ندیم خان
کشمیر، جو بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جنت الفردوس کے نام سے بھی مشہور ہے، آج مایوس اور پریشانی کے سمندر کو اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے۔ بلاشبہ وادی کشمیر کے انگ انگ میں خوشبو بھری ہوئی تھی، ہر طرف پیار مہکتا تھا اور کشمیر کی صاف و شفاف آب وہوا سیاحوں کے لئے ہنسی و خوشی سے راگ چھیڑ دیتے تھے، ظاہر ہے ملک بھر کے سیاحوں کے یہاں آجانے سےکشمیر کی پھُلواریاں کھِل جایا کرتی تھیںاور ہر طرف تبسم و مُسکراہٹ نظر آتی تھیں۔لیکن آج کشمیر کی صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ 22 اپریل کو پہلگام بائسرن میں ہوئے خونین واقعہ کے بعد کشمیر کی وادی تا ایں دَم خاموشی میں گم ہوچکی ہے، جو اپنی خوبصورتی کو لےکر دنیا بھر میں جانی جاتی ہےاور سیاحوں کا دل لُبھاتی تھی ،وہ آج خود مایوسی کی تصویر بن چکی ہے۔اگرچہ بھارت نے پہلگام سانحے کا بدلہ پاکستان سے 7 مئی کو’’ آپریشن سیندور‘‘ کے تحت لے لیا ہے،جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کو انجام دیا گیا، جس سے دونوں اطراف سے تباہی کے مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ اس مختصر سی جنگ میں بھی جہاں کئی معصوم زندگیاںگولہ باری کی زد میں آکر تلف ہوئیں وہیں آر پار کے لوگوں کو مالی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ بھارت نے پاکستان میں چھپے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناکر پہلگام سانحہ کا حساب مکمل کرلیا تھا تاہم ترکی کو شاید یہ سب برداشت نہیں ہوا اور وہ پہلگام کے خونین سانحے سے آنکھ موند کے کھل کر پاکستان کے ساتھ اس جنگ میں ڈٹ کر کھڑا رہا تھا، جس کے ردِ عمل میں اب ترکی کو اس کا انجام بھی بھگتنا پڑ گیا۔ آپ کو بتا دیں کہ ترکی کی طرف سےبھارت کے خلاف پاکستان کاسپورٹ کرنا، بھارتی سرکار اور بھارتی عوام کی نظروں میں انتہائی ناپسندیدہ عمل رہاہےاور جس کے باعث بھارت کی طرف سےترکی اور آذربائیجان کے ساتھ باہمی تجارت جاری رکھنے کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی اور حکومت ہند سے ان دونوں ممالک سے درآمد شدہ اشیاء خاصکر سیبوں کی درآمد پر بائیکاٹ کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ 2024 میں بھارت کے تقریباً 3.5 لاکھ سیاحوں نے ترکی کا دورہ کیا تھا جبکہ 2 لاکھ لوگوں نے آذربائیجان کا دورہ کیا۔جس سے ان دونوں ملکوں کی سیاحتی تجارت کو فروغ ملا تھا۔ظاہر ہے کہ اب بھارتی ردِ عمل سے ان سب چیزوں پر منفی اثر پڑگیا ہے ،جس کے نتیجے میں ترکی اور آذربائیجان کے ذرائع آمدن پر بڑے پیمانے پر منفی اثر پڑنے والا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور ترکی کے درمیان تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے، اُس پر بھی اب منفی اثر پڑسکتا ہے،گویا ترکی نے پاکستان کا سپورٹ کرکےخود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار دی ہے۔
دوستو!بھات اور پاکستان کے مابین اس مختصر سی جنگ میں جہاں کشمیر یوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے وہیںبڑے پیمانے پر مالی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔پہلگام واقعہ نے جہاں کشمیرکی سیاحتی صنعت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے وہیںہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں کو بھی مکمل طور پر ٹھپ کردیا ہے،جس کے نتیجے میں ہر سُو مایوسی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ہزاروں لوگوں کا روز گار چھِن چکا ہے اور سیاحتی مقامات پر خاموشی کا عالم ہے۔بھارت اور ترکی کے درمیان تجارتی معاملات میں خلل پڑجانے کے نتیجے میں کشمیر کی میوہ صنعت خصوصاً سیب باغات کے مالکان اور سیب کاشتکاروں کو کسی حد تک فائدہ پہونچے کا امکان ہے، کیونکہ ترکی سے سیب کی درآمد بند ہونے سے کشمیر کے سیب پیدا کرنے والوں کو اب ضرور فائدہ ملے گا۔ آپ کو ہم بتا دیں کہ ترکی سے ہر سال دو لاکھ ٹن سے زیادہ سیب بھارت آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کےبازاروں میں سیبو ںمیں مقابلہ بڑھ جاتا ہے اور کشمیر کے سیب کی قیمتوں میں گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن اب کشمیری عوام کے لئے یہ راحت کی سانس لینے کی بات ہے ہے کہ بھارتی حکومت نے ترکی سے سیب کی درآمد پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ ترکی کے سیب اب بھارت کی میوہ منڈیوں میں دیکھنے کو نہیں ملا کریں گے، جس سے کشمیر ی سیبوںکی بڑے پیمانے پر کھپت ہونے کی امید ہےاورکشمیری سیب کاشتکاروں کو اپنے سیبوں کی اچھی قیمت ملنے کا امکان ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ ترکی کے سیب کا کشمیر کے اچھے معیار کے سیب پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ ترکی سے آنے والے سیب پر کوئی درآمدی ڈیوٹی نہیں ہے۔ جس کی کی وجہ سے ترکی سے سیب سستے داموں میں بھارتی میوہ بازاروں میں پہنچتے ہیں اور کشمیر کے سیب کو اُن سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے سیب کی قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ ایک ڈیٹا کے مطابق سال 2023-24 میں، بھارت نے ترکی سے 842 کروڑ روپے کے سیب درآمد کئے تھے۔ آپ کو یاد دلا دیں کہ گزشتہ چند سالوں میں ترکی سے بھارت میں سیب کی درآمدات میں لگاتار اضافہ ہوا ہے، ڈیٹا کے مطابق:
2015-16: 204 ٹن، 2016-17: 3,640 ٹن
2017-18: 7,330 ٹن، 2018-19: 16,134 ٹن
20-2019: 32,105 ٹن، 2020-21: 65,432 ٹن
2021-22: 93,956 ٹن، 2022-23: 1,07,233 ٹن
2023-24: 1,17,440 ٹن
سوپور بارہمولہ میوہ منڈی کے صدر جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ترکی سے آنے والے سیب عام معیار کے سیب کو متاثر کرتے ہیں۔ اگرچہ کشمیر میں بھی اچھے معیار کے سیب ہوتے ہیں لیکن لوگوں کی غیر ملکی مصنوعات خریدنے کی عادت کی وجہ سے کشمیر کے سیب پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، جس سے سیب کاشتکاروں کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے کشمیر کے اعلیٰ ترین سیب پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ کشمیر میں سیب کا کاروبار 8 ہزار کروڑ روپے کی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ سیب پورے بھارت میں صرف 8 ریاستوں میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ جس میں سے 60 فیصد پیداوار کشمیر سے ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماچل، کلو، کنور اور منڈی اضلاع میں بھی اچھی پیداوار ہوتی ہے۔ دوسرے ممالک سے سیب کی آمد کی وجہ سے کشمیر کے سیب کی قیمتیں کم ہورہی رہی تھیں۔ کشمیر کے کاشتکار اس وقت ترکی سے سیب کی درآمد روکنے پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جب سے ترکی نے پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کی مدد کی تھی۔ اس حوالے سے کشمیر کی باغبانی تنظیموں نے بھارتی حکومت کو لگاتار خطوط لکھ کر ترکی سے سیب کی درآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ اس سے پہلے سال 2023 میں کشمیر کے سیب کاشتکاروں اور صنعت سے وابستہ لوگوں نے مودی حکومت سے التجاء کی تھی کہ ملک کے سیب کی صنعت کی بقاء کے لیے غیر ملکی سیب خاصکر ترکی سے آنے والے میوہ جات کی تجارت کو بند کیا جائے، تاکہ کشمیر کے کاشتکاروں کو سیب کی اچھی قیمت مل سکے۔ اس سلسلے میں ہم نے اس صنعت سے وابستہ کاروباری محمد اقبال سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں غیر ملکی سیب دستیاب ہونے سے کشمیری سیب کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آرہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت کے اس فیصلے سے کشمیری کاشتکاروں کو کچھ راحت ملنے کی امید ہے اور شاید اس سے کشمیر کے سیب کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ وہی بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے جاوید احمد میر نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت 13 ایکڑ کے باغ میں سیب کے لگ بھگ 250 درخت موجود ہیں، جس سے انہیں ہر سال عام طور سے 3500 ڈبّے پھل حاصل ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک ڈبّے میں 25 کلو سیب ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سال بھر اتنی محنت کے بعد بھی’’ہم ایک ڈبّہ صرف 800 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ یہی ہے کہ جو غیر ملکی سیب کشمیر آرہا ہے، اسی کی وجہ سے کشمیر کے سیب کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے گراوٹ دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڈگام ضلع کے کریم شورا گاؤں کے 52 سالہ امتیاز احمد شیخ کی طرح ہی، کشمیر کے زیادہ تر کاشتکاروں کو اسی قسم کے بڑے مالی خسارہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اب مرکزی حکومت نے ترکی سے تجارت کا بائیکاٹ کر کے ہمارے اس شعبے میں چار چاند لگا دئیے ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ اس بار ہمارے سیب اچھی قیمتوں میں فروخت ہوںگے۔اور جو کشمیر میں سیب کی یہ پوری صنعت گزشتہ کچھ سالوں سے زبردست بحران کی شکار تھی شاید اب اس بحران سے کاشتکاروں کو چھٹکارا حاصل ہوگا۔ آپ کو ہم بتا دیں کہ مقامی اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ اسی سیب پر مبنی ہے۔ جموں و کشمیر میں سیب کی باغبانی بہت بڑے رقبے میں کی جاتی ہے، جس سے سال 22-23-24- میں سیب کی کل پیداوار 563 ملین (13 لاکھ 52 ہزار 320) میٹرک ٹن سے زیادہ ہوئی (ڈائریکٹوریٹ برائے باغبانی، کشمیر کا ڈیٹا)۔ جموں و کشمیر حکومت کے محکمہ باغبانی کا تخمینہ ہے کہ جموں و کشمیر میں باغبانی (بشمول سیب) 35 لاکھ لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، وہی باغبانی کے ڈائرکٹر، نے میڈیا کو بتایا کہ یہ صنعت 1002 ہزار کروڑ روپے کی ہے۔ وہی ریاست( یونین ٹیریٹری) کے باہر سے آنے والے مزدوروں کو پوری وادی کشمیر میں پھیلے باغات میں روزگار ملتا ہے جو پورے سال باغیچوں کی رکھوالی سے لے کر سیب کی پیکنگ تک سب کام کرتے تھے۔ لیکن ہند پاک تناؤ کے بعد وہ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے ہیں جس سے اب کشمیری کاشتکاروں کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وہی ترکی نے پاکستان میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف بھارت کی کارروائی کی وجہ سے پہلگام قتل عام کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں کھل کر پاکستان کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نہ صرف سفارت کاری کی سطح پر بلکہ فوجی سازوسامان فراہم کر کے دکھایا۔ ایسی حرکت پر بھارت نے جوابی کارروائی میں ترکی کے ساتھ ہر طرح کی تجارت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ ظاہر ہے کہ ترکی کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ ہورہی اپنی تجارت کو زک پہنچانا یا ختم کرنا ہرگز نہیں چاہتا تھا لیکن حالیہ ہند و پاک مختصر جنگ میں پاکستان کی حمایت کے نتیجے میں ایسا ہوچکا ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کو بھارت کے ساتھ تجارت اور سیاحت کے میدانوں میں اگر اس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑے، تب بھی وہ پاکستان کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا۔جو کہ آنے والے وقت میں ترکی کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہوگا۔ کیونکہ جس طرح اس کے ڈرون بھارت کے خلاف ناکام ہوئے، اس سے عالمی منڈی میں اس کی ساکھ کافی حد تک گر گئی ہے۔ ایسا ہی پہلے روس اور یوکرین کے درمیان ہوا تھا۔ یوکرین نے اِن ڈرونز کی مدد سے روس پر حملہ کیا تھا اور کچھ ڈرون کریملن تک بھی پہنچ گئے تھے۔ لیکن کوئی وقت ضائع کیے بغیر روس نے اپنا فضائی دفاعی نظام اتناتندرست و توانا کر دیا کہ یوکرین ہِل کر رہ گیا۔ ترکی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ترک ڈرونز کے لیے دوسرا بہت بڑا دھچکا ہے۔فی الحال ترکی پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا،اور اپنے اوپرآنے والے بحران کو نہیں دیکھ رہا ہے۔آگے کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
رابطہ۔ 9596571542
[email protected]