برما میں روہنگیائی مسلمانوں کی خونریزیوں ،آبروریزیوں اور حسرتناک بربادیوں کیخلاف عالم انسانیت کے جب رونگھٹے کھڑے ہورہے تھے اور ہر طرف مذمت، ملامت ، افسوس اور تشویش کا اظہار ہورہا تھا ،بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی میانمار میں آنگ سانگ سوچی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملا رہے تھے ۔عین اسی وقت جرمن دارالحکومت برلن میں دنیاکے سو بااثر مصنفوں میں سے ایک ارون دھتی رائے عالمی سکالرو ںکی کہکشاں سے مخاطب تھیں : ’’ بھارت خود اپنی ہی نو آبادی بنتا جارہا ہے ۔ وہ ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں ملکی فوج ، نیم فوجی دستے اور عسکری تنظیمیں معاشرے کے غریب ترین اور سب سے پسماندہ شہریوں کیخلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ارون دھتی رائے کے برلن پہنچنے سے چند روز قبل بنگلور میں ایک سانحہ ہوا تھا ۔ ارون دھتی کی چہیتی دوست گوری لنکیش جو ان کے نظریات کے بھی بہت قریب تھیں، کو نامعلوم افراد نے گولیوں سے چھلنی کرکے موت کی نیند سلادیا تھا ۔گوری لنکیش نریندرر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سب سے بڑی ناقد اور مخالف صحافی کے طور اُبھری تھیں۔ چنانچہ ان کی موت کیلئے اکثر لبرل حلقے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی ذمہ دار قرار رے رہے ہیں ۔گوری لنکیش کا بہیمانہ قتل ارون دھتی رائے کیلئے جہاں ایک ذاتی سانحہ تھا وہیںیہ قتل اُن کے اس خیال کی تصدیق کررہا تھا کہ بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی نہیں تھا بلکہ اظہارِرائے کی آزادی کی علامت تھا، اب آزادیء اظہار کا مزار بن رہا ہے۔
برلن میں اپنی نئی کتاب "The Ministry of Utmost Happiness"کے اجراء کی تقریب کے موقعے پر اس درد ناک سانحے کا درد بانٹتے ہوئے ارون دھتی رائے نے بدلتے ہندوستان کی تصویر پیش کی : ’’لوگوں کو مار پیٹ کر ہر روز قتل کیا جاتا ہے ۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص کو گائے کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا گیاتو یک لخت ایک خوفناک مجمع اس کو گھیر لیتا ہے، اگر اس صورتحال کو نہ روکا گیا تو ہمارا سب کچھ ختم ہوجائے گا ۔‘‘
ارون دھتی کی رائے میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت سیکولر ازم اور جمہوریت کے نظریات سے ہٹ کر ہندو قوم پرستی کی فسطائیت کی علامت بن رہا ہے ۔ ارون دھتی رائے کے ان خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اس بات سے اختلاف کی بہت کم گنجائش ہے کہ برما میں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام اور بھارت میں گاؤ رکھشا کے نام پر ہونے والے قتل و غارت گری کے مسلسل واقعات اور گوری لنکیش کا قتل ان دوملکوں کے ریاستی رحجانات میں مماثلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ یہی مماثلت ان دو ملکوں کی قربت کی اصل وجہ بھی ہے ۔برما ایک بودھ اکثریت والا ملک ہے جس میں مسلم آبادی صرف چار فیصد ہے ۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو اور برما ئی حکومت کی دلیل چاہے کتنی ہی مضبوط ہو اس ملک نے انسانیت کی ساری قدریں پامال کرتے ہوئے اپنی چھوٹی سی اقلیت کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے ۔ انگریزوں سے جس روز اس ملک کو آزادی ملی اسی روز یہ ملک دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم ہوا اور مسلمانوں کا ایک نیا ملک پاکستان کے نام سے وجود میں آیا ۔
