اظہار خیال
اشونی ویشنو
ابتدائی دنوں میں کمپیوٹر اتنے بڑے ہوا کرتے تھے کہ وہ پورا کمرہ بھر دیتے تھے۔ وہ ہزاروں ویکیوم ٹیوبز پر چلتے تھے جو اُس وقت کے ’’آن-آف‘‘ سوئچز کا کام کرتے تھے۔ ان کی شکل آج کے چمکدار آلات کی بجائے کسی پرانے ٹیلی فون ایکسچینج جیسی ہوا کرتی تھی۔
وقت گزرتے گزرتے آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ بے پناہ طاقت ایک ناخن سے بھی چھوٹی چِپ میں سمٹ گئی ہے جو اربوں ٹرانزسٹرز سے چلتی ہے۔
یہی چِپس آپ کے موبائل فون، گاڑیاں، ریل گاڑیاں، فریج، ٹی وی، اسکوٹی، فیکٹری مشینیں، ہوائی جہاز اور خلا میں موجود سیٹلائٹ کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ اتنی چھوٹی ہو گئی ہیں کہ آج آپ کی انگلی پر ایک ’’اسمارٹ انگوٹھی‘‘ میں بیٹھ کر دل کی صحت پر نظر رکھتی ہیں۔ یہی سیمی کنڈکٹر کا جادو ہے۔
ترقی کو آگے بڑھانے والے سیمی کنڈکٹر
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کلیدی شعبوں میں مہارت حاصل کرے جو اس کی ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔ ان بنیادی شعبوں میں فولاد، توانائی، ٹیلی کام، کیمیات، ٹرانسپورٹ اور سیمی کنڈکٹر شامل ہیں۔
سیمی کنڈکٹر ایک نہایت اہم بنیادی شعبہ ہے۔ یہ تقریباً ہر چیز کے اندر چھپی ہوئی انجن کی مانند ہیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں۔ اسمارٹ فون، گاڑیاں، ریل گاڑیاں، طبی آلات، دفاعی نظام، پاور گرڈ، سیٹلائٹ اور مصنوعی ذہانت— سب کا انحصار انہی پر ہے۔
سیمی کنڈکٹر کی صنعت ایک بنیادی صنعت ہے۔ جس طرح اسٹیل فیکٹریوں، پلوں اور ریلویز کی بنیاد ہے، اُسی طرح سیمی کنڈکٹر ڈیجیٹل معیشت کی بنیاد ہیں۔ چِپ کے بغیر نہ جدید مواصلات ممکن ہیں، نہ ڈیٹا پروسیسنگ، نہ مصنوعی ذہانت، نہ قابلِ تجدید توانائی کے نظام اور نہ ہی محفوظ دفاع۔
جو قوم سیمی کنڈکٹر ڈیزائن اور تیار نہیں کر سکتی وہ اپنی بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، چاہے وہ صحت کا معاملہ ہو یا سلامتی کا۔ اسی لیے سیمی کنڈکٹر میں طاقتور بننا صرف ایک صنعت کی ترقی نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے سنوارنے کا عمل ہے۔
اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی ضرورت
کووِڈ-19 وبا نے ہمیں یہ تلخ حقیقت یاد دلائی کہ چِپس کتنی اہم ہیں۔ جب عالمی چِپ سپلائی چین متاثر ہوئی تو مختلف صنعتوں کی پیداوار رُک گئی۔ ایسی رکاوٹوں کی وجہ سے کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ آٹو انڈسٹری، نیٹ ورکنگ کے آلات، کنزیومر الیکٹرانکس اور دیگر شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
آج سیمی کنڈکٹر عالمی جغرافیائی سیاست کے مرکز میں ہیں۔ چونکہ چِپ بنانے کی صنعت صرف چند علاقوں میں مرکوز ہے، اس لیے معمولی سی رکاوٹ بھی دنیا بھر میں اثر ڈال سکتی ہے۔ کہیں بجلی کی بندش یا کسی فیکٹری میں حادثہ پوری سپلائی کو روک سکتا ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور معیشت و سلامتی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
حال ہی میں نایاب ارضی مقناطیس پر بڑھتی ہوئی توجہ اس بات کی بڑی یاد دہانی ہے کہ اہم وسائل پر کنٹرول عالمی طاقت کے توازن کو کیسے بدل سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سیمی کنڈکٹر بھی ڈیجیٹل دور کے ایک نہایت اہم وسیلہ بن چکے ہیں۔
بڑھتی ہوئی طلب
