ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
بھارت کا آئین جمہوریہ بھارت کا دستور اعلیٰ ہے ، اس دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی نکات ، حکومتی اداروں کے ڈھانچے ، طریقۂ کار اور اختیارات کا ذکر ہے۔ نیز بھارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ بھارت کا آئین دنیا کا سب سے اچھا تحریری دستور ہے ، آئین کی مجلس مسودہ ساز کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ رام امبیڈکر تھے ، جن کو آئین کا معمار اعظم کہا جاتا ہے ۔بھارت کا آئین تمہید سے شروع ہوتا ہے، تمہید میں مندرجہ ذیل باتیں تحریر ہیں :
’’ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماجوادی، غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لئے حاصل کریں۔
انصاف ، سماجی ، معاشی اور سیاسی آزادی خیال ، اظہار ، عقیدہ ، دین اور عبادت ،مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع اور ان سب پراخوت کو ترقی دیں ، جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد ، سالمیت کا تیقن ہو۔اپنی آئین ساز اسمبلی میں ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں ، وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں ۔‘‘
بھارت کا آئین ملک بھارت اور اس کی جمہوریت کا محافظ ہے ، بھارت کے آئین کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے ، کیونکہ اس کو مجلس دستور ساز نے بنایا ہے ، آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارت کے عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے ، اس لئے اسے پارلیمان کو معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔
بھارت کے آئین کو مجلس دستور ساز نے۲۶؍ نومبر۱۹۴۹ء کو تسلیم کیا اور۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ کیا ، اسی مناسبت سے۲۶؍ جنوری کو یوم جمہوریہ کے طور پہ منایا جاتا ہے۔
بھارت کا آئین بھارت کو آزاد، سماجی ،سیکولر اور جمہوری ملک بناتا ہے اور عوام کے لئے انصاف ،مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور تمام مذہبی اقلیتوں کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
بھارت کے آئین کا مسودہ مجلس دستور ساز نے تیار کیا ۔مجلس دستور ساز کے ارکان کو اسمبلیوں کے ارکان نے منتخب کیا تھا ، آئین کے مسودہ کی تیاری میں تین سال لگے ۔
بھارت کے آئین کے کئی حصے ہیں ۔حصہ اول میں یونین ، اس کے علاقے اور ریاستوں کا ذکر ہے ، ساتھ ہی اس کے حقوق کے بارے میں بھی وضاحت مذکور ہے ، حصہ ۲؍میں شہریت کی وضاحت کی گئی ہے کہ کسے بھارتی شہری کہلانے کا حق ہے اور کسے نہیں ؟ حصہ۳؍ میں بھارت کے آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی تفصیلات مذ کور ہیں۔ حصہ ۴؍ میں مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول اور حصہ۵؍ میں یونین کا تذکرہ ہے۔
بھارت کے آئین کے حصہ سوم میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے ، یہ بنیادی حقوق ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کو شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں ، یہ بنیادی حقوق ریاست کو فرد کی ذاتی آزادی میں دخل اندازی سے باز رکھتے ہیں ،نیز ریاست پر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لازم کرتے ہیں ،بنیادی حقوق مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) مساوات کا حق(۲)آزادی کا حق(۳) استحصال کے خلاف حق(۴)مذہب ، ثقافت اور تعلیم کی آزادی کا حق (۵) آئینی چارہ جوئی کا حق ۔ ان میں سے دو حقوق کی وضاحت پیش ہے :