بھارت نے اس نظرئیے کو مسترد کردیا تھا اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ملک کی تقسیم کے باوجود اس ملک نے سیکولر ازم کے نظریہ کو اپنے آئین کی بنیاد بنایا حالانکہ ملک میں ایسی قوتیں موجود تھیں جو سیکولر نظریہ کو رد کرتی تھیں، لیکن یہ بہت کمزور اور محدود تھیں اس لئے ان کے نظریات نئے ملک کے آئین اور قانون کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز نہیں ہوسکے ۔لیکن ان کی انتہا پسندانہ اور جارحانہ سوچ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے اوراپنے عزائم کا عندیہ دیتے ہوئے بیسویں صدی کی چوٹی کے لیڈروں میں سے ایک اور بھارت میں مہاتمااور باپو کا لقب حاصل کرنے والے عدم تشدد کے علمبردار موہن داس کرم چندگاندھی کے دن دھاڑے قتل کا سبب بنی ۔یہ قتل آزاد بھارت میں سیکولر نظریات کیخلاف پہلا اعلان جنگ ہی نہیں تھا بلکہ بھارت کے اقتدار اور اس ملک کے سیاسی کلچر کیخلاف بھی تھا جس نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے باوجود اس نظریہ کو رد کرکے دنیا میں ایک روادار ملک کی پہچان بنانے کا آغاز کیا تھا ۔
ایک طرف جہاںیہ کوششیں ہورہی تھیں تو دوسری طرف سینکڑوں فرقہ وارانہ فسادات، ہزاروں انسانوں کا خون، ہنستی کھیلتی بستیوں کی بربادیاں اور تباہیاں اس جنگ کے جاری ہونے کا ثبوت فراہم کررہی تھیںجو اس ملک کے اندر رام راجیہ کے قیام کے نعرے کے ساتھ لڑی جارہی تھی ۔اور جو قوتیں یہ جنگ لڑرہی تھیں وہ حقیقت میں دو قومی نظریہ کی ہی حامی تھیں ۔یہ قوتیں ہندو اکثریت کے ملک کو صرف ہندووں کا ملک سمجھتی تھیں اور اقلیتوں کے حقوق کا ان کے نظریات میں کوئی مقام نہیںتھا ۔ جب مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کا الحاق بھارت سے ہوا اور جب مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا توان قوتوں کے نظریات پر کاری ضرب تو پڑی لیکن ان کی طاقت اور ان کا اثر وسوخ بڑھتا ہی رہا اور اقتدار و اختیار کو کئی بار ان کے آگے جھکنا بھی پڑا ۔خاص طور پر کشمیر کے سلسلے میں جب ریاست کی خصوصی حیثیت کیخلاف برسر اقتدار قوتوں کو سیاسی اور آئینی تخریب کاریوں پران ہی کے دباؤ سے آمادہ ہونا پڑا۔ جہاں ایک طرف جمہوری اور سیاسی اداروں کی مضبوطی کی کوششیں جاری تھی وہیں نظریاتی قدروں کی بیخ کنی کایہ سلسلہ بھی چلتا رہا۔
یہ نظریاتی معرکہ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر پہونچ گیا جب کار سیوکوں نے بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اوراسے ڈھادینے کی کوشش کی اس موقعے پر پاکستان کو شدت پسندی کے طوفان نے اپنی لپیٹ میںلے لیا تھااوربھارت بھی اس کی زد میں آچکا تھا ۔جوں جوں یہ طوفان بڑھتا رہا بھارت میں اسی رفتار سے سیاسی اور نظریاتی تبدیلیوں کیلئے زمین ہموار ہوتی گئی اور یہ تبدیلی اس وقت مکمل ہوگئی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزیر اعظم کے اُمیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا ۔نریندر مودی نے ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پارلیمنٹ میں حتمی اکثریت کے ساتھ اقتدار کا مالک بنادیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اس سے پہلے بھی برسراقتدار آئی تھی لیکن اُس وقت اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھوں میں اس جماعت کی قیادت تھی چنانچہ اُس وقت کہیں بھی گاو رکھشکوں کی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ گائے کی رکھشا کے نام پر کسی کا بھی قتل نہیں ہوا ۔اقلیتوں کیخلاف کوئی بھی آواز نہیں اٹھی ، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا کوئی نعرہ بلند نہیں ہوا اور کوئی عرضی کسی عدالت میں داخل نہیں ہوئی۔تاریخ کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی اور نصاب کی تبدیلی کا کوئی تصور پیش نہیں ہوا ۔
لیکن مودی جی کی قیادت میں ایک نئی بی جے پی کا جنم ہوا جس میں آر ایس ایس کے نظریات کی بالادستی تھی ۔ سادھو اور ہندو شدت پسند سراٹھا نے لگے اور خارجی و داخلی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہوئیں ۔ اقتصادی ، سیاسی اور سماجی قدریں تبدیل ہونے لگیں اور ایک نئے ہندوستان کا جنم ہوا جوایسے وقت برما کی حمایت پر آمادہ ہے جب پوری دنیا اس ملک کی ملامت کررہی ہے ۔
