بھارتی و فود کی آمد ورفت!

Kashmir Uzma News Desk
10 Min Read
کشمیری قوم کب ہندوستانی سیاست کاروں کے دھوکے میں آتے رہیں گے ؟یہ لوگ اب ہماری کھلم کھلا دشمنی پراتر آئے ہیں مگر افسوس کہ بعض کشمیری مسلم سیاست کار ان منہ میں رام رام بغل میں چھری رکھنے والوں کو اپنا ہمدرد و مخلص سمجھتے چلے آرہے ہیں۔ شیخ عبداﷲ کشمیریوں کی ا یک مایہ ناز سیاسی شخصیت تھے مگر سیاست کے اونچے بادلوں کو چھونے لگے تو  بجائے قوم کے درد کادرماں بننے کے وہ اغیار کو راز دار و ہمدرد سمجھ کر ان کے مکارانہ جال میں آگئے۔ پہلے 1938میں  مسلمانوں کی سیاسی تحریک مسلم کانفرنس کو توڑ کر نیشنل کانفرنس قائم کی پھر جب7 194 میں ہندوستان آزاد ہوا اور پاکستان نئی مملکت کے طور دُنیا کے نقشہ پر اُبھر آیا تو ہندوستان کی بالائی قیادت کے دام فریب میں آکر عارضی الحاق کی توثیق کر دی ۔ انڈیا نے اس سے فائدہ اٹھاکر مکاری و جعلسازی کے علاوہ طاقت کے بل بوتے پر ملک کشمیر میں فوج کشی کی اور یہاں اپناپڑاؤڈال دیا جس کا خمیازہ ابھی تک یہاں کے لوگ اٹھا رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی آمدکشمیر پر شیخ عبداﷲ نے انہیں’’طیراََ ابابیل‘‘ (سورہ فیل پارہ عمہ) سے مشابہ قراردیا تھا ،یہ ان فوجیوں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے کی بد ترین مثال ہے۔ اسی طرح جب پنڈت جواہر لال نہرو نے لال چوک سرینگر میں کشمیری عوام کے ایک بھاری اجتماع میں تقریر کرتے یہ وعدہ دہرایا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کا بھر پور موقع فراہم کیا جائے اور شیخ عبداﷲ نے اس موقعہ پر یہ امیر خسرو کی یہ پاک نعت شریف ’’من تو شدم تو من شدی‘‘  نہرو کی شان میں دہرائے توآسمان بھی تھرا  اٹھاہوگا ۔ یہ امیر خسرو جیسے ایک ولی کامل نے رسول اکرم ﷺ کے عشق ، عقیدت و محبت میں فرما ئے تھے مگر شیخ عبداﷲ نے ترنگ میں آکر اسے ایک غیر مسلم کے نام استعمال کر کے اہل کشمیر کے لئے گویاقہر الہیٰ کو دعوت دی ۔ اسی پنڈت نہرو نے آگے نہ صرف شیخ کو جیل میں سڑادیا بلکہ کشمیریوں کو زندگی کے ہر شعبے میں توڑ کے رکھ دیا اور نیم بر صغیر ہندو پاک میں اگر کوئی قوم پر یشان حال ہے، پسماندہ ہے ، مر رہی ہے ، مٹ رہی ہے تووہ مسلمان قوم وملت ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وقت مسلمان سیاست کار وں ( جنہیںسیاہ کار کہنا مناسب ہوگا) نیدوچہرہ والے  ہندوؤںکا ساتھ دینے میں آ گے پیچھے کچھ بھی نہ دیکھا ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ا یک لمحوں کی بھول سے ہم صدیوں کی سز ا پارہے ہیں۔ 
سالہا سال سے یہاں ہندوستانی و فود سرکاری وغیر سرکاری طور کشمیریوں کے حالات جاننے آتے آرہے ہیں۔ کیا ہندوستانی سیاست کار یہ نہیں جانتے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور یہاں کے لوگ اس تنازعے کا حتمی ، پُر امن اور مبنی بر انصاف حل چاہتے ہیں ؟ کیا وہ اس بات سے واقف نہیں کہ یہاںہندوستان نے ہمیشہ مکاری جعلسازی، غیر آئینی ، غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر انسانی و ظلم جبر کے ساتھ دفعہ ۳۷۰ کا جنازہ نہ اٹھایا؟ کیااپنا فوجی قبضہ جما ئے رکھنے کے لئے اس نے آج تک لاکھوں معصوم کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار کے نہ رکھ دیا ہے؟ کیا ہزاروں کے تعداد میں معصوم کشمیری نو جوانوں کو ہندوستانی سپاہیوں نے کشمیریوں کو گرفتارکر کے زیر حراست غائب نہیں کر دیا ہے؟ کیا لا چار و بے کس کشمیری عورتوں کی ایک بڑی تعداد کی ہندوستانی سپاہیوں ئے عصمت دری کر کے سیتا ماں کو نہیں رُلایا ہے ؟ کیا آج تک سینکڑوں بستیاں ، تجارت گاہیں ، بازاروں کو بم دھما کو ں سے مسمار کر کے زمین بوس نہ کر دیا گیا؟ کیا اقتصادی، معاشی، سیاسی و اخلاقی طور کشمیریوں کو توڑ کر رکھنے کے لئے یہاں نے نئے ڈرامے نہیں رچائے گئے ہیں؟ ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ انہی ہندوستانی سیاست کاروں کی دین افسپا اور پی ایس اے ہیں، انہی میں کچھ شاطر لوگ مصیبت زدہ کشمیریوں کے آنسو پونچھنے کا ڈرامہ کرتے رہے ، کچھ مکاری اور دھوکہ دہی کی حدیں چھوتے ہوئے اکارڈ اور ایجنڈآف الائنس کے تماشے دکھاتے رہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ اس بار ہندوستان کا ایک غیر سرکاری وفد بھاجپا نیتاور سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا اور دوسرا وفدزیر رہنمائی کانگریس لیڈڑ شری منی شنکر آئیر کشمیریوں کے ’’حالات جاننے‘‘ کے لئے وار دِ سری نگرہوئے تھے۔ ہمارا اُن سے سیدھا سا سوال ہے کہ کیا ہندوستانی سیاست کار ، سماجی رہنما ، ایجنسیاں ، فوجی ونیم فوجی کماندان نہیں جانتے کہ ملک کشمیر پر ہندوستان کے تسلط سے یہاں کے عوام کے ساتھ کیا کیا پیش آرہاہے۔ چلئے ہم بتا دیتے ہیں ، بات صاف ہے کہ کشمیر حل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل نے 23؍ قرر داریں پاس کی ہیں مگر پھر بھی ا بھی تک مسئلہ کشمیر حل طلب ہے، وجہ کیا ہے ؟ کیوں کہ خطہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ہندوستان دس لاکھ سے زاید فوجی و نیم فوجی تعینات کرکے اپنی موجودگی یہاں بندوق کی نوک پر منوارہاہے اور ان سپاہیوں نے یہاں انسانی حقوق پا مالیاں کے تمام ریکارڑ توڑ کے رکھ دئے ہیں۔اس کے لئے ترقی اور شباشی ملتی ہے ۔ حال ہی میں آر آر کے میجر گو گوئی نے ایک کشمیری نو جوان کو ۹ اپریل کے دن اپنی فوجی جیپ کے اگلے حصے میں باندھ کر بیروہ کشمیرمیں عین الیکشن پر دن بھر گھمایا اور یہ ثابت کر دیا کہ ایک نوجوان کو ڈھال بناکر ہندوستانی سپاہی حقوق انسانی کے پا مالیوں کے لئے کس حد تک گر سکتے ہیں۔ ان گھمبیر حالات و واقعات کی موجودگی میں ایک عام کشمیر ہندوستانی سیاست کاروں (مکاروں کے ریوڑ) کے میٹھے میٹھے بول سے کیا مدہوش ہوجائیں گے ؟  ہم لوگ جانتے ہیں کہ ہم ان کے کس کس ظلم کے شکار ہو کر چلے آتے ہیں۔ اس کے لئے حکومت ہند اور بھارت کے بغل بچے اقتدار نواز کشمیری سیاست کار ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔کشمیر حل کے لئے ہر کشمیری سر پر کفن باندھے ایک سیاسی تحریک کا آغاز کرچکا ہے جو     اغیار کے ساتھ ساتھ ہند نواز لیڈروں ، دلی کے سیاست کاروں ، حکمرانوں اور پالیسی سازوںکے لئے صاف صاف لفظوںمیں واضح پیغام ہے کہ بہت تباہی ہوئی لیکن اب کشمیریوں کو ان کا اپنا پیدائشی حق یعنی حق خودارادیت دیا جانا لازمی بن چکا ہے۔ اس کام کی تکمیل تک یہ جدوجہد جاری وساری رہے گی چاہے ہند نواز نام نہاد کشمیری لیڈر دلی کے ساتھ مل کر کتنی ہی سازشیں رچائیں اور ظلم وجبر کی کالی رات کو کتنا ہی طول دیں ۔ البتہ ہمیں خاص کر ان پتھر دل سیاست کار وں جوصرف مکاری جلعسازی و دھوکہ دہی سے کام چلا تے ہوئے کشمیریوں کا ہر طرح سے استحصال کرتے ہیں ، سے ہی چوکنا نہ رہنا ہوگا  بلکہ ان غیر حکومتی بھارتی وفود سے بھی یہ توقع نہیںکرنی چاہیے کہ وہ انصاف کریںگے اور حق کا ساتھ دیں گے، پھر بھی ہم سے جو ہمارے دُکھڑے کے متعلق پوچھے ہمیں اس کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔ آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ  قدرت عنقریب یہاں ایسا ہوا تحریک ماحول قائم کرے گا کہ کشمیری عوام کی رنگ لائیں گی اور لوگ ہندوستان کے ظلم و جبر و اور اس کے چیلے چانٹوں کی زیادتیوں اورنا انصافیوں سے آزاد ہو ں گے۔ کیونکہ اوپر والے کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ قوم کی بیش قیمت قربانیاں لائیں گی اور کشمیر کا مستقبل ان شاء اللہ تابناک ہوگا ۔
  9858434696
 
 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *