارے فن کے نمونوں کی قدر کرتے۔ چاروں طرف فریب ہی فریب ہے۔ وقت نے کیوں ایسی پلٹی ماری کہ کھرے اور کھوٹے کی تمیزہی مٹ ہوگئی ۔۔۔۔۔ اوہ ہو کس اُلجھن میں پھنس گیا میں۔
نہیں ! لگتا ہے پاپا جی ایک زبردست بزنس مین ہیں۔ اُنہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اب بزنس کو آگے بڑھانا آسان کام نہیں ہے۔ ہر جگہ کمپٹشن ہے اور کمپٹشن کے اس دور میں ہر ایک فرد کے لئے تجارتی تعلیم حا صل کرنا ضروری بن گیا ہے ۔ آج مارکٹنگ کا زمانہ ہے جس چیز کی پرزنٹیشن صحیح ہو وہی ہاتھوں ہاتھ بِک جاتی ہے۔ پھلے ہی وہ کوالٹی کے لحاظ سے کمزور کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔کیا یہی باتیں موجودہ تعلیم ہمیں سکھاتی ہے ۔ ؟ میرا ماننا ہے کہ کوالٹی کے ساتھ کبھی کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے ۔ ہاے ! کہاں سے لائیں اپنے اُن ہُنر مند وں کو جو خون پسینہ ایک کرکے اپنے فن کو نکھارتے تھے اور جبھی ایک فن پارہ وجود میں آتا تھا۔ ہم نے اُن لوگوں کی قدر نہیں کی اور وقت یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آج نوادرات کے نام پرپالش کرکے نقلی چیزیں بیچی جارہی ہیں اور لوگ آنکھیں بند کرکے انہیں ہاتھوں ہاتھ خرید رہے ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ میرے لئے ایم بی اے کرنا یہاں ٹھیک رہے گا۔ مجھے دیکھنا چاہئے کہ کس چیز کی یہاںپر زیادہ مانگ ہے وہی کام مجھے شروع کرنا چاہئے تاکہ ڈھیرساری دولت اکٹھا کرسکوں۔لیکن ہاں! کسی کی حق تلفی نہیں کروں گا، جیسا کہ ہم اپنے ہنر مندوں کے ساتھ کیا کرتے رہے ہیں۔ خود ہزاروں کمالتے تھے اور اُن کو چند پیسوں کے لئے تڑپاتے تھے۔دا دا جی بھی یہی کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہنرمندوں کو اکژ پیٹ کی آگ کو بُجھانے کے لئے پنڈت سودخوروں سے قرضہ لینا پڑتا تھا۔
اب راشد کو احساس ہو چکا تھا کہ ماضی میں ان کے خاندان نے تجارت کے نام پر اپنے ہنر مندوں کا استحصال کیا تھا۔ اسی وجہ سے اُسے اپنے خاندانی پیشہ کے ساتھ نفرت ہوچکی تھی۔
ایک دن علی الصبح اس نے اپنی ہمسائیگی میںبے چینی اور سنسنی کا ماحول دیکھا۔لوگ آپس میں کانا پھوسی کررہے تھے۔وہ اپنے کمرے سے باہر آیا تواسے معلوم ہوا کہ ایک نوجوان خطرناک بیماری کا شکار ہوکر فوت ہو چکا تھا اور اس کی آخری رسوم کے لئے کوئی بندہ سامنے نہیں آرہا تھا۔راشد سوچ میں پڑگیا اور من ہی من میں کہنے لگا کہ کیسے لوگ ہیں یہ کہ ان سے ایک نوجوان کی لاش کوغسل دینا نہیں ہو پا رہا ہے۔جب کہ ہم نے ہزاروں کمسن بچوں اور نوجوانوں کو مٹی کے حوالے کردیا۔وہ جوش میں آگیا اور کہنے لگا کہ میںآپ لوگوں کے خاطریہ کام انجام دے سکتا ہوں ۔تمام موجود لوگ یہ سُن کرخوش ہوگئے اور اس طرح نوجوان کی آخری رسوم پوری ہوگئیں۔