سیمی کنڈکٹر کی طلب مستقبل میں صرف بڑھتی ہی جائے گی۔ ہماری اپنی الیکٹرانکس کی کھپت اور پیداوار بے مثال رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ آج بھارت میں 65 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ فون صارفین موجود ہیں اور ہماری الیکٹرانکس مال سازی سالانہ 12 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ رہی ہے۔
اسی کے ساتھ ہم مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام، ڈیٹا مراکز اور برقی گاڑیاں بھی تیار کر رہے ہیں جنہیں سیمی کنڈکٹر چِپس کی ضرورت ہے۔ طلب اور اختراعات میں یہ زبردست اضافہ بھارت کے لیے ضروری بنا دیتا ہے کہ وہ عالمی سیمی کنڈکٹر ویلیو چین میں اپنی مضبوط جگہ محفوظ کرے۔
بس چھوٹنے سے مستقبل کی گاڑی چلانے تک
دہائیوں تک بھارت سے کہا جاتا رہا کہ اُس نے سیمی کنڈکٹرز کے معاملے میں ’’بس مس کر دی ہے‘‘ لیکن اب یہ بات درست نہیں رہی۔ بھارت سیمی کنڈکٹر مشن کے تحت 10 سیمی کنڈکٹر پلانٹس کو منظوری دے چکا ہے اور ان کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔
آج ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پہلا ’میڈ اِن انڈیا‘ چِپ اسی سال تیار ہو کر سامنے آئے گا۔ سانند میں ایک یونٹ نے ابتدائی پیداواری لائن شروع بھی کر دی ہے اور ایک سال کے اندر مزید چار یونٹس کے پروڈکشن میں آنے کی توقع ہے۔
عالمی لیڈر کمپنیاں جیسےایپلائیڈ میٹریلز، لیم ریسرچ، مر ک اور لنڈے بھارت میں سپورٹنگ فیکٹریوں اور سپلائی چینز میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہ ایکو سسٹم اپروچ وزیر اعظم کے اس ویژن کی عکاسی کرتا ہے جس میں بھارت کی سیمی کنڈکٹر صنعت کی طویل مدتی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔
یہ کامیابی کئی عوامل کے امتزاج کا نتیجہ ہے جو نہایت قلیل وقت میں حاصل کی گئی۔ اس میں وزیر اعظم کا واضح نظریہ، عمل درآمد پر غیر معمولی توجہ، فیصلہ سازی پیشہ ور ماہرین کے ہاتھوں میں دینا، عالمی تعاون اور ریاستی حکومتوں کی مضبوط حمایت جیسے عوامل شامل ہیں۔ بھارت تاریخ کے بس اسٹاپ پر انتظار کرنے والی قوم سے نکل کر مستقبل کی گاڑی خود چلانے والا ملک بن چکا ہے۔ اس میں ہمارے ڈیزائن اور ٹیلنٹ پول کا نمایاں کردار ہے۔
ڈیزائن اور صلاحیت: بھارت کا اسٹریٹیجک ہتھیار
پالیسی اور سرمایہ کاری بھارت کے اصل اثاثے یعنی اس کے لوگوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت کے پاس آج دنیا کی 20 فیصد سے زیادہ ڈیزائن ورک فورس موجود ہے۔ صنعت کے ایک تخمینے کے مطابق اگلی دہائی کے آغاز تک دنیا کو ایک ملین سے زائد سیمی کنڈکٹر پیشہ وروں کی کمی کا سامنا ہوگا اور بھارت اس خلا کو پُر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
350 اداروں اور اسٹارٹ اپس کے60 ہزار سے زیادہ صارفین عالمی معیار کے الیکٹرانوی ڈیزائن خودکاری (ای ڈی اے) آلات استعمال کر رہے ہیں، جو حکومتِ ہند کی طرف سے بالکل مفت فراہم کیے گئے ہیں۔ صرف 2025 میں ہی ان آلات کے استعمال کا وقت 1.2 کروڑ گھنٹوں سے تجاوز کر گیا ہے۔
اسٹارٹ اپس بھارت کے چِپ ڈیزائن ایکو سسٹم کو نئی توانائی فراہم کر رہے ہیں، جنہیں حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ مائنڈ گرو ٹیکنالوجیز آئی او ٹی چِپس تیار کر رہی ہے جو آئی آئی ٹی مدراس کے مقامی طور پر تیار کردہ شکتی پروسیسر پر مبنی ہیں۔
ایک اور اسٹارٹ اپ نیٹراسیمی نے حال ہی میں 107 کروڑ روپے کی ریکارڈ فنڈنگ حاصل کی، جو بھارت کی سیمی کنڈکٹر ڈیزائن انڈسٹری میں سب سے بڑی وینچر کیپیٹل سرمایہ کاری میں سے ایک ہے۔ یہ اس شعبے پر سرمایہ کاروں کے بڑھتے اعتماد کی واضح مثال ہے۔