یہ المیہ اس وقت ہوا جب پوری دنیامیں انتہاپسندانہ رویوں کا دور دورہ ہونے لگا ہے ۔ افغانستان کی جنگ نے دنیا کو تہذیبی ، مذہبی ، نسلی اور قومی تعصب اور ٹکراو کی آگ میں جھونک دیاہے اور برما میںچیونٹی کے مارنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھنے والے مذہب کے پیروکاروں نے انسانوں کے سر کاٹنا مذہبی فریضہ سمجھ رکھا ہے ۔رواداری ، صبر و ضبط اور عدم تشدد کا علمبردار ملک ہندوستان اب اُمید کی کرن نہیں رہا بلکہ برما کا واحد حامی ہے اورہندوستان کی مفکر ارون دھتی رائے جرمنی میں اسی المیہ پر آنسو بہار ہی ہیں۔
صرف ایک ارون دھتی رائے ہی نہیںبلکہ دنیا بھر کے دانشور آج انتہائی بے بسی کی حالت میں دنیا کی بدلی ہوئی تصویر دیکھ رہے ہیں جو نسل انسانی کی فنا کے اسباب پیدا کرچکی ہے ۔39مصنفو ں نے ایوارڈ واپس کرکے اس سوچ کیخلاف احتجاج کیا تھا جو ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں ابھررہی تھی لیکن اس احتجاج نے اقتدار کی سوچ کو نہیں بدلا بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں نے اس آواز کو بھی خاموش کردیا ۔دانش ہار گئی ۔ پوری دنیا میںفکر و دانش کی شکست ہورہی ہے اور جذباتی و انتقامی لہروں کے آگے انسانی تصورات مٹی کے تودوں کی طرح تہس نہس ہورہے ہیں ۔داعش انسانی لاشوں کے ڈھیروں پر خلافت قائم کرنے کیلئے محو جدوجہد ہے اور حوثی باغی سعودی عرب پر میزائل حملوں کی تیاری میں ہیں ۔پاکستان میں عسکری گروپ ہندوستان کا خاتمہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلکی لڑائیوں میں پاکستان کے اپنے ہی باشندے مارے جارہے ہیں ۔
پاکستان کی حکومت دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑرہی ہے جس میں اسے بھاری نقصانات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان اختلافات ہیں اور ایران کے ساتھ بھی کئی معاملات میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں ۔ایران بھی جزیرۃ العرب کے معرکوں میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور امریکہ اس کی فوجی اور سیاسی طاقت کو روکنے کے منصوبے بنارہا ہے ۔یورپ میں مسلمانوں کا قافیہ تنگ ہورہا ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کیخلاف سرحدوں پر صف آراء ہیں ۔ شام میں بھی جنگ جاری ہے ۔ عراق میں بھی اور افغانستان میں بھی ۔شدت پسندی کا جنون ہر طرف سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ گلوبل وارمنگ ، پانی کا بحران ، بڑھتی آبادی کے سنگین انسانی مسائل کے درمیان جنوبی کوریاایٹمی اور میزائل تجربوں سے عالم انسانیت کو تاراج کرنے کے ساماں کررہا ہے ۔امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں سخت گیری کی نئی سوچ کے ساتھ اپنی خواہشوں کی دنیا وجود میں لانا چاہتا ہے اورچین اپنی خواہشوں کی۔
ایسے میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے جہاں انسانیت کو درپیش سنگین نوعیت کے خطرات ، جارحانہ نظریات اور رحجانات ، تخریب پسندی اورنئے ابھرتے مسائل کی بجائے عالمی طاقتیں اپنی رقابتوں کے ایجنڈوں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں گی ۔ انسانی تاریخ میں کبھی ایسی صورتحال دنیا کو درپیش نہیں تھی ۔ کبھی انسان خود اپنی تباہی کے ساماں کرنے پر اتنا آمادہ نہیں تھا جتنا کہ آج ہے یہاں تک کہ پہلی او ر دوسری جنگ عظیم میںبھی ساری عالم انسانیت اس سفاکی کے ساتھ ایک دوسرے سے آمادہ پیکار نہیں تھی ۔ انسانی قدریں اس وقت بھی پوری طرح سے نابود نہیں ہوئی تھیں جب امریکہ ہیرو شیما اورناگا ساکی پر ایٹم بم گرارہا تھا ۔ انسانی ہمدردی کی آوازیں اُس وقت بھی گونج رہی تھیں لیکن آج انسانی ذہن ان قدروںسے مکمل طور پر خالی ہوچکا ہے ۔ شاید آسمانوں میںانسانی بربادیوں کے مشورے ہورہے ہیں اور کروڑوں سالوں پر پھیلی انسانی تہذیب اپنے انجام کو پہونچنے والی ہے ۔
………………………….
نوٹ : کالم نگاروادی کے سینئر صحافی اور روزنامہ عقاب کے مدیر اعلیٰ ہیں۔