سرینگر//نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے لوگ ایک مشکل ترین اور سنگین دور سے گزر رہے ہیں،عوام ایک طرف سیاسی بحران اور انتشار و خلفشار کے شکار ہیں اور دوسری جانب مسلسل تین برسوں سے بدترین اقتصادی اور معاشی بحران سے دوچارہیں ۔ تعمیر و ترقی کا کہیں نام ونشان ہی نہیں، نوجوانوں کا مستقبل تاریک بنایاجارہا ہے، کشمیریوں کو فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اورلوگ عدم تحفظ کے شکار ہیں۔۔ انہوں نے کہا ہندوستان کے ساتھ مہاراجہ ہرسنگھ نے دفعہ 370 تحت مشروط الحاق کیا تھا لیکن بدقسمتی سے مرکزی سرکاروں نے اس مشروط رشتے کو نہیں نبھایا اور ریاست کو حاصل خصوصی مراعات کو ایک ایک کرکے چھینا ، جس سے جموں وکشمیر اور ملک کے درمیان دوریاں بڑھتی گئی اور آج عالم یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو نئی دلی پر سے مکمل طور پر بھروسہ اُٹھ گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مرکز کی متواتر حکومتوں نے کشمیریوں کے ساتھ وعدے کئے لیکن کبھی ان کا ایفاء نہیں کیا، اس کے برعکس جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کیلئے سازشیںرچی گئیں۔ ان سازشوں سے کشمیریوں کا نئی دلی پر اعتماد اور بھروسے کا فقدان بڑھتا گیا، جو موجودہ بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ طاقت کے بلبوتے پر کشمیریوں کے دل جیتنے نہیں جاسکتے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈ نکالا جاسکتا ہے۔ نئی دلی کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر پاکستان سمیت مسئلہ کشمیر کے تمام متعلقین کیساتھ بات چیت کا بامعنی عمل شروع کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا اعتماد اور بھروسہ بحال کرنے کیلئے بھی اقدامات اُٹھانا ناگزیر ہے۔ پارٹی کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے اپنے خطاب میں ریاستی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں حالات کو پُرامن جتلانے کی کوئی کثر نہیں چھوڑ رہی ہیں لیکن جب زمینی سطح پر حالات و واقعات پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ سرحدوں پر کشیدگی ہے جبکہ اندرونِ وادی آئے روز انکائونٹر ہورہے ہیں، سرحدی گولی باری سے آر پار لوگ مررہے ہیں جبکہ وادی میں عام لوگوں کے خون بہنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اجلاس میں صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے بھی خطاب کیا۔