حکومت ہند کی ڈیزائن سے متعلق ترغیباتی اسکیم (ڈی ایل آئی) اسکیم کے تحت ایسے کئی اسٹارٹ اپس کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو بھارت کو سیمی کنڈکٹر ڈیزائن کے میدان میں عالمی قیادت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
کلاس روم سے کلین روم تک
موہالی کے سیمی کنڈکٹر لیبارٹری (ایس سی ایل) میں 17 اداروں کے کالج طلبہ اب تک 20 چِپس تیار کر چکے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں مزید چِپس تیار کیے جائیں گے۔ صلاحیتوں کی اس طرح کی ترقی بھارت کو سیمی کنڈکٹر انڈسٹری میں ایک مضبوط پوزیشن دلائے گی۔
ایس سی ایل کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے تاکہ نوجوان موجدین کے خواب حقیقت کا روپ دھار سکیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارت کا ٹیلنٹ صرف کلاس روم تک محدود نہ رہے بلکہ کلین روم تک پہنچے۔
عالمی لیڈر بھی بھارت کے ٹیلنٹ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ لیم ریسرچ بھارت میں 60 ہزار انجینئروں کو تربیت دے گی۔ ایپلائیڈ میٹریلز، اے ایم ڈی اور مائیکروچِپ آر اینڈ ڈی کے لیے 1.1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ آئی آئی ایس سی، آئی آئی ٹیز اور دیگر اداروں کے ساتھ شراکت داری ایک مضبوط لیب ٹو فیب ورک فورس تیار کر رہی ہے۔
بھارت امریکہ، جاپان، یورپی یونین اور سنگاپور کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے تاکہ مستقبل کے لیے تیار ٹیلنٹ بنایا جا سکے۔ مقامی ٹیلنٹ اور عالمی تعاون کا یہ امتزاج اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ بھارت صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دنیا کے لیے بھی بنا رہا ہے۔
ڈیجیٹل انڈیا سے سیمی کان انڈیا تک
بھارت کا سیمی کنڈکٹر سفر عزت مآب وزیر اعظم نریندر مودی کے وسیع ویژن کا حصہ ہے۔ یہ سفر ڈیجیٹل انڈیا سے شروع ہوا، ایک ایسا مشن جس نے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنایا اور شہریوں کو بااختیار بنایا۔ انڈیا اسٹیک، یو پی آئی، آدھار اور ٹیلی کام نیٹ ورکس نے ہر بھارتی کو انگلی کی نوک پر ٹیکنالوجی تک رسائی دی۔
اسی کے ساتھ ہم نے اپنی الیکٹرانکس پروڈکشن ایکو سسٹم کو بھی مضبوط کیا۔ اب ہم سیمی کنڈکٹرز، الیکٹرانوی پرزہ جات اور آلات کے لیے مینوفیکچرنگ ماحول تیار کر رہے ہیں۔
سیمیکان انڈیا سمٹ 2025 جو آج سے شروع ہو رہا ہے، اسی سفر کا تسلسل ہے۔ وزیر اعظم آج اس سمٹ کا افتتاح کریں گے۔ اس سال 48 ممالک کے 500 سے زیادہ عالمی صنعتوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں، جبکہ پچھلے سال یہ تعداد تقریباً 100 تھی۔ دنیا ہمارے دروازے پر آ رہی ہے کیونکہ غیر یقینی حالات میں بھارت دنیا کی امید ہے۔
جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملیشیا کے خصوصی پویلینز معنی خیز تعاون کو فروغ دیں گے۔ اس کے علاوہ بی ٹو بی مباحثے، معاہدے اور شراکت داریاں بھی ہوں گی جن میں صنعت اور دنیا بھر کے نوجوان ٹیلنٹ شامل ہوں گے۔
’پروڈکٹ نیشن‘
ہمارا ہدف بھارت کو ایک ’’پروڈکٹ نیشن‘‘ بنانا ہے۔ ہمارے سیمی کنڈکٹر پلانٹس کی پیداوار ٹیلی کام، آٹوموٹیو، ڈیٹا سینٹرز، کنزیومر الیکٹرانکس اور انڈسٹریل الیکٹرانکس جیسے اہم شعبوں کی خدمت کرے گی۔ یہ صرف بھارت کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہوگی۔
اگلی دہائی میں جب ہمارے سیمی کنڈکٹر یونٹس اپنی مکمل صلاحیت اور بڑے پیمانے کی پیداوار تک پہنچیں گے تو بھارت پوری سیمی کنڈکٹر ویلیو چین کا ایک مسابقتی مرکز بننے کے لیے تیار ہوگا۔