رحیم رہبر
حسینہ حُسن کی دیوی تھی۔ جونہی اُس کے شریر پر نگاہیں جمتی تھیں تو کینواس پر خود بخود محبت کے نقوش اُبھر کر آتے تھے۔ وہ حال ہی میں یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات سے فارغ ہوکر آئی تھی۔ وہ جب بات کرتی تھی تو اُسکی زبان سے شعر نکلتے تھے۔ وہ جب چلتی تھی تو پھول شرماتے تھے۔ حسینہ سے میری پہلی ملاقات یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہوئی تھی، جہاں مجھے افسانہ سُنانے کے لئے بُلایا گیا تھا۔ وہ شاخ پر مہکتا ہو اپھول تھاایسا جس کی قباء پر ہنوذ اوس کے قطر موجود تھے۔
دھیرے دھیرے حسینہ جان گئی کہ سنگ تراش علی اُس سے محبت کرتا ہے۔ وہ اب اکثر سنگ تراش علی کے شو رُوم پر حاضری دیتی تھی اور دیر تک پتھر کی بنی اُس مُورتی کو تکتی رہتی جس کو علی نے شو پیس کے طور پر خوبصورت پتھر کے تختے پر رکھا تھا۔ اس خوبصورت ثناکاری کو دیکھنے کے لئے دُور دُور سے بازارِ عشق کے خریدار آتے تھے۔
پتھر کو تراشتے وقت علی کو حسینہ کی آہیں سُنائی دیتی تھیں۔ کبھی کُبھار وہ حسینہ کی سسکیاں بھی سنتا تھا! حسینہ اپنی غزالی آنکھوں کو اپنی گھنی پلکوں میں کُچھ اس طرح چُھپاتی جیسے کالی گھٹائیں چودھویں کے چاند کو چھپاتی ہیں۔وہ جب اشکبار ہوتی تھی تو سارا جنگل بھیگ جاتا تھا۔ حسینہ کو دیکھنے کے لئے اب میں بھی اُس شو رُوم پر جاتاتھا۔ تین سال ہم دونوں صرف اُس شہکار مورتی کو تکتے رہے۔ اُس مورتی نے ہم دونوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ مجھے بس ایک آرزو تھی کہ اُس مورتی کو میں کب خریدلون اور حسینہ کو پیش کروں۔
ایک دن میں وہ مورتی موٹی رقم میں خرید کے گھر لے آیا اور اس کو اپنی شو الماری میں رکھا۔ مُجھے حسینہ کا انتظار تھا۔ اُس کو کب اور کہاں مورتی پیش کروں۔ اب میں حسینہ کے انتظار کے بغیر اور کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری سوچ کے صفحے پر طرح طرح کے خیالات اُبھر کر آتے تھے!
’’حسینہ مجھے پاس دیکھ کر مُسکرائے گی۔۔۔ پر نہیں ۔۔۔ حسینہ بہت شرمیلی ہے۔۔۔ وہ مجھے پاس دیکھ کر شرمائے گی۔۔۔ وہ آداب کہے گی ۔۔۔ پھر نرم لہجے میں مجھ سے بہت کچھ پوچھے گی۔۔۔ میں حسینہ کو کہیں بیٹھنے کے لئے کہوں گا۔۔۔ وہ میرا ہاتھ تھام لے گی۔۔۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔ حسینہ خدا ترس لڑکی ہے۔۔۔ وہ غیر محرم کا ہاتھ نہیں تھامے گی۔۔۔ وہ میرے پاس مجھ سے ملنے قاعدے میں آئے گی۔۔۔ وہ پردے میں آئے گی۔ اس کے کچھ اپنے اصول ہیں۔۔۔‘‘
اس طرح اور بھی کچھ سوالات، کچھ خدشات، کُچھ اُمیدیں ، کچھ جوابات میرے ذہن پر رقم ہوتے رہے۔ مجھ میں ایک عجیب سا ارتعاش پیدا ہوا۔۔۔
آخر کار زمان و مکان طے ہوا۔ میں رات کو خفتہ کروٹیں بدلتا رہا۔ رات بھر میں اُس مُورتی کو تکتا رہا جو میں نے اپنے کمرے کی شو الماری میں رکھی تھی۔ مورتی میری حالت زار دیکھ کر مسکراتی تھی اور دھیمی آواز میں وہ شعر گنگناتی تھی۔
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں
(بشیر بدرؔ)
میں ساری رات اُس مورتی کو دیکھتا رہا، جو اپنی غُربت کی وجہ سے سنگ تراش علی نے مُجھے فروخت کی تھی۔ صبح سویرے میں نے صرف ایک دُعا کی۔۔۔۔ ’’یا اللہ! حسینہ میرا تحفہ قبول کرے۔‘‘
خیر بعد از ظہر میں اُس باغ میں پہنچا، جہاں مُجھے حسینہ نے ملنے کے لئے کہا تھا۔ حسینہ مجھ سے پہلے ہی وہاں موجو دتھی۔ خیر و عافیت پوچھنے کے فوراً بعد میں نے حسینہ کو پتھر کے بنے بینچ پر بیٹھے کے لئے کہا۔ حسینہ نے میری فرمائش قبول کی۔
’’حسینہ! چہرے سے نقاب ہٹائو‘‘۔ میں نے تجسس میں کہا۔
’’ایسا ممکن نہیں‘‘۔ حسینہ بولی
’’لیکن کیوں!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا
’’غیر محرم مرد کے سامنے حُسن کی نمائش کرنا گناہ ہے۔‘‘
’’ماشااللہ حیادار لگتی ہو‘‘۔ میں نے حسینہ سے کہا۔
’’پردہ بنتِ حوّا کا بہترین زیور ہے‘‘۔ حسینہ نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’حسینہ اس مورتی کو قبول کیجئے جو میں نے سنگ تراش علی سے صرف آپ کے لئے خریدی ہے۔ اس مورتی کو میری طرف سے محبت کی نشانی سمجھو۔‘‘
’’میں ایسا نہیں کرسکتی۔‘‘ حسینہ غصے میں بولی۔
’’پر کیوں!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں سنگ تراش علی سے محبت کرتی ہوں اور یہ مورتی میرا عکس ہے!، محبت خریدی نہیں جاتی!!‘‘۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام،موبائل نمبر؛9906534724