فوت شدہ نوجوان کے باپ نے راشد کو گلے لگایا اور اُسے مالا مال کردیا۔راشد خوش ہوگیا اور سوچنے لگا کہ یونی ورسٹی کی فیس سمیت باقی اخراجات کی سبیل بن گئی۔پھر سوچنے لگا کیوں نہ یہی کام اختیار کرلوں۔ یہاں کون ہے جو طعنہ دے گا۔ویسے یہ ملک اچھا ہے کوئی بھیدبھاو نہیں۔ خاکروب بھی کام کے بعد سوٹ بوٹ پہن کر گلے میں ٹائی باندھ کر بازار نکلتاہے، جیسے کوئی صاحب چل رہا ہو اور انہیں جیسوں کو ہم کشمیر میں ’’میم صاحب سلام پتہ پتہ غلام ‘‘(صاحب سلام، غلام آپ کے پیچھے پیچھے ہے)کہا کرتے تھے۔ خیر مجھے اپنے کیریئر کی فکر کرنی چاہئے۔
ہیلو ہیلو ! راشد میں پا پا جی سرینگر سے بول رہا ہوں۔
اسلام علیکم !
بیٹا سیلاب سب کچھ اپنے ساتھ لے ڈوبا ہے۔مال ٗجائیداد ٗ فیکٹری ٗ شو روم سب کچھ تباہ ہوگیا۔ ہم سب اس وقت ایک پہاڑی پر ریلیف کیمپ میں پڑے ہیں۔
ہیلو ! ہیلو ! ہیلو ! ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد نے ٹی وی کا سوچ آن کیا تو دیکھتا ہے کہ سیلاب نے پوری وادی کواپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ فون کر تا رہا لیکن بے سود رابطے کی تمام سہولیات منقطع ہو گئیں تھیں۔ وہ کافی پریشان ہوگیا اور ٹی وی کے سکرین پر کشمیر کا حال دیکھتا رہا۔ اُسے لگا کہ اب دوبارہ ٹانگوں پر کھڑا ہونا محال ہے۔ اُسے اپنا بچپن یاد آگیا جب ان کے کارخانے میں سینکڑوں کاری گر کام کرتے تھے اور شاہکار چیزیں وجود میں آتی تھیں۔ ہم نے ان سب کا استحصال کیا ہے، شا ید خدا ہم سے ناراض ہو چکا ہے اسی لئے یہ آفت نازل ہوگئی۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور توبہ کے لئے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھائے۔
ایک دن راشد کے فون کی گھنٹی بجی تو کال اٹینڈ کرنے کے بعد کچھ دیر سوچنے لگاپھر کہیںچل پڑا۔اب وہ فون بجتے ہی گھر سے باہر نکل جاتاہے۔ اس کی مصروفیات میں تیزی آنے لگی۔ اور پیسہ بھی خوب کمانے لگا۔ چند دنوں میں ہی وہ لکھ پتی بن گیا۔ کیونکہ وہاں خطرناک بیماری آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ایک دن جب پادری نے اُسے کچھ کہا تو راشد حواس باختہ ہوگیا اور پیسوں کی وجہ سے اُسے اپنا نام تک تبدیل کرنا پڑا۔
اب وہ اپنے گھر بھی پیسے بھیجنے لگا۔ گھر والے اُس پر کشمیر آنے کے لئے زور ڈال رہے تھے کیونکہ وہ اپنے ہی ایک رشتے میں اُس کی شادی کرانا چاہتے تھے ، جو ایک کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ راشد تھوڑے دنوں کے لئے گھر آیااور یہاں اس کی شادی مریم سے ہوگئی۔ جب سُسرال والوں نے راشد کو اُسکے کارو بار سے متعلق پوچھا تو وہ یہ کہہ کر بات ٹال گیاکہ وہ افریقہ میں زیادہ تر سوشل ورک میں مصروف رہتا ہے۔ چند دنوں کے بعد وہ اپنی بیوی کے ہمراہ واپس چلا گیا۔ راشد مریم کو خوب سیر سپاٹے کراتا رہا۔ وہ بھی خوش ہو ئی کہ اُسے ایک اچھا جیون ساتھی مل گیا ہے ۔ لیکن فون بجنے کے بعد اُس کا اچانک غائب ہونا اُسے شک میں مبتلا کرنے لگا کہ وہ کہاں چلا جاتا ہے۔ سوچنے لگتی ہے کہ یہ ڈاکٹر بھی نہیں ہے کہ ایمرجنسی کیس اٹینڈ کرنے جاتا ہے۔ یہ کرکیارہا ہے۔ کونسا کام اس نے اختیار کیا ہوا ہے۔مختلف خدشات ذہن میں اُبھرنے لگے وہ دن بدن پریشان ہونے لگی ۔ کئی بار اپنے خاوند کو اُس کے کام کے بارے میں پوچھنا چاہا لیکن وہ ہمیشہ بات کو ٹال دیتا تھا۔
آج جب وہ دونوں ایک لانگ ڈرایئو کے بعد گھر واپس آجائے تو مریم محبت بھری نظروںسے اُسے دیکھنے لگی کہ اچانک فون کی گھنٹی بج اُٹھی ۔راشد ایکدم کھڑا گیا اور مریم سے کہا کہ ایک گھنٹے کے لئے وہ کسی کام سے باہر جا رہا ہے۔۔۔۔۔ آپ کو کہاں جانا ہوتا ہے مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتا تے ؟ میں یہاںپریشان رہ جاتی ہوں۔ راشدنے اُسے کوئی جواب نہ دیالیکن چند دنوں کے بعد ہی مریم پر راشد کی اصلیت کھل گئی۔ وہ رونے چلانے لگی اوراپنے گھر والوں کو کوسنے لگی کہ اُس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ وہ راشد کو واپسی کے ٹکٹ کے لئے اصرار کرنے لگی اور صاف کیا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی وہ اب اس گھر میں نہیں ٹھہر سکتی۔ راشد اُسے سمجھاتا رہا کہ اُس نے جان بوجھ کر یہ کام اختیار نہیں کیا ہے بلکہ یہ ایک اتفاق تھا اور واپسی کے تمام راستے بند ہوچکے تھے۔ نہیں نہیں! کیا میں اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کو یہی بتائوں کہ ایک غسال کے ساتھ میری شادی ہوئی ہے۔
گھر میں روز روز کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے راشد کا دن کا چین اور رات کا آرام چِھن گیا۔ وہ جسمانی طور دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ آخر کار اُسے معلوم ہوا کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکا ر ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے وہ ہسپتال میں داخل ہوا۔ حالات کا رُخ دیکھ کر مریم اُسکی تیمارداری میں لگ گئی۔ بیماری طول پکڑتی گئی اور ساری جمع پونجھی علاج کی نذر ہو گئی۔پھر بھی کوئی افاقہ نہیںہوا اور آخر کار راشد زندگی کی جنگ ہار بیٹھا۔ مریم کو اُس کے کفن دفن کے لئے لوگوں سے منتیں کرنا پڑیں لیکن کوئی بھی شخص سامنے نہیں آیا۔ ایک ہفتے تک لاش گھر میں پڑی رہنے کے بعد مریم نے خود ہی اپنے خاوند کو غسل دے آخری رسوم ادا کیں۔اب وہ گھر واپس آ ہی رہی تھی کہ راشد کے فون کی گھنٹی بج گئی تو معلوم ہوا کہ نزدیکی علاقے میں ایک عورت کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ ۔۔۔!!
سرینگر؛موبائیل نمبر؛9419203397