(۱)مساوات کا حق:۔مساوات کا حق آئین کی اہم ضمانتوں میں سے ایک ہے ، اس حق کا تذکرہ دفعہ۱۴؍ اور دفعہ ۱۵؍میں ہے۔ دفعہ۱۴؍ قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور ملک کے تمام شہریوں کو یکسا ں قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ دفعہ۱۵؍ میں مذہب نسل ، ذات ، جنس ، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے ، جبکہ دفعہ۱۶؍ میں عوامی روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے اور ریاست کو محض مذہب ، نسل ، ذات ، جنس ، جائے پیدائش ، جائے سکونت یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نیز اس دفعہ میں ریاست کے تمام پسماندہ طبقات کے شہریوں کو عوامی خدمات میں مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے مثبت کارروائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ دفعہ۱۷؍ میں چھوت چھات کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ دفعہ۱۸؍ میں ریاست کو فوجی یا تعلیمی امتیازات کو چھوڑ کر کسی کو بھی القاب سے نوازنے سے منع کیا گیا ہے ۔
(۲)آزادی کا حق:۔بھارت کے آئین نے ملک کے شہریوں کو آزادی کا حق بھی فراہم کیا ہے ۔اس حق کا تذکرہ دفعہ۱۹؍ سے دفعہ۲۲؍ تک میں ہے ، دفعہ ۱۹؍ میں شہری حقوق کے تحت۶؍ قسم کی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے ۔ یہ حقوق صرف ہندوستانی شہریوں کو حاصل ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں :
۱۔ اظہار رائے کی آزادی،۲۔ بغیر ہتھیار کے اجتماع کی آزادی،۳۔ تنظیم کی آزادی،۴۔ بھارت میں سفر کی آزادی،۵۔ بھارت کے کسی بھی خطے میں سکونت کی آزادی،۶۔ پیشہ ، کاروبار یا تجارت کی آزادی، یہ تمام آزادیاں دفعہ۱۹؍ سے دفعہ۲۲؍ تک میں مذکور ہیں ،ا گرچہ کچھ مناسب پابندیوں کے تحت ،جنہیں ریاست کی جانب سے ان پر نافذ کیا جا سکتا ہے ، دفعہ۲۳؍ اور دفعہ۲۴؍ میں استحصال کے خلاف حقوق کا تذکرہ ہے۔اسی حقوق آزادی میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے ، جس کی ضمانت بھارت کے آئین کے دفعہ۲۵؍ تا۲۸؍ میں دی گئی ہے ۔ بھارت مذہب کے معاملے میں ایک متنوع ملک ہے۔ دنیا کے اہم مذاہب میں سے چار مذاہب یعنی ہندو مت ، جین مت ، بودھ مت اور سکھ مت کا آغاز یہیں سے ہوا ، ان کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے مسلم ، عیسائی وغیرہ بھی یہاں رہتے ہیں۔ یہاں کا آئین ان تمام مذاہب کو آزادی فراہم کرتا ہے ،اس طرح اس ملک میں ہندو ، مسلم ،سکھ اور عیسائی چار اہم مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں ، ان کے علاؤہ اور بھی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ بھارت کا آئین ان سبھی مذاہب کو آزادی فراہم کرتا ہے ۔ پھر دفعہ۲۹؍ میں تعلیمی و ثقافتی آزادی کے حقوق کا تذکرہ ہے ،جبکہ دفعہ۳۰؍ میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی کے حقوق کا بیان ہے۔
ملک بھارت کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے ، امن و محبت کا گہوارہ بنانے اور جمہوری اقدار کی تعمیر میں جس طرح علمائے کرام اور مسلم مجاہدین آزادی کا اہم کردار رہا ہے ، اسی طرح ملک میں آئینی اور جمہوری نظام قائم کرانے میں بھی علمائے کرام اور مسلم مجاہدین کا اہم کردار رہا ہے ۔ آئین سازی کے موقع پر ان حضرات نے دور اندیشی کا ثبوت دیا اور ملک میں آئینی اور جمہوری نظام کے قیام پر زور دیا ، انہیں حضرات کی قربانیوں اور بے لوث فکر مندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک جمہوری ملک کہلاتا ہے ، جہاں ملک کے آئین کو بالا دستی اور ہر مذہب کے ماننے والے لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے ، نیز ظلم اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج اور آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے ، ساتھ ہی ملک کی تعمیر و ترقی ، اس کی سالمیت ، امن و شانتی اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کا اختیار حاصل ہے ۔
موجودہ وقت میں کچھ لوگ ملک کے آئین میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے ،۲۶؍ جنوری یوم جمہوریہ ہے ، اس تاریخ کو یادگار کے طور پر بنایا جاتا ہے ، اس لئے ۲۶؍ جنوری یوم جمہوریہ کے موقع پر ہم سب عہد کریں کہ ہم بھارت کے آئین کی حفاظت کریں گے ، ملک کی تعمیر و ترقی ، امن و شانتی اور پیار و محبت کو عام کرنے میں بھرپور حصہ لیں گے ۔ بھارت زندہ باد ، بھارت کا آئین پائندہ باد
رابطہ9835059987 [